"ایک ادھوری شام کی مکمل کہانی "
وہ ایک بڑا آدمی تھا لیکن اُس کے اندر ایک چھوٹا سا بچہ اپنی پوری تازگی کے ساتھ سانس لیتا تھا۔وطن کی مٹی سےوفا کا لباس اس کی اولین محبت اور لفظ سےعشق اس کی زندگی کا حاصل تھا۔ لفظ کی محبت اُسے لکھاریوں کی جانب کھینچتی ۔ وہ اُن آنکھوں اُن چہروں کو پڑھنا چاہتا جو لفظ سوچتے لفظ تراشتے تھے۔ وہ لفظ پڑھتا ہی نہیں اُن کے اندر اُتر کر انہیں محسوس بھی کرتا۔لفظ کے ساتھ ساتھ نامور لکھاریوں سے ملنا۔۔۔ باتیں کرنا۔۔۔اُن کو چھو کراُن کے وجود سےقربت کااحساس تسکین تو دیتا۔۔۔ لیکن اپنے اندر کی پیاس بےچین ہی رکھتی۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔۔۔ وہ بڑے ہو کر بھی اُس بچے کے اندر کا بڑا پن نہ دیکھ سکے۔اُن کے پاس اُس کے سوالوں کے جواب نہ ہوتے۔اسے بہلاتے چمکارتے لیکن مطمئن نہ کر سکتے۔ وہ خاموشی سے اندر کی آگ چھپائے رفاقتوں کےخزینے اپنی یادوں میں سمیٹے جاتا۔ علم کی تلاش کے سفر میں اُس نےکتاب وفن کی دُنیا کو بہت قریب سے دیکھا۔۔۔اِن جانے مانے چہروں کے لفظ اور حقیقت میں اکثر اُسے گہرا تضاد ملا۔ اسباقِ زندگی یاداشت کے آرکائیو میں محفوظ ہوتے رہے۔جو محبت سے در کھٹکھٹاتا اُس کے سامنے یادوں کی پوٹلی کھول دیتا۔علم کی دولت جتنا بانٹتا کم نہ ہوتی ۔۔۔ جتنا لٹاتا۔۔۔۔ مالامال ہوتا جاتا۔ وہ تازگی جو لینے والے کو ملتی اُس سے بڑھ کر سکون اُس کے اندر اُترتا تھا۔
سوچ سفر کے انہی موسموں میں وہ ایک لکھاری سے ملا جس کے لفظ کی خوشبو نےاُسےلمحوں میں اسیر کر لیا۔۔۔۔ پر وہ اپنی آنکھ کے لمس سےبھی اس خوشبو کا احساس چاہتا تھا۔ لفظ کواُس نے ہمیشہ بےجان کاغذ کی قید میں محسوس کیا تھا اور وہ اس پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا تھا۔ شاید اُس کی زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کاغذ اور کتاب کے مضبوط حصار سے آزاد ایک جیتا جاگتا وجود لفظ کی گواہی دیتا تھا۔لکھاری سے زیادہ ایک بھرپور لیکن عام انسان کا روپ جہاں خوشگوار حیرت کا باعث تھا وہیں آنکھ کا یقین کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر بھی تھا۔ بولتی آنکھیں لفظ کی سچائی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتیں تو لہجے کی سادگی بناوٹ سے کوسوں دور محسوس ہوتی۔ وہ پہلی بار ملے تھے لیکن ایسا لگتا تھا جیسے پہلی بار سے پہلے بھی بہت بار مل چکے ہوں۔ یوں محسوس ہوا کہ آج وہ کسی مانوس اجنبی سے نہیں ملا بلکہ اپنے آپ سے ملا ہو۔ اپنا یہ چہرہ بھی تو اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔وہ تو زندگی کے میلے میں تنہائی کے خوف کو اپنی خوداعتمادی کے آہنی لباس میں چھپائے بس چلتا چلا جارہا تھا۔وقت اور حالات نے اُسے ایک دم ہی کھلے آسمان تلے شجرِسایہ دار کی صورت ایستادہ کر دیاتھا۔
اس سمے بھٹکتے بادل کی مانند وہ مہربان ساتھ یوں لگا جیسے تپتے بدن پر بارش کا پہلا قطرہ۔ کرسمس کی آمد کی نوید دیتی اس ڈھلتی شام کے خواب لمحے ہاتھوں میں دبی ریت کے ذروں کی طرح سرکتے جارہے تھے اور چاہتے ہوئے بھی کسی ایک پل کو سمیٹنا بس میں نہ تھا۔ لفظ لکھنا پڑھنا بہت آسان تھا لیکن اس کو آنکھ سے محسوس کرنا اور لمس سے جذب کرنا شاید مشکل ترین کام۔ لفظ خاموش تھے اور لمس حیران۔ وقت سے چرائے گئے چند لمحوں کا یہ ادھورا تعلق لفظ اور احساس کا یقین دے کر یاد کے آئینے میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔۔۔۔ایک خواب لمحہ حقیقت کی جھلک دکھا کر پھر خواب ہو گیا۔
دسمبر25۔۔۔۔ 2013
اسلام آباد
وہ ایک بڑا آدمی تھا لیکن اُس کے اندر ایک چھوٹا سا بچہ اپنی پوری تازگی کے ساتھ سانس لیتا تھا۔وطن کی مٹی سےوفا کا لباس اس کی اولین محبت اور لفظ سےعشق اس کی زندگی کا حاصل تھا۔ لفظ کی محبت اُسے لکھاریوں کی جانب کھینچتی ۔ وہ اُن آنکھوں اُن چہروں کو پڑھنا چاہتا جو لفظ سوچتے لفظ تراشتے تھے۔ وہ لفظ پڑھتا ہی نہیں اُن کے اندر اُتر کر انہیں محسوس بھی کرتا۔لفظ کے ساتھ ساتھ نامور لکھاریوں سے ملنا۔۔۔ باتیں کرنا۔۔۔اُن کو چھو کراُن کے وجود سےقربت کااحساس تسکین تو دیتا۔۔۔ لیکن اپنے اندر کی پیاس بےچین ہی رکھتی۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔۔۔ وہ بڑے ہو کر بھی اُس بچے کے اندر کا بڑا پن نہ دیکھ سکے۔اُن کے پاس اُس کے سوالوں کے جواب نہ ہوتے۔اسے بہلاتے چمکارتے لیکن مطمئن نہ کر سکتے۔ وہ خاموشی سے اندر کی آگ چھپائے رفاقتوں کےخزینے اپنی یادوں میں سمیٹے جاتا۔ علم کی تلاش کے سفر میں اُس نےکتاب وفن کی دُنیا کو بہت قریب سے دیکھا۔۔۔اِن جانے مانے چہروں کے لفظ اور حقیقت میں اکثر اُسے گہرا تضاد ملا۔ اسباقِ زندگی یاداشت کے آرکائیو میں محفوظ ہوتے رہے۔جو محبت سے در کھٹکھٹاتا اُس کے سامنے یادوں کی پوٹلی کھول دیتا۔علم کی دولت جتنا بانٹتا کم نہ ہوتی ۔۔۔ جتنا لٹاتا۔۔۔۔ مالامال ہوتا جاتا۔ وہ تازگی جو لینے والے کو ملتی اُس سے بڑھ کر سکون اُس کے اندر اُترتا تھا۔
سوچ سفر کے انہی موسموں میں وہ ایک لکھاری سے ملا جس کے لفظ کی خوشبو نےاُسےلمحوں میں اسیر کر لیا۔۔۔۔ پر وہ اپنی آنکھ کے لمس سےبھی اس خوشبو کا احساس چاہتا تھا۔ لفظ کواُس نے ہمیشہ بےجان کاغذ کی قید میں محسوس کیا تھا اور وہ اس پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا تھا۔ شاید اُس کی زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کاغذ اور کتاب کے مضبوط حصار سے آزاد ایک جیتا جاگتا وجود لفظ کی گواہی دیتا تھا۔لکھاری سے زیادہ ایک بھرپور لیکن عام انسان کا روپ جہاں خوشگوار حیرت کا باعث تھا وہیں آنکھ کا یقین کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر بھی تھا۔ بولتی آنکھیں لفظ کی سچائی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتیں تو لہجے کی سادگی بناوٹ سے کوسوں دور محسوس ہوتی۔ وہ پہلی بار ملے تھے لیکن ایسا لگتا تھا جیسے پہلی بار سے پہلے بھی بہت بار مل چکے ہوں۔ یوں محسوس ہوا کہ آج وہ کسی مانوس اجنبی سے نہیں ملا بلکہ اپنے آپ سے ملا ہو۔ اپنا یہ چہرہ بھی تو اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔وہ تو زندگی کے میلے میں تنہائی کے خوف کو اپنی خوداعتمادی کے آہنی لباس میں چھپائے بس چلتا چلا جارہا تھا۔وقت اور حالات نے اُسے ایک دم ہی کھلے آسمان تلے شجرِسایہ دار کی صورت ایستادہ کر دیاتھا۔
اس سمے بھٹکتے بادل کی مانند وہ مہربان ساتھ یوں لگا جیسے تپتے بدن پر بارش کا پہلا قطرہ۔ کرسمس کی آمد کی نوید دیتی اس ڈھلتی شام کے خواب لمحے ہاتھوں میں دبی ریت کے ذروں کی طرح سرکتے جارہے تھے اور چاہتے ہوئے بھی کسی ایک پل کو سمیٹنا بس میں نہ تھا۔ لفظ لکھنا پڑھنا بہت آسان تھا لیکن اس کو آنکھ سے محسوس کرنا اور لمس سے جذب کرنا شاید مشکل ترین کام۔ لفظ خاموش تھے اور لمس حیران۔ وقت سے چرائے گئے چند لمحوں کا یہ ادھورا تعلق لفظ اور احساس کا یقین دے کر یاد کے آئینے میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔۔۔۔ایک خواب لمحہ حقیقت کی جھلک دکھا کر پھر خواب ہو گیا۔
دسمبر25۔۔۔۔ 2013
اسلام آباد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں