کسی خاص موضوع پر جب لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا ہےتوجہاں اُستاد پوری طرح اس پرگرفت رکھتا ہے وہاں ایسےطالب علم بھی ہوتے ہیں جو اس بارے میں پڑھ کر آتے ہیں باقاعدہ نوٹس بناتے ہیں یا کتابیں پڑھتے ہیں اُس بات کو اپنے طور پر بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب وہ صرف اپنی تسلّی کے لیے کرتے ہیں نہیں سوچتے کہ اُستاد سے آگے نکلنا ہے۔ کچھ طالب علم بالکل کورے ہوتے ہیں وہ بھی ٹھیک سوچتے ہیں کہ جو نقش اُبھرنا ہے ایک بار ہی اُبھرے اُوورلیپنگ نہ ہو۔ لیکچر کے دوران اوّل الذکر بہت پُرجوش ہوتے ہیں وہ بہت جلد بات سمجھ جاتے ہیں ،بلاوجہ اعتراض نہیں کرتے صرف وہی سوال اُٹھاتے ہیں جو لیکچر سے پہلے اُن کے ذہن میں آئے تھے، لیکچر کے اختتام پربھی وہی لوگ ہاتھ اُوپر کرتے ہیں جن کی پہلے سے تیاری ہوتی ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں موضوع اتنا اہم اور وسیع ہے کہ ایک آدھ لیکچر سے سمجھ نہیں آسکتا اس لیے سیریز آف لیکچرز ہوتے رہتے ہیں۔
کوئی طالبِ علم بھی ایک بار میں اس بات کو نہیں جان سکتا ۔
یہاں انتظامیہ سے اکثر ایک غلطی ہو جاتی ہے کہ وہ سب کو ایک جیسا سمجھنے لگتے ہیں ۔ وہ یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کہ کوئی کس طرح اس بات کو جان سکتا ہے جیسے کہ وہ کہی جارہی ہے ۔ان کی منطق بھی درست نظر ہے کہ سب ایک ہی عمر کے لوگ ہوتے ہیں اور جس طرح پرچہ حل کرنے کا وقت تین گھنٹے ہوتا ہے اورکمرہ امتحان میں یہ وقت ہر حال میں گزارنا ہے تو وقت سے پہلے کوئی کس طرح باہر جا سکتا ہے۔ یہ وقت کا پیمانہ بھی ہر انسان کے لیےمختلف ہے۔ وہ طالب ِعلم جو نصاب سمجھ کر اسے اپلائی کرنا چاہتے ہیں اُن کے نزدیک مزید لیکچرلینا محض وقت کا ضیاع ہے۔ وہ عمل کے میدان میں اترنا چاہتے ہیں اُن کے نزدیک کسی تھیوری کے صحیح یا غلط ہونے کا پتہ ہی اس کی اپلیکیشن سے ہوتا ہے۔ یہ ہماری زندگی کہانی ہے بجائے اُن کے نکتۂ نظر کو سمجھا جائے یہ کہا جاتا ہے کہ ہر بار زیرو سے شروع کیا جائے۔ اب کس طرح ممکن ہے کہ جس نے سمندروں کی وسعت دیکھی ہو وہ معمولی ندی نالوں کا اسیر ہو جائے حالانکہ منزل سب کی ایک ہے یہ ندی نالے بھی سفر کرتے ہوئے بالاآخر سمندر سے ہم آغوش ہوجاتے ہیں اِن کا بھی اپنا حسن اپنی اہمیت اور اپنی گرفت ہے۔ لیکن کیا کیا جائے مسئلہ وقت کا ہے جو ہر آن گزرتا جا رہا ہے۔ ایک ایسی چادر ہے جو ہمارے ہاتھ سے پھسلتی جا رہی ہے ۔ ایک ایسی آندھی جو ہمارے قدم اکھاڑ رہی ہے۔ ہم کسی بھی وقت اس کاحصہ بن سکتے ہیں ۔ ہمیں وقت کا ساتھ دینا ہے اگر اس کے مخالف چلے تو کہیں کے بھی نہ رہیں گے۔
جو سبق جس وقت مل جائے جس وقت سمجھ آجائے غنیمت جانو اور اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو۔ کامیابی کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو۔
( میری پہلی تحریروں میں سے ایک)
مارچ14 ۔۔ 2003
کوئی طالبِ علم بھی ایک بار میں اس بات کو نہیں جان سکتا ۔
یہاں انتظامیہ سے اکثر ایک غلطی ہو جاتی ہے کہ وہ سب کو ایک جیسا سمجھنے لگتے ہیں ۔ وہ یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کہ کوئی کس طرح اس بات کو جان سکتا ہے جیسے کہ وہ کہی جارہی ہے ۔ان کی منطق بھی درست نظر ہے کہ سب ایک ہی عمر کے لوگ ہوتے ہیں اور جس طرح پرچہ حل کرنے کا وقت تین گھنٹے ہوتا ہے اورکمرہ امتحان میں یہ وقت ہر حال میں گزارنا ہے تو وقت سے پہلے کوئی کس طرح باہر جا سکتا ہے۔ یہ وقت کا پیمانہ بھی ہر انسان کے لیےمختلف ہے۔ وہ طالب ِعلم جو نصاب سمجھ کر اسے اپلائی کرنا چاہتے ہیں اُن کے نزدیک مزید لیکچرلینا محض وقت کا ضیاع ہے۔ وہ عمل کے میدان میں اترنا چاہتے ہیں اُن کے نزدیک کسی تھیوری کے صحیح یا غلط ہونے کا پتہ ہی اس کی اپلیکیشن سے ہوتا ہے۔ یہ ہماری زندگی کہانی ہے بجائے اُن کے نکتۂ نظر کو سمجھا جائے یہ کہا جاتا ہے کہ ہر بار زیرو سے شروع کیا جائے۔ اب کس طرح ممکن ہے کہ جس نے سمندروں کی وسعت دیکھی ہو وہ معمولی ندی نالوں کا اسیر ہو جائے حالانکہ منزل سب کی ایک ہے یہ ندی نالے بھی سفر کرتے ہوئے بالاآخر سمندر سے ہم آغوش ہوجاتے ہیں اِن کا بھی اپنا حسن اپنی اہمیت اور اپنی گرفت ہے۔ لیکن کیا کیا جائے مسئلہ وقت کا ہے جو ہر آن گزرتا جا رہا ہے۔ ایک ایسی چادر ہے جو ہمارے ہاتھ سے پھسلتی جا رہی ہے ۔ ایک ایسی آندھی جو ہمارے قدم اکھاڑ رہی ہے۔ ہم کسی بھی وقت اس کاحصہ بن سکتے ہیں ۔ ہمیں وقت کا ساتھ دینا ہے اگر اس کے مخالف چلے تو کہیں کے بھی نہ رہیں گے۔
جو سبق جس وقت مل جائے جس وقت سمجھ آجائے غنیمت جانو اور اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو۔ کامیابی کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو۔
( میری پہلی تحریروں میں سے ایک)
مارچ14 ۔۔ 2003
سچ تو یہ ہے کہ پہلا پیرا خوب سمجھا لیکن دوسرا۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریں