پیر, جنوری 24, 2022

"بچپن سےپچپن تک"

"بچپن سے پچپن تک"

پچیس جنوری ۔۔۔1967۔
پچیس جنوری۔۔۔2022۔

"جانا توبس یہ جانا کہ کچھ نہیں جانا"

بچپن اور پچپن کے بیچ لفظی طور پر دو "نقطوں" کا یہ فرق بچپن کی نادانی اور پچپن کی دانائی کا اُلٹ پھیر ہے یا پھر ہماری زندگی کے ادوار کو تین لفظوں میں سموتی ۔۔۔ بچہ،بڑا اور بوڑھا کی مثلث۔

بچپن کی نادانی سُنی سنائی بات ہی کہی جا سکتی ہے لیکن پچپن تک آتے آتے اور زندگی کے بےشمار اسباق ملتے ملتے یہ بات پتھر پر لکیر کی طرح ذہن پر ثبت ہو جاتی ہے کہ بچپن کی نادانی بڑوں کی محبتوں اور شفقتوں کے سائے تلے بادِصبا کے جھونکے کی طرح چھو کر گزر گئی لیکن پچپن کی دانائی صرف اور صرف اپنی ذات کے حوالے سے ہی سمجھی جائے تو بہتر ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بعد دنیاوی رشتوں کی نظر میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑوں میں عقل کی کمی ہونے لگتی ہے۔

بچپن میں بڑے ہاتھ تھام کر چلنا سکھاتے ہیں ۔زندگی کے ابتدائی اسباق ذہن کی کوری سلیٹ پرنقش کرتے ہیں تو پچپن میں چھوٹے ہاتھ جھٹک کر ہمارا اپنے آپ پر یقین بھی ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔اس سمے طویل سفرِزندگی کے ان منٹ اسباق ریت پر لکھی تحریر دِکھتے ہیں۔ عمرِرائیگاں کے احساس کی اذیت کو کم کرنے میں اصل کردار ذہنی برداشت کا ہے جو زندگی کے سکون اور بےسکونی کا تعین کرتی ہے۔ ذہنی برداشت ،اپنے آپ پر یقین ہی وہ اصل دانائی ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے۔

انسان سدا سے انسانوں کا اور انسانوں کے وسیلے سےبنے رشتوں کا محتاج رہا ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد "زندہ رہنے "کے لیے اُسے کسی تعلق کسی رشتے سے بےنیاز سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔وقت گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ خود کسی کو سہارا دینے،کسی کاسہارا بننےکے قابل ہو جاتا ہے۔ ۔پھر ایک وقت ایساآتا ہے کہ کسی رشتے کسی تعلق سے ہٹ کر اُسے زندگی گزارنے کے لیے سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب یہ سہارے اُسے خود تلاش کرنا پڑتے ہیں۔اس کے اپنے خونی رشتے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں۔جذباتی اور معاشرتی سہاروں کے بنیادی عوامل سے بڑھ کر مالی وسائل بہت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔اپنی جسمانی و ذہنی صحت کا خیال رکھنے اور اس کے مسائل سے باخبر رہنے کے باوجود زندگی کے سفر میں عمر کے ہندسے بڑھنے کے ساتھ ہی جسمانی مشینری میں کمزوریاں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ انسان خواہ کتنا ہی صحت مند ،مال دار او ر سمجھ دار کیوں نہ ہو ، اُسے عمر میں پچاس سال کا سنگِ میل چھونے کے بعد جسم میں کہیں نہ کہیں دردوں،ساٹھ برس کے بعدبیماری کی علامات ، ستر برس کے بعد بیماری اور اُس کے اثرات اور اسی برس کے بعد کبھی بھی کسی بھی حادثے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے ۔

بات بچپن سے شروع ہو یا پچپن تک آ کر ختم کی جائے،یہ اہم نہیں ۔اہم یہ ہے کہ بچپن ہو یا پچپن ہم نے ذاتی طور پر زندگی سے کیا سیکھا۔ یہاں یہ بھی اہم نہیں کہ زندگی نے کیا سبق دیئےکہ زندگی تو ہر گھڑی ہر آن ہماری آخری سانس تک ایک نیا سبق سامنے رکھتی چلی جاتی ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس میں سے کتنا ذہن نشیں کرتے ہیں ؟ کتنا ازبر ہوتا ہے ؟ اور اس پر کس حد تک عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...