اتوار, جنوری 23, 2022

" لاہور آوارگی"

"لاہور آوارگی"
اشاعت جنوری 2017

کسان اینڈ کمپنی پر بیٹھ کر میں نے کاروبار تو کیا کرنا تھا آوارگی کتابیں فلمیں خواب اور سراب میرا عشق تھے۔۔۔۔میں لکھنے میں مگن ہو گیا میں نے اپنے مقبول ترین کتابیں اسی دکان کے کاؤنٹر پر بیٹھ کر لکھیں۔۔۔گوالمنڈی کے شور خوانچہ فروشوں کی پکاروں اور شدید گرمیوں برستی برسات اور موسم سرما کی ٹھٹھرتی شاموں میں ۔۔۔"نکلے تیری تلاش میں" " اندلس میں اجنبی " "خانہ بدوش" "فاختہ" "پکھیرو " "پیار کا پہلا شہر " کے ابتدائی باب۔؎

۔۔۔۔

صفحہ 188۔189

لاہور میں ہمارا پہلا گھر ریلوے سٹیشن اور گڑھی شاہو کی قربت میں ،،بوڑھ والا چوک ،،یعنی برگد والے چوک کے پہلو میں تھا۔وہ ایک محلہ تھا جس میں داخل ہونے کا ایک بوسیدہ دروازہ تھا جو سر شام بند ہو جاتا تھا،دو کولونیل طرز کے پرانے کمرے اور ایک صحن۔۔۔۔۔اس گھر کی یادیں کہاں ہو گی کہ میں ایک رینگتا ہوا گول مٹول سیاہ رنگت کا موٹی موٹی آنکھوں والا ایک فضول اور بدھو سا بچہ تھا۔

جو کچھ میری یاداشت میں ہے ،وہ ابا جی اور امی جان کی کہاوتیں ہیں۔
میری امی جان جو ان دنوں ایک ٹین ایجر بالڑی سی لڑکی تھیں۔ صحن میں آٹا گوندھ رہی ہیں اور میں ان کے آس پاس،،غاں غاں،،کرتا گھٹنوں کے بل رینگتا صحن کی سیاحت کرتا ہوں اور پھر ان کی بے خبری میں ایک کمرے میں چلا جاتا ہوں ۔
سرخ اینٹوں کے فرش پر کچھ سرخ رنگ کی گولیاں پڑی ہیں جنہیں اٹھا کر میں نہایت رغبت سے نگل لیتا ہوں۔
یہ چوہے مار گولیاں ہیں جو ان دنوں چوہوں کو تلف کرنے کے لیے استعمال ہوا کرتی تھیں۔ گولیاں نگل کر میں فورا اوندھا ہو جاتا ہوں۔
میری امی جب آٹا گوندھتی اس پاس نظر کرتی ہیں تو میں صحن میں نہیں ہوں ۔ ،وہ باؤلی ہو کر مجھے تلاش کرتی ہیں اور میں فرش پر ایک مردہ لال بیگ کی مانند اوندھا پڑا ہوں اور میری باچھوں میں سے جھاگ کے بلبلے پھوٹ رہے ہیں۔ گڑھی شاہو کے ڈاکٹر معائنہ کر کے کہتے ہیں کہ یہ بچہ تو گیا۔ چوہوں کا زہر اثر کر گیا ۔۔۔۔۔تب مجھے ایک قے ہوتی ہے اور میں یکدم ہوش میں آکر ،،باں باں، کرتا رینگنے لگتا ہوں اور یہ معجزہ اس لیے رونما ہوا کہ امی نے آٹا گوندھنے سے بیشتر مجھے گرائپ واٹر کے دو چمچے پلائے تھے۔ جن کی وجہ سے مجھے قے ہوئی اور میں ،،باں باں،، کرنے لگا۔۔مجھے بہرطور اتنا یاد ہے کہ گرائپ واٹر کی بوتل پر چسپاں لیبل پر ایک موٹو سا بچہ ایک سانپ کو گرفت میں لیے بیٹھا ہے اور اس میں سونف کی مہک تھی۔
۔۔۔۔۔
صفحہ 190۔۔۔
چیمبر لین روڈ کے اس گھر میں میری منجھلی ہمشیرہ شاہدہ،ایک چار برس کی موٹی بچی ،گھنٹی بجنے پر ڈوڑتی ہوئی لکڑی کی گیلری کی جانب لپکی کہ نیچے کون ہے تو گیلری پر امڈتی ہوئی نیچے بازار میں واقع سبزی کی دوکان میں گاجروں اور گوبھی کے پھولوں پر جا گری۔
اس کی ناک بہت ستواں تھی،اس کریش لیڈنگ کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے ،،پھینی ،،ہو گئ سب مذاق کرتے کہ گاجریں کھانے کے لیے اس نے گیلری سے بازار میں چھلانگ لگا دی تھی۔بہرطور وہ مرتے مرتے بچی۔
ہم چھ بہن بھائی تھے تین بھائی تین بہنیں اور ہم سب کو مرنے کا بہت شوق تھا۔
میں اپنا قصہ بیان کر چکا ہوں کہ میں نے چوہوں کا زہر کھا لیا اور اوندھا ہو گیا ،مجھ سے چھوٹا بھائی زبیر کھڑکی میں سے لٹک کر گڈی اڑا رہا تھا کہ نیچے گلی میں جا گرا ،لوگوں نے سمجھا کہ مر گیا۔ہسپتال لے گئے تو وہ ہوش میں آگیا ،البتہ ایک ٹانگ ٹوٹ گئ ۔سب سے چھوٹا بھائی مبشر صرف چھ ماہ کا تھا اور پروین کی گود میں تھا کہ ایک اور بچی نے طیش میں آکر اسے پروین سے چھینا اور زمین پر پٹخ دیا، موصوف بھی لگتا تھا رحلت فرما گئے ہیں لیکن بچ گئے البتہ ہسپتال میں ٹانگے رہے کہ ان کی بھی ایک ٹانگ ٹوٹ گئ ۔۔۔۔۔
پروین اپنی سہیلیوں کے ساتھ چھت پر آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھپن چھپائی کھیل رہی تھی۔ چھت کی منڈیر مختصر تھی۔ چلتی ہوئی آئی اور دھڑام سے نیچے صحن میں آ گری ۔۔۔۔۔ کپڑے جھاڑ کر اٹھ بیٹھی اور خوفزدہ سہیلیوں سے کہنے لگی ،،میری امی کو نہ بتانا کہ میں گر گئی تھی،،
اب رہ گئی سب سے چھوٹی ہمشیرہ شائستہ۔۔۔۔وہ شاید دو برس کی تھی جب اسے تیز بخار ہوا ۔۔۔۔مجھے یاد ہے اسے ایک پیڑھی پر لٹایا ہوا تھا وہ اتنی چھوٹی سی تھی ،ابھی وہ بھلی چنگی کلکاریاں مار رہی تھی کہ یکدم ساکت ہو گئی اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔۔۔امی جان نے بین کرنے شروع کر دئیے کہ ہائے میری پیاری دھی رانی اور میں بھی اپنی ہمشیرہ کی موت کے غم میں رونے لگا ۔ خالو عزیز احمد میری امی کی ڈھارس بندھانے لگے کہ چپ کر نواب بیگم ،اللہ کی مرضی ۔۔۔۔۔صبر کر۔۔۔ اور اس دوران وہ شائستہ کی کھلی آنکھیں بند کرنے لگے ۔۔۔پر وہ بند نہ ہوتی تھیں،کھلی رہتی تھیں۔
ڈاکٹر خان فورا ًآئے اور اسے دو چار جھانپڑ رسید کیے ایک ٹیکہ لگایا تو وہ زندہ ہوگئی
میں بھی اسی خاندانی خصلت کے تابع پچھلے دنوں دو تین بار پار چلا گیا اور پھر لوٹ آیا۔۔۔
چنانچہ ہم سب بہن بھائیوں کو مرنے کا بہت شوق تھا ،
اور یہ زبیر تھا جو سچ مچ جگر کے سرطان کا شکار ہو کر چلا گیا ۔۔۔۔۔۔ لوٹ کر نہ آیا ،چلا ہی گیا
۔۔۔۔۔۔۔
مسلم ماڈل ہائی اسکول اپر مال لاہور
جماعت دہم 1958۔۔مستنصر حسین تارڑ۔۔درمیانی قطار (کالے سوٹ اور ٹائی میں )۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...