بارش ابرباراں کی صورت موسمی ہو۔۔۔قہر خداوندی کا سونامی بن کر سب کچھ تہہ وبالا کر دے۔۔۔چاہتوں کی رم جھم ہو۔۔۔ظلم، جبر اور مایوسی کی نہ ختم ہونے والی جھڑی ہو یا پھر خیال کے آنگن میں دھیرے دھیرے اُترنے والا شبنمی احساس ۔۔۔ اپنے آغاز سے انجام کا پتہ نہ دیتے ہوئے اندر باہر سے شرابور کر دیتا ہے۔
حبس کی شدت میں بارش کا پہلا قطرہ ماحول اور وقت کی قید سے آزاد ہر نڈھال جسم میں زندگی کی رمق جگا دیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی اس کے اثرات سامنے آتے ہیں۔جب برستے ساون میں کہیں چھتیں ٹپکتی ہیں توکہیں مکینوں کے لیے مدفن بن جاتی ہیں۔ سیلابی ریلہ خاندانوں اور نسلوں کویک لخت صفحہءہستی سے یوں مٹا دیتا ہے کہ زمین تو کیا تہہ زمین بھی اُن کا سراغ نہیں ملتا۔ بارش جو امیروں کے لیے رومانس ہے وہ غریب کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ توازن ہر بارش سے فیض یاب ہونے کا سب سے اہم نکتہ ہے۔
عیسوی تقویم میں جولائی اگست کے مہینوں میں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔یہ برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ ہندی یا بکرمی تقویم میں یہ ساون بھادوں کے ماہ ہیں ۔ جب گرمی اور حبس انتہا کو پہنچ جائے تو ابر رحمت جوش میں آ جاتا ہے۔
ہمارے لیے یہ مہینے اس لیے بھی اہم ہیں کہ 67 برس پہلے جولائی میں آزادی کے لیے کی گئی جدوجہد کی انتہا ہوگئی اور بالاآخر اگست کو اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر 14اور15 اگست کی درمیانی رات تقسیم برصغیر کا فیصلہ ہوا۔
سالوں سے انہی مہینوں میں قوم کو ہمارے نام نہاد "رہنماوں"نے عجیب دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ملک وقوم کے غم میں چھلانگیں لگانے سے لے کر قلابازیاں لگانے والے رہنماوں نے اس یوم یقین کو شک وپریشانی کے دن میں تبدیل کر دیا ہے۔ پرانے پاکستان میں کتنے ناسور اور کون کون سی نا ختم ہونے والی بےضابطگیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ یوم آزادی کے روز اُن کو جڑ سے اکھاڑنا لازم ٹھہرا ۔ وہ دن جو افراد کو چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔۔۔نیک ومومن کی قید اور امیر غریب کے احساس تفاخر سے آزاد یہ دن اُن کو صرف پاکستانی ہونے کا یقین دلاتا ہے۔سال کا یہ خاص دن ہر پاکستانی کے شعور یا لاشعور پر دستک ضرور دیتا ہےاور ہر ذی شعور اپنے فہم کے مطابق اس کا اظہار کرتا ہے۔
اگست1947 کا دن ۔۔۔ جب فرد کے یقین محکم ۔۔ افراد کے اتحاد اور تنظیم نےفتح حاصل کی تھی ۔اس کے بعد طمع اور ہوس اقتدار نے آج تک ملک کو گومگو کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
۔۔ 1857 میں ہونے والی جنگ آزادی اور آج کے یوم آزادی کے موقع پر ہونے والی اقتدار کی جنگ میں کچھ بھی تو مختلف نہیں،صرف دیسی بدیسی کرداروں کا فرق ہے ۔پہلے باہر سے آنے والوں نے ہماری کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر حاکمیت کا تاج سر پرسجایا تو آج ہم ایک ہی مٹی سے جنم لینے والے کرسی کے لیے دست وگریباں ہیں۔عوام پہلے بھی تماشائی تھے اور آج بھی تماشائی ہیں۔ میوزیکل چئیرز کے...انا کی موسیقی میں محو رقص بڑوں کے اس کھیل میں عام عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلے جا رہے ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ اس حبس زدہ موسم میں ٹھنڈے کمروں میں سونے جاگنے والے رہنما دہائی عوام کی بھلائی کی دیتے ہیں۔
اگست میں مارچ منانے سے بہار نہیں آ جاتی۔ ہر موسم اپنے وقت پر آتا ہےجیسے پھل اپنے وقت پر پکتا ہے۔ بےموسم کی بارشیں اچھی تو لگتی ہیں لیکن ان کے اثرات وقت گزرنے کے بعد ہی سامنے آتے ہیں ۔ بےموسم کا پھل جی کو لبھاتا ہے۔۔۔ مہنگا بھی ہوتا ہے لیکن اصل خوشبو اور ذائقے سے کوسوں دور ہوتا ہے۔
کولڈ سٹوریج کا تصور گرم اور حبس زدہ موسم میں خواب ناک ضرور ہے چاہے وہ زندگی کا کولڈ سٹوریج ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگست صرف انتظار کا مہینا ہے۔۔۔ موسلا دھاربارش میں اپنے کچے گھر کی ٹپکتی چھت کو گرنے سے بچانے کی کوشش اور بارش رکنے کا انتظار۔ اس وقت کا انتظار جب وقت کی طنابیں اپنے ہاتھ میں مضبوط ہوں اورکسی بےمہر اور ناسمجھ کے سامنے گڑگڑانے کی نوبت نہ آئے۔
( پسِ تحریر۔۔۔ اگست 2014 ۔۔۔اسلام آباد میں ساڑھے چار ماہ سے زائد جاری رہنے والا دھرنا)
حبس کی شدت میں بارش کا پہلا قطرہ ماحول اور وقت کی قید سے آزاد ہر نڈھال جسم میں زندگی کی رمق جگا دیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی اس کے اثرات سامنے آتے ہیں۔جب برستے ساون میں کہیں چھتیں ٹپکتی ہیں توکہیں مکینوں کے لیے مدفن بن جاتی ہیں۔ سیلابی ریلہ خاندانوں اور نسلوں کویک لخت صفحہءہستی سے یوں مٹا دیتا ہے کہ زمین تو کیا تہہ زمین بھی اُن کا سراغ نہیں ملتا۔ بارش جو امیروں کے لیے رومانس ہے وہ غریب کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ توازن ہر بارش سے فیض یاب ہونے کا سب سے اہم نکتہ ہے۔
عیسوی تقویم میں جولائی اگست کے مہینوں میں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔یہ برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ ہندی یا بکرمی تقویم میں یہ ساون بھادوں کے ماہ ہیں ۔ جب گرمی اور حبس انتہا کو پہنچ جائے تو ابر رحمت جوش میں آ جاتا ہے۔
ہمارے لیے یہ مہینے اس لیے بھی اہم ہیں کہ 67 برس پہلے جولائی میں آزادی کے لیے کی گئی جدوجہد کی انتہا ہوگئی اور بالاآخر اگست کو اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر 14اور15 اگست کی درمیانی رات تقسیم برصغیر کا فیصلہ ہوا۔
سالوں سے انہی مہینوں میں قوم کو ہمارے نام نہاد "رہنماوں"نے عجیب دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ملک وقوم کے غم میں چھلانگیں لگانے سے لے کر قلابازیاں لگانے والے رہنماوں نے اس یوم یقین کو شک وپریشانی کے دن میں تبدیل کر دیا ہے۔ پرانے پاکستان میں کتنے ناسور اور کون کون سی نا ختم ہونے والی بےضابطگیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ یوم آزادی کے روز اُن کو جڑ سے اکھاڑنا لازم ٹھہرا ۔ وہ دن جو افراد کو چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔۔۔نیک ومومن کی قید اور امیر غریب کے احساس تفاخر سے آزاد یہ دن اُن کو صرف پاکستانی ہونے کا یقین دلاتا ہے۔سال کا یہ خاص دن ہر پاکستانی کے شعور یا لاشعور پر دستک ضرور دیتا ہےاور ہر ذی شعور اپنے فہم کے مطابق اس کا اظہار کرتا ہے۔
اگست1947 کا دن ۔۔۔ جب فرد کے یقین محکم ۔۔ افراد کے اتحاد اور تنظیم نےفتح حاصل کی تھی ۔اس کے بعد طمع اور ہوس اقتدار نے آج تک ملک کو گومگو کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
۔۔ 1857 میں ہونے والی جنگ آزادی اور آج کے یوم آزادی کے موقع پر ہونے والی اقتدار کی جنگ میں کچھ بھی تو مختلف نہیں،صرف دیسی بدیسی کرداروں کا فرق ہے ۔پہلے باہر سے آنے والوں نے ہماری کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر حاکمیت کا تاج سر پرسجایا تو آج ہم ایک ہی مٹی سے جنم لینے والے کرسی کے لیے دست وگریباں ہیں۔عوام پہلے بھی تماشائی تھے اور آج بھی تماشائی ہیں۔ میوزیکل چئیرز کے...انا کی موسیقی میں محو رقص بڑوں کے اس کھیل میں عام عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلے جا رہے ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ اس حبس زدہ موسم میں ٹھنڈے کمروں میں سونے جاگنے والے رہنما دہائی عوام کی بھلائی کی دیتے ہیں۔
اگست میں مارچ منانے سے بہار نہیں آ جاتی۔ ہر موسم اپنے وقت پر آتا ہےجیسے پھل اپنے وقت پر پکتا ہے۔ بےموسم کی بارشیں اچھی تو لگتی ہیں لیکن ان کے اثرات وقت گزرنے کے بعد ہی سامنے آتے ہیں ۔ بےموسم کا پھل جی کو لبھاتا ہے۔۔۔ مہنگا بھی ہوتا ہے لیکن اصل خوشبو اور ذائقے سے کوسوں دور ہوتا ہے۔
کولڈ سٹوریج کا تصور گرم اور حبس زدہ موسم میں خواب ناک ضرور ہے چاہے وہ زندگی کا کولڈ سٹوریج ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگست صرف انتظار کا مہینا ہے۔۔۔ موسلا دھاربارش میں اپنے کچے گھر کی ٹپکتی چھت کو گرنے سے بچانے کی کوشش اور بارش رکنے کا انتظار۔ اس وقت کا انتظار جب وقت کی طنابیں اپنے ہاتھ میں مضبوط ہوں اورکسی بےمہر اور ناسمجھ کے سامنے گڑگڑانے کی نوبت نہ آئے۔
( پسِ تحریر۔۔۔ اگست 2014 ۔۔۔اسلام آباد میں ساڑھے چار ماہ سے زائد جاری رہنے والا دھرنا)
واقعی خاص دن ہے اور اس بار دیکھیئے کیا ہو . . . . فالج زدہ قوم کے جسم میں ایک لرزش ہی سہی ۔ ۔ ۔
جواب دیںحذف کریںBarish- aik aisa lafz hai jis se mainne kabhe itni muhabat ki the kay iss k liyeh main apni neend ko bhe bhola k intezar main baithe aasman dekha karte the k . kab. kab kuch bondhain mere taptay hathon ki hateli pe parain aur meri rooh ko sehrab karte jain. . barish se unsiyat -o- muhabbat dewano ka kaam hota hai shayad . . barish ka zikr kar k barish ka lafz sun k usay mehsos karnay walay logon ko main kiya kahun. main tu khud apni zaat ko bhe kuch nahi kehti jab yeh lafz mere zahen main ya kabhe kisi tehrer ki surat main aye. ..... aab aap bhe sochti hun ge .. un ki tehreron ko achanak yun kisi k alfaz k jugno kiu roshan kar rahay hain... mujhay khud nahi malo main yahan kiu likh zahen ka qaide lafzon ko kiu aazad kar rahe hun.
جواب دیںحذف کریںآپ کی ممنون ہوں کہ میرے بلاگ پر تشریف لائیں اور اپنے خوبصورت احساس کی مالا لفظوں میں پرو کو مجھے عزت بخشی۔ آپ بہت اچھا لکھتی ہیں۔اسی طرح لکھتی رہیں۔
حذف کریںکسی تعریف وتوصیف سے قطع نظر میں اپنے دوسرے بلاگز پرآپ کے منفرد اندازِبیاں کی منتظر رہوں گی۔