منگل, اگست 12, 2014

" پکارِ دوست "

انسان کو اپنی پہچان ہو جائے یہی بڑی بات ہے۔جسے اپنی پہچان نہ ہو وہ دوست دشمن میں کیسے تمیز کر سکتا ہے"۔"  
 ٭ہمیں دوست دُشمن کی پہچان ہی نہیں۔جو ہمارے آنسو پونچھے ہمیں نصیحت کرے تسلّی دے، راستہ دکھائے،ہماری   زبان سمجھے،ہم سمجھتے ہیں وہی ہمارا سچا دوست ہے۔ حالانکہ حقیقی ساتھی تو وہی ہے جو ہمارے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہے۔ زندگی  کے گرداب میں پھنسی کشتی میں ہچکولے کھاتے ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے یہ بھول جاتے ہیں کہ اُس کا اور ہمارا مستقبل ایک ہے۔ کسی طوفانی لہر میں چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے وہی ہمارا ساتھ دے گا۔ توازن برقرار رکھنے کے لیے اُسے اور ہمیں ہرحال میں اپنی اپنی حد میں رہنا ہے، ورنہ سب کچھ سمیٹنے کی خواہش میں کشتی اُلٹ گئی تو نقصان برابر کا ہو گا ۔ ہمارے ہمدرد تو دور کھڑے اپنی پسندیدہ ٹیم کے لیے صرف تالیاں ہی بجا سکتے ہیں۔۔۔اپنی کشتی کے مسائل سے نظریں چُراتے ہوئے اُن کے لیےیہ محض ایک تماشا ہے۔ہم میں سے ہر ایک کو پہلے اپنی کشتی  مستحکم کرنا ہے تا کہ مشکل کی 
گھڑی میں اپنے دوستوں کے لیے ایک مضبوط پتوار بن سکیں ۔
٭ رشتے اور دوستی دو الگ الگ تعلق ہیں۔ہم اکثر رشتوں میں دوستی تلاش کرتے ہیں اور دوست کو رشتے کا پیرہن پہنا کر اُس کی قربت  چاہتے ہیں۔اسی تلاش اور چاہت میں آخرکار ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ہمارے رشتے صرف اور صرف ہماری  ذمہ داری  ہیں جس کو بحسن وخوبی  ادا کرنے کے لیے دوستی شرطِ اول  ہرگز نہیں۔  جبکہ دوست  کا ذمہ داری سے دور کا بھی تعلق نہیں۔دوست صرف اور صرف دل میں رہتا ہے۔
٭دوست بہت بڑا لفظ ہے۔۔۔ایک مقام ہے۔دوست ہمیشہ کچھ نہ کچھ دیتا ضرورہے چاہے اس وقت وہ اچھا نہ لگ رہا ہو۔۔۔سمجھ نہ آرہا ہو۔ اپنے دوستوں کی قدرکریں۔ دوستی نبھانا دنیا کا سب سے نازک کام ہے۔ دوست رگوں میں سما جائے تو   اس ساتھ سےبڑھ کرمضبوط پائیدار رشتہ اورکوئی نہیں۔
٭دوستی میں اس حد تک نہ جاؤ کہ دوست جب دشمن بن جائے تو دوسروں کے سامنے شرمندگی ہو اور دشمنی میں اس حد تک نہ جاؤ کہ دشمن کو دوست بنانا پڑجائے تو اپنے آپ سے نظریں ملانا مشکل ہو جائے۔
٭دوستی گھاٹے کا سودا بھی نہیں۔ نادانی تب ہوگی جب بات مول تول کی ہو۔ یہاں مفت کےخریدارتو بہت ہیں پرخلوص کا گاہک کوئی نہیں اوردوستی بےغرض رشتے کا نام ہےنہ جفا نہ وفا جو مل جائے اس پر راضی۔
٭دوست روز کا اخبار  نہیں جو وقت ہوا تو ایک نظر ڈال لی۔۔۔ ورنہ بغیر دیکھےبغیرچھوئے پڑا رہا۔۔۔خاموش چپ چاپ۔۔۔نہ پڑھا تو شام کو پرانا۔۔۔ ردی کی ٹوکری کی نظر کسی اور کے حوالے۔ نہ آیا تو صرف اس کی خالی جگہ کا احساس۔۔۔نہ گلہ نہ شکوہ ، نہ اقرار نہ انتظار۔
٭دوست گھڑی کا الارم بھی نہیں ۔۔۔ایک بار سیٹ کر دیا تو مقرررہ وقت پر جگاتا رہے گا۔ دوست تو دل کی دھڑکن کے ساتھ جُڑی وہ مدہم سی خاموشی ہے جو دکھائی دیتی ہے نہ سُنائی لیکن پھر بھی وہ ہے تو زندگی کا ثبوت، ذات کا یقین ہے۔محسوس کریں تو زمانے کے سرد وگرم میں آپ کے ساتھ ہے۔
٭ہمیں اپنے دوستوں کو کبھی ڈسٹ بن کی طرح نہیں استعمال کرنا چاہیے کہ اپنی مایوسیوں،گلے شکوؤں کا کثیف انبار ان کے سر اُنڈیل دیں بلکہ پھولوں کے گلدستے کی طرح اپنے آپ کو پیش کریں جب وہ اسے دل سے لگائیں گے تو ہمارے وجود میں پیوست نادیدہ کانٹے وہ خود بخود ہی محسوس کر لیں گے۔
٭ہمارے دوست گھرکی مانند ہوتے ہیں۔ گھرکسی تپتے صحرا میں ہو یا برفانی بُلندیوں پر۔۔۔دریا کنارے مٹی  سےبنا کچا مکان ہو یا فالٹ لائن پرموجود کسی بلند منزلہ عمارت میں۔۔۔ کسی شورش زدہ علاقے میں ہویا گیس بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی زد میں ۔۔۔گھرگھرہی ہوتا ہے۔۔۔ گھرسےاتنا دورکبھی نہیں جانا چاہیےکہ گھر کا رستہ ہی بھول جائے۔ اگر گھر نہ رہے تو دنیا کا کوئی گوشہ  ہمارے لیے جائے امان نہیں۔
حرفِ آخر
ہماری اپنی ذات سے بڑھ کر سب سے بہترین دوست اور کوئی نہیں جو ہمیں ہر دوست کی اصلیت سے بخوبی آگاہ کرتی ہے اور اس دوست کی قربت کا احساس بیدار رکھتی ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔"اللہ سے دوستی کریں وہ انسانوں سے دوستی کا قرینہ سکھا دے گا۔اللہ کے کلام سے دوستی کریں وہ بندوں کی زبان سمجھا دےگا۔اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ) سے محبت کریں ہمیشہ کی اندھیری تنہائی سے نجات مل جائےگی اپنے آپ سے دوستی کر لیں تو ایک مخلص دوست مل جائے گا جو ہر قدم پر صحیح رہنمائی کرے گا"۔

3 تبصرے:

  1. انتہائی اچھی تعریف کی دوست اور دوستی کی. آج کے دور میں دوستوں کو اخبار تو کیا ٹشو پیپر جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے لوگ. جب وقت گزاری کرنی ہو اور کوئی مشغلہ میسر نہ ہو تو کسی کو دوست بنا لیا. جب کوئی اور مصروفیت مل گئی تو ٹشو پیپر کی طرح ڈسٹ بِن میں پھینک دیا. ردی کی ٹوکری میں پھینکے گئے اخبار تو شاید کوئی پھر بھی دیکھ لیتا ہو لیکن ڈسٹ بن میں پھینکے ٹشو پیپر بےچارے کا تو مقدر ہی معدوم ہو جانا ہوتا ہے. اور جن کے نزدیک دوستی کی یہ حیثیت ہو وہ دوست کہلانے کے لائق نہیں ہوتے.

    تہمینہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. Mukhtaleef tehreron ko parhnay k shoq main koi na koi tehreer kabhe na kabhe nazar se guzray tu dil karta hai k apnay zahen ki silwatain bhe un lafzon main apni seyahi bharti jaye Lehaza.... main ne bhe kuch alfaz yahan likhnay ki jurrat kar li. Baat kiya hai yeh tu mujhay bhe nahi malom maggar aaj kal dil nahi kehta k DOST lafz ko bayan e guftogo kiya jaye, waja bass yeh hai k dosti k naam pe main ne dhoka he khaya hai yeh meri siyah bakhti hai ya meri aazmaish kuch nahi samhaj aata. iss liyeh aap ki tehrer ka aik aik lafz mere zahen k weeranain main sakh shoor karta chala gaya. aggar koi lafz bura lagay tu Mafi chahun ge..

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات

    1. بےشک دوست اور دوستی خواب اور سراب کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خواب دیکھنے والی آنکھیں ہی اصل نقل کی پہچان کر سکتی ہیں۔
      ذرا سا وقت نکال کرآپ "دوست" کے ٹیگ" سے میرے اور بلاگ ضرور پڑھیں اور اپنا احساس بھی شئیر کریں۔ بہت شکریہ۔

      حذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...