محبت!!! جوئے میں کمائی جانے والی ایک رات کی دولت نہیں اورنہ ہی کسی کونے کھدرے میں پڑے ہوئے اچانک نکلنے والے پرائزبانڈ کا انعام ہے۔وہ اپنے آپ کو ہمیشہ انڈراسٹیمیٹ کرتی آئی تھی چاہے ظاہری لبادہ ہو یا پوشیدہ خیالات ۔وہ انہیں ایک کمپلیکس کے طور پر سمجھتی یا ایسا سوچتی تھی لیکن پھر وہ جان گئی کہ یہ اللہ کا فضل ہے۔اس طرح کم ازکم وہ تکبر سے دور رہتی ،ہر قدم یوں رکھتی جیسے کانچ پر چل رہی ہو(ملکہ سبا )۔
محبت اللہ کا وہ رزق ہے جس کےبارے میں کہا گیا میں تمہیں ایسی جگہ سےعطا کروں گا جو تمہارے وہم وگمان میں نہ ہو گا۔ وہ ہمیشہ سے جانتی تھی کہ اسے کبھی کسی سے محبت کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔اسے محبت اتنی بےحساب۔۔۔عزت اتنی زیادہ۔۔۔ اور چاہت ہر رشتے سے اتنی بےپناہ ملی کہ وہ ان پھولوں کو اٹھاتے اٹھاتے ان کا بھرپور جواب دینے کی کوشش کو ہی زندگی کا حاصل ماننے لگی۔
اس نے اپنی عقل کے مطابق سب حاصل کر لیا تھا۔وہ محبت کرنے پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ کسی سے محبت کرہی نہیں سکتی۔ وہ فقط اللہ کے قرب کی متلاشی تھی جو کہ اپنی ذات کے حوالے سے (جتنا وہ جذب کر سکتی تھی ) اُسے حاصل تھا۔وہ بغیر آہ و زاری کیے اس طرح عطا کرتا تھا کہ وہ شکرگزاری کی انتہا پر جانے کے لیے بےچین رہتی ۔اُس کےلیے شکرگزاری کی انتہا صرف اور صرف"وصال" تھا۔اس پر بھی ڈرتی تھی کہ جس چیزپراختیار نہیں میں اس کی تمنا کیوں کرتی ہوں۔ شاید یہی وہ کسک تھی۔۔۔ جو بےچین رکھتی۔۔۔ کہ میں اب کیا کروں ؟یا کیا کرسکتی ہوں؟ یا مجھے اب کیا کرنا ہے؟۔ یہ سوال سر اُبھارتے تھے وہ جواب ڈھونڈتی پھر تھک کر خرگوش کی طرح سو جاتی اور یوں لگتا شاید "سونے" سے منزل قریب آ جائے گی۔لیکن آنکھ کھلتی تو منزل تو سامنےنظر آتی پر راستہ نہ دکھتا۔ یہی آغاز تھا اور شاید یہی انجام ہوتا۔
اب سوچو! ایسے انسان کا کیا بنے گا جسے منزل تو مل جائے لیکن راستہ نظر نہ آئے۔یہ اس انسان کی کہانی ہے جو کہتا ہے کہ وہ دیدۂ بینا رکھتا ہے۔۔۔ اس کے اندر ایک ایسی روشنی پھوٹی ہے کہ وہ اندر باہر یکساں دیکھ سکتا ہے۔ وہ اس بزرگ کے بارے میں سوچتا ہے۔۔۔جو اپنے چہرے کو اس لیے اونچا نہیں کرتے تھے کہ انہیں انسانوں کے اندر جانور نظر آتے تھے۔اُُس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کے انسان کو کھوج رہا ہے۔۔۔اسے سب سے بڑا فساد اپنے اندر دکھائی دے رہا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ جب اللہ سے چاہتے ہیں کہ ہمیں معاف کر دے تو ہم بندوں کومعاف کیوں نہیں کرتے۔اللہ سے ہم ہر وقت اپنے بڑے بڑے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں لیکن بندوں کے چھوٹے چھوٹے قصور معاف کرتے ہماری جان نکلتی ہے۔وہ سوچتا ہے کہ میں اللہ کا شکر ادا نہیں کر پا رہا ہوں۔۔۔مجھ میں برداشت کی کمی ہے۔ عقل کہتی ہے کہ اے انسان تو نے تو برداشت کرنے میں اپنی ساری توانائی خرچ کر دی ہے۔اب تو تیرے پاس کچھ نہیں بچا۔سوچوں کی انہی بھول بھلیوں میں وہ انسان کولپس کر جاتا ہے ۔یہی اس کی زندگی کا "ون پوائنٹ ایجنڈا " تھا کہ وہ بکھر رہی تھی۔۔۔اُسے اللہ کے راستے پر چلنے میں یکسوئی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔
اُس نے دنیا کو ہمیشہ خالق کی نظر سے دیکھا یا محبوب کی نظر سے۔اُسے احساس ہی نہ تھا یا کبھی ضرورت یا خواہش ہی محسوس نہ ہوئی کہ اپنے اونچے تخت سے اتر کر کسی کے قدموں میں بیٹھے۔لیکن اب زندگی کی اس ڈھلتی شام مالک جب اُسے ہر طرح سے نواز رہا تھا تو وہ اس جذبے سےکیسے دور رہنے دیتا۔اس نے وہ کسک عطا کی۔۔۔وہ تڑپ عطا کی جس کا احساس اُس کے علاوہ کسی کو نہیں۔"عاشق اپنی چاہت میں اپنے عشق میں تنہا ہوتا ہے" وہ اس میں کسی کا قرب برداشت نہیں کرتا یہاں تک کے محبوب کا بھی نہیں"۔۔۔
محبوب کیا ہے۔۔۔۔۔ ایک فرضی خط جیسے کہ خط استوا۔۔۔ایک ایسی شے جو کہ معدوم ہوتے ہوئے بھی موجود ہے۔۔۔جو آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے لیکن اُسے پانے کے لیے اپنی ساری زندگی کی کمائی بھی اس کے قدموں میں رکھ دی جائے تو بھی کچھ پتہ نہیں کہ وہ قبول کرے یا نہ کرے۔۔۔سخی اتنا کہ ساری زندگی بھلائے رکھیں ۔۔۔اس سے جھگڑا کرتے رہیں لیکن"یقین" کے آخری لمحے اگر اس کی پہچان آنکھوں میں اتر آئی ۔۔۔اس کے سامنے سرنڈر کر لیا تو بیڑہ پار۔
واہ!!! کیا کیفیت ہے۔۔۔کیا بات ہے ۔یہ وہ جذبہ ہے وہ لگن ہے جو صرف عاشق کا ہی نصیب ہے۔ دُنیا کی ساری کمائی ساری نیک نامی ایک طرف اورعاشق کی "غلامی" ایک طرف۔۔۔ یہ وہ تحفہ ہے جو انسان اپنے آپ کو زمین سے لگا کرہی حاصل کرتا ہے۔وہ عشقِ مجاز جو عشق ِحقیقی سے ملا دے وہی سچا عشق ہے۔
محبت اللہ کا وہ رزق ہے جس کےبارے میں کہا گیا میں تمہیں ایسی جگہ سےعطا کروں گا جو تمہارے وہم وگمان میں نہ ہو گا۔ وہ ہمیشہ سے جانتی تھی کہ اسے کبھی کسی سے محبت کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔اسے محبت اتنی بےحساب۔۔۔عزت اتنی زیادہ۔۔۔ اور چاہت ہر رشتے سے اتنی بےپناہ ملی کہ وہ ان پھولوں کو اٹھاتے اٹھاتے ان کا بھرپور جواب دینے کی کوشش کو ہی زندگی کا حاصل ماننے لگی۔
اس نے اپنی عقل کے مطابق سب حاصل کر لیا تھا۔وہ محبت کرنے پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ کسی سے محبت کرہی نہیں سکتی۔ وہ فقط اللہ کے قرب کی متلاشی تھی جو کہ اپنی ذات کے حوالے سے (جتنا وہ جذب کر سکتی تھی ) اُسے حاصل تھا۔وہ بغیر آہ و زاری کیے اس طرح عطا کرتا تھا کہ وہ شکرگزاری کی انتہا پر جانے کے لیے بےچین رہتی ۔اُس کےلیے شکرگزاری کی انتہا صرف اور صرف"وصال" تھا۔اس پر بھی ڈرتی تھی کہ جس چیزپراختیار نہیں میں اس کی تمنا کیوں کرتی ہوں۔ شاید یہی وہ کسک تھی۔۔۔ جو بےچین رکھتی۔۔۔ کہ میں اب کیا کروں ؟یا کیا کرسکتی ہوں؟ یا مجھے اب کیا کرنا ہے؟۔ یہ سوال سر اُبھارتے تھے وہ جواب ڈھونڈتی پھر تھک کر خرگوش کی طرح سو جاتی اور یوں لگتا شاید "سونے" سے منزل قریب آ جائے گی۔لیکن آنکھ کھلتی تو منزل تو سامنےنظر آتی پر راستہ نہ دکھتا۔ یہی آغاز تھا اور شاید یہی انجام ہوتا۔
اب سوچو! ایسے انسان کا کیا بنے گا جسے منزل تو مل جائے لیکن راستہ نظر نہ آئے۔یہ اس انسان کی کہانی ہے جو کہتا ہے کہ وہ دیدۂ بینا رکھتا ہے۔۔۔ اس کے اندر ایک ایسی روشنی پھوٹی ہے کہ وہ اندر باہر یکساں دیکھ سکتا ہے۔ وہ اس بزرگ کے بارے میں سوچتا ہے۔۔۔جو اپنے چہرے کو اس لیے اونچا نہیں کرتے تھے کہ انہیں انسانوں کے اندر جانور نظر آتے تھے۔اُُس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کے انسان کو کھوج رہا ہے۔۔۔اسے سب سے بڑا فساد اپنے اندر دکھائی دے رہا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ جب اللہ سے چاہتے ہیں کہ ہمیں معاف کر دے تو ہم بندوں کومعاف کیوں نہیں کرتے۔اللہ سے ہم ہر وقت اپنے بڑے بڑے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں لیکن بندوں کے چھوٹے چھوٹے قصور معاف کرتے ہماری جان نکلتی ہے۔وہ سوچتا ہے کہ میں اللہ کا شکر ادا نہیں کر پا رہا ہوں۔۔۔مجھ میں برداشت کی کمی ہے۔ عقل کہتی ہے کہ اے انسان تو نے تو برداشت کرنے میں اپنی ساری توانائی خرچ کر دی ہے۔اب تو تیرے پاس کچھ نہیں بچا۔سوچوں کی انہی بھول بھلیوں میں وہ انسان کولپس کر جاتا ہے ۔یہی اس کی زندگی کا "ون پوائنٹ ایجنڈا " تھا کہ وہ بکھر رہی تھی۔۔۔اُسے اللہ کے راستے پر چلنے میں یکسوئی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔
اُس نے دنیا کو ہمیشہ خالق کی نظر سے دیکھا یا محبوب کی نظر سے۔اُسے احساس ہی نہ تھا یا کبھی ضرورت یا خواہش ہی محسوس نہ ہوئی کہ اپنے اونچے تخت سے اتر کر کسی کے قدموں میں بیٹھے۔لیکن اب زندگی کی اس ڈھلتی شام مالک جب اُسے ہر طرح سے نواز رہا تھا تو وہ اس جذبے سےکیسے دور رہنے دیتا۔اس نے وہ کسک عطا کی۔۔۔وہ تڑپ عطا کی جس کا احساس اُس کے علاوہ کسی کو نہیں۔"عاشق اپنی چاہت میں اپنے عشق میں تنہا ہوتا ہے" وہ اس میں کسی کا قرب برداشت نہیں کرتا یہاں تک کے محبوب کا بھی نہیں"۔۔۔
محبوب کیا ہے۔۔۔۔۔ ایک فرضی خط جیسے کہ خط استوا۔۔۔ایک ایسی شے جو کہ معدوم ہوتے ہوئے بھی موجود ہے۔۔۔جو آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے لیکن اُسے پانے کے لیے اپنی ساری زندگی کی کمائی بھی اس کے قدموں میں رکھ دی جائے تو بھی کچھ پتہ نہیں کہ وہ قبول کرے یا نہ کرے۔۔۔سخی اتنا کہ ساری زندگی بھلائے رکھیں ۔۔۔اس سے جھگڑا کرتے رہیں لیکن"یقین" کے آخری لمحے اگر اس کی پہچان آنکھوں میں اتر آئی ۔۔۔اس کے سامنے سرنڈر کر لیا تو بیڑہ پار۔
واہ!!! کیا کیفیت ہے۔۔۔کیا بات ہے ۔یہ وہ جذبہ ہے وہ لگن ہے جو صرف عاشق کا ہی نصیب ہے۔ دُنیا کی ساری کمائی ساری نیک نامی ایک طرف اورعاشق کی "غلامی" ایک طرف۔۔۔ یہ وہ تحفہ ہے جو انسان اپنے آپ کو زمین سے لگا کرہی حاصل کرتا ہے۔وہ عشقِ مجاز جو عشق ِحقیقی سے ملا دے وہی سچا عشق ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں