جمعہ, جولائی 11, 2014

" لباسِ مجاز "

سورہ الحجر (15)۔۔۔مکی سورہ ۔تعداد آیات 99۔
ترجمہ آیت99۔۔
"اور اپنے رب کی عبادت کیے جاؤ یہاں تک کہ تمہاری موت کا وقت آ جائے "
کبھی اے حقیقتِ منتظرنظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
کوئی نہیں جان سکتا کہ جذب کی کس حالت میں ڈوب کر اور کس کیفیت میں کیا محسوس کر کے جناب علامہ اقبال پر یہ لفظ اترے ہوں گے۔ تخیل کے رنگ میں جھلک ملی تو صرف یہ کہ حقیقت اُنہی اذہان پر اُترتی ہے۔۔۔وہی قلوب اس کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔جو منتظر ہوتے ہیں۔۔۔تلاش کے سفر میں بےچین رہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ دُنیا "مجاز" ہے۔ یہاں اصل کبھی آشکار نہیں ہوتا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔
انسان کہانی اتنی مختصر ہے کہ اُسے صرف ایک لفظ اور تین حرفوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ "سفر" دیکھتی آنکھ کا سفر۔۔جس کی ابتدا کے بارے میں تو جانکاری ہے لیکن انتہا تک رسائی کا سفر ابھی جاری ہے۔۔۔ سفرِدُنیا سے شروع ہونے والایہ سلسلہ سفرِآخرت پر ختم ہو جاتا ہے۔اس درمیانی وقفے کے ہر دن اور ہر رات میں ایک نئے سفر کی شروعات ہوتی ہیں۔انسان اپنی زندگی میں سفر کی کئی منازل طے کرتا ہے اور ہر منزل ایک اور منزل کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
سفر صرف جسمانی نہیں ہوتا بلکہ اکثر جسمانی سفر تو جسم سے فرار کی لاشعوری خواہش کا عکس ہوتا ہے۔ایک سفر کی چاہ ہر صاحبِ ایمان کے دل میں مچلتی ہے۔۔۔ جو اُس کی روح پر تخلیق کے پہلے لمحےثبت کر دیا گیا۔اسی لیے جسم آخری سانس تک اُس کی خواہش میں گرفتار رہتا ہے۔انسان سانس کےمدوجزر میں یقین کی حالتوں سے گزرتا ہےاور محسوس کرتا ہے۔ "عین الیقین" یعنی آنکھ سےدیکھتا ہے۔۔۔نظر کے لمس سے پرکھتا ہے۔سوچ سے محسوس کر کے "علم الیقین" کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہےیہاں تک کےسفرِمجاز' کے آخری لمحے آخری سانس میں "حق الیقین" عطا کیا جاتا ہےجو اس کی زندگی کمائی کا محورومنبع ٹھہرتا ہے۔ساری عمر جس تلاش میں رہا۔۔۔ جس لذت کے خواب دیکھتا رہا۔۔۔جس تسکین سے آسودگی حاصل کرتا رہا۔ ہمیشہ کے لیے بند ہوتی آنکھ اور دم توڑتی سانسوں کی آخری گرفت میں روشنی کے جھماکے کی طرح۔۔۔ برق کی سی تیزی سے زندگی کے سارے پل۔۔۔سارے منظر ایک لمحے میں سمٹ آتے ہیں۔
کانوں سنی باتیں اور آنکھوں دیکھی حقیقت بھی یہی ہے۔۔۔ حالت ِنزع میں انسان اُسی شے کی خواہش کرتا ہے جو اس کی زندگی کی طلب رہی ہو۔۔۔وہی کلمہ زبان پر آتا ہے جس کا ورد زندگی کے ایام میں ذہن وقلب پر جاری رہا۔اسی لیے کہا گیا کہ دم توڑتے انسان کو کچھ بھی کہنے پر مجبور نہ کرو۔"یہ وقت حق الیقین کا وقت ہے"۔صرف اور صرف سچ ہی زبان سے ادا ہو سکتا ہے اور شاید وہی زندگی کمائی بھی ہو۔
حاصل کلام یہ ہے کہ حقیقت کی پہچان اس مجازی دنیا میں ممکن ہی نہیں لیکن معجزہ رب کریم کی وہ عطا ہے جو اسی فانی دنیا میں ایمان والوں کا نصیب ہے۔۔۔اور اُن کا بھی جو کسی معجزے کسی چمتکار کے انتظار کے بغیر اپنے مالک کے ہر فیصلے کو سر جھکا کر ماننے کی راہ پر چلنے کا عزمِ صمیم رکھتے ہوں۔
دھند انہی آئینوں کی صاف کی جاتی ہے جو صفائی کے خواہش مند ہوں۔۔۔ تسکین اُن دلوں کا مقدر ہے جو بےقرار ہوں ورنہ 
جن قلوب پر مہریں لگ جائیں انہیں سب کچھ دکھائی دے بھی جائے پھر بھی نابینا رہتے ہیں۔
حرفِ آخر
ہم انسان ہیں مجاز کو کسی حد تک ہی سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اگر مجاز کی رمز سمجھ آنے لگے تو حقیقت کا ادراک دور نہیں
کہ مجاز حقیقت کی سمت کی جانب پہلا قدم ہے۔

3 تبصرے:

  1. علامہ کا ہی ایک شعر یاد آگیا ۔ ۔ ۔
    محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوءی ٹوٹنے والا
    یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...