سورۂ النور(24)۔۔آیت 34۔۔۔ 35۔۔
ترجمہ ۔۔۔۔
ہم نے آپ کی جانب روشن آیات نازل کی ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو آپ سے پہلے تھے، پرہیز گاروں کے لیے ایک نصیحت(34)۔ اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو گویا کہ وہ چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے جو کہ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہے۔ یہ نہ تو مشرقی ہے اور نہ مغربی، قریب ہے کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ یہ نور کے اوپر ایک اور نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے (35)۔
اللہ ہماری بیرونی کیفیت نہیں اندرونی احساس کا نام ہے۔جس طرح کہا گیا کہ حُسن اور خوبصورتی کی تلاش میں ہم چاہے پوری دُنیا کا چکر لگا لیں۔اگر وہ ہمارے اندر نہیں تو کہیں نہیں ملے گی۔
اپنی خوبصورتی کا احساس تلاش کے راستے پر پہلا قدم ہے۔ ظاہری خوبصورتی کا فخروغرور دنیاوی دلدل کی طرف لے جاتا ہے اور باطنی خوبصورتی کی خوشبو "درِکائنات" کو چھو جاتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بیرونی اور اندرونی عوامل کی یکجائی سے ہمیں اللہ کی قربت نصیب ہوتی ہے۔یہ قربت عشق کی منزلوں سے پرے بہت بلند بھی ہے۔۔۔جو صرف اللہ کے مقربین کا نصیب ہے۔۔۔ جس کو ہم جیسے عام انسان دیکھ سکتے ہیں۔۔۔مان سکتے ہیں لیکن سمجھ نہیں سکتے۔۔۔غورکر سکتے ہیں لیکن اپنی محدود استعداد میں رہتے ہوئے اس کو بیان نہیں کر سکتے۔
عام انسان ہونے کے ناطے ہمارے لیے احکامات کی پابندی شرطِ اول ہے۔۔۔ اللہ تک رسائی کے لیے احکامات کی پابندی سیڑھی ہرگز نہیں۔۔۔پہلا قدم ضرور ہے کہ اس کے بغیر سفر آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ لیکن اگر احکام کو ہی اول وآخر مان لیا۔۔۔نصاب کو رٹ کر امتحان دے دیا پھر پاس تو ہوا جا سکتا ہے۔۔۔آگے تو بڑھا جا سکتا ہےپرحرفِ غلط کی طرح مِٹ کر بعد میں آنے والوں کے لیے روشنی کا کوئی ذرہ بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔
روشنی کا سفر اپنی تلاش سے شروع ہوتا ہے۔ہم اپنے آپ کو فراموش کر کے اللہ کی تلاش سے آغاز کرتے ہیں۔۔۔پہلا ورق پڑھے بغیر درمیان سے شروع کرتے ہیں۔۔۔کچھ پہلے ورق کو ہی اسم اعظم جان کر اس کے ورد میں دُنیاومافیہا سے بےخبر ہو جاتے ہیں۔
کامیابی کی پہچان سانسوں کی محدود آمد ورفت میں اُن کی روانی کا دھیان رکھتے ہوئے ایک تسلسل کے ساتھ آگےسے آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔
علم زمان ومکان کی قید سے آزاد صرف نور ہی نور ہے۔اللہ نورِکائنات ہے اور انسان اُس کی تخلیق اول ۔اللہ نے نور کی خوشبو سب سے پہلے اپنی محبوب تخلیق کو ودیعت کی۔اور پھر اس کے وسیلے سے کائنات وجود میں آئی۔۔۔ آدم سے اولادِآدم تک یہی سلسلہ جاری وساری ہے۔
سبحان اللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریں