منتظم اعلیٰ ایک عام انسان ہوتا ہے۔ خامیوں خوبیوں سے آراستہ۔
وقت کا پہیہ اسے مسندِ اقتدار پر بٹھاتا ہے۔۔۔قسمت کا چکرانسانوں کے ہجوم میں سے نکال کر نمایاں کرتا ہے۔۔۔
کہیں جہد مسلسل اور امانت داری کے صدقے میں یہ منصب عطا ہوتا ہے۔۔۔ کبھی جوڑتوڑ اورسازشوں سے بھی کوئی نااہل اس عہدے پر قابض ہو جاتا ہے۔
منتظم اعلیٰ خواہ کوئی بھی ہو۔۔۔کسی بھی طریقے سے برسرِاقتدار آیا ہو۔۔۔ کسی بھی ملک کا ہو۔۔۔ لوہے اورکنکریٹ سے بنے محل اُس کی سلامتی کے محافظ نہیں۔۔وہ قانونی اورعسکری بیساکھیوں کے بل پر دُنیا میں اپنی بادشاہت سدا قائم نہیں رکھ سکتا۔۔۔ عقیدت مندوں کا دربار اور تقلید پسندوں کے ہار بھی اُسےفتح سے ہمکنار نہیں کر سکتے۔۔۔ دُنیا کے بادشاہوں سے ذاتی تعلقات اور اُن کا دباؤ اس عہدے پر رہنے کا جواز فراہم نہیں کرتے۔۔۔ جائز ناجائز طریقے سے کمائی گئی دولت کے انبار بھی اس کے تحفظ کے ضامن نہیں بنتے۔۔۔چالاکی، فریب اور دھوکا دہی سے وہ سادہ لوح یا سمجھ دار لوگوں کی آنکھ میں دھول نہیں جھونک سکتا۔
وہ تو خود "شیشےکے محل" میں رہتا ہے۔ایسا محل جسے "ثبوت " کا ذرا کنکر بھی ایک پل میں کرچی کرچی کر دیتا ہے۔اوروہ عرش سے فرش پر آ گرتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آئے روزاس کے کرشمے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اُن ممالک میں جن کے عدل وانصاف کے گن گاتے ہم کبھی نہیں تھکتے۔۔۔ جن کی شہریت حاصل کرنا ہم میں سے بہت سے لوگوں کا خواب ہے۔۔۔جہاں کا قانون ہمارے لیے مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ 70 کی دہائی کے آغاز میں امریکی صدر "رچرڈ نکسن" کا مشہور زمانہ"واٹر گیٹ اسکینڈل" تاریخ سے سبق سیکھنے والوں کے لیے جمہوریت کی فتح کی ایک روشن مثال ہے۔سیاسی اسکینڈلز سے قطع نظر موجودہ دور میں بھی یورپی اورامریکی صدور"اپنے کیے"کی سزا پاتے رہتے ہیں۔ بات صرف ٹھوس ثبوت کی ہے۔
ایک ترقی پذیر ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہےکہ ہم چاہےاشرافیہ سے ہوں یا عام عوام ۔۔۔ان پڑھ ہوں یا تعلیم یافتہ۔ کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے پاس دلائل نہیں ڈنڈے ہیں۔ برسوں پہلے آزادی کے سفر پر نظر ڈالیں جب ہمارے قائد نے صرف دلائل کی طاقت پر دوست دشمن کو رام کیا۔۔۔ وہ قائد جس کی نہ صرف ظاہری وضع قطع بدیسی تھی بلکہ زبان سے بھی عام لوگ ناواقف تھے۔ اس کے لہجے کی سچائی نے انجان دلوں کو فتح کیا تو غیر اس کے شفاف عزم صمیم کے سامنے ہار گئے۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو اس کی ذات ۔اس کے کردار میں کجی تلاش کی گئی۔ اس کے پاس سب سوالوں کے جواب تھے۔ہم جذباتی لوگوں کی قوم ہیں جو صرف الزام لگاتے ہیں۔ ایک پل میں ملزم کو مجرم بنا دیتے ہیں۔ اور جب ثبوت مانگا جائے تو ثبوت کسی کے پاس نہیں ملتا۔ "مجرم" کے پاس اور نہ ہی مدعی کے پاس۔ جناب اشفاق صاحب نے فرمایا تھا کہ "ہم بندہ مار دیتے ہیں جملہ ضائع نہیں ہونے دیتے"۔
۔" ہمارے بابے کہتے ہیں کہ مباحثے کے اندر، جھگڑے اور ڈائیلاگ میں کبھی کبھی آپ کو کمال کی بات سوجھ جائے جو آپ کے مدمقابل کو زیر کردے اور سب کے سامنے رسوا کردے تو وہ بات کبھی نہ کرو اور بندہ بچا لو۔ مت ایسی بات کرو جس وہ شرمندہ ہو جائے۔ اشفاق احمد از زاویہ۔۔۔2"۔
!حرف آخر
آپ بعض لوگوں کو ہمیشہ بےوقوف بنا سکتے ہیں یا تمام لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے بےوقوف بنا سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ تمام لوگوں کو ہمیشہ بےوقوف بنائے رکھیں ( لنکن)۔
وہ تو خود "شیشےکے محل" میں رہتا ہے۔ایسا محل جسے "ثبوت " کا ذرا کنکر بھی ایک پل میں کرچی کرچی کر دیتا ہے۔اوروہ عرش سے فرش پر آ گرتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آئے روزاس کے کرشمے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اُن ممالک میں جن کے عدل وانصاف کے گن گاتے ہم کبھی نہیں تھکتے۔۔۔ جن کی شہریت حاصل کرنا ہم میں سے بہت سے لوگوں کا خواب ہے۔۔۔جہاں کا قانون ہمارے لیے مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ 70 کی دہائی کے آغاز میں امریکی صدر "رچرڈ نکسن" کا مشہور زمانہ"واٹر گیٹ اسکینڈل" تاریخ سے سبق سیکھنے والوں کے لیے جمہوریت کی فتح کی ایک روشن مثال ہے۔سیاسی اسکینڈلز سے قطع نظر موجودہ دور میں بھی یورپی اورامریکی صدور"اپنے کیے"کی سزا پاتے رہتے ہیں۔ بات صرف ٹھوس ثبوت کی ہے۔
ایک ترقی پذیر ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہےکہ ہم چاہےاشرافیہ سے ہوں یا عام عوام ۔۔۔ان پڑھ ہوں یا تعلیم یافتہ۔ کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے پاس دلائل نہیں ڈنڈے ہیں۔ برسوں پہلے آزادی کے سفر پر نظر ڈالیں جب ہمارے قائد نے صرف دلائل کی طاقت پر دوست دشمن کو رام کیا۔۔۔ وہ قائد جس کی نہ صرف ظاہری وضع قطع بدیسی تھی بلکہ زبان سے بھی عام لوگ ناواقف تھے۔ اس کے لہجے کی سچائی نے انجان دلوں کو فتح کیا تو غیر اس کے شفاف عزم صمیم کے سامنے ہار گئے۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو اس کی ذات ۔اس کے کردار میں کجی تلاش کی گئی۔ اس کے پاس سب سوالوں کے جواب تھے۔ہم جذباتی لوگوں کی قوم ہیں جو صرف الزام لگاتے ہیں۔ ایک پل میں ملزم کو مجرم بنا دیتے ہیں۔ اور جب ثبوت مانگا جائے تو ثبوت کسی کے پاس نہیں ملتا۔ "مجرم" کے پاس اور نہ ہی مدعی کے پاس۔ جناب اشفاق صاحب نے فرمایا تھا کہ "ہم بندہ مار دیتے ہیں جملہ ضائع نہیں ہونے دیتے"۔
۔" ہمارے بابے کہتے ہیں کہ مباحثے کے اندر، جھگڑے اور ڈائیلاگ میں کبھی کبھی آپ کو کمال کی بات سوجھ جائے جو آپ کے مدمقابل کو زیر کردے اور سب کے سامنے رسوا کردے تو وہ بات کبھی نہ کرو اور بندہ بچا لو۔ مت ایسی بات کرو جس وہ شرمندہ ہو جائے۔ اشفاق احمد از زاویہ۔۔۔2"۔
!حرف آخر
آپ بعض لوگوں کو ہمیشہ بےوقوف بنا سکتے ہیں یا تمام لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے بےوقوف بنا سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ تمام لوگوں کو ہمیشہ بےوقوف بنائے رکھیں ( لنکن)۔
لیکن ہم پاکستانی تو ہمیشہ کیلئے بے وقوف بننے کیقسم کھائے بیٹھے ہیں
جواب دیںحذف کریںاصل سبب ہماری پسماندگی کا یہی ہے ” کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے پاس دلائل نہیں ڈنڈے ہیں “۔
جواب دیںحذف کریںجناب اشفاق صاحب نے فرمایا تھا کہ "ہم بندہ مار دیتے ہیں جملہ ضائع نہیں ہونے دیتے"۔
جواب دیںحذف کریںکہاں وہ باتیں اور کہاں ہمارے عہد کے لوگ . . .صبح شام لاشوں کی تعداد سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب دل گرفتہ نہیں ہوتا نہ آنسو آتے ہیں۔ دائیں بائیں ...میران شاہ سے شام و غزہ . .کراچی اور پشاور ....ایک لمبی فہرست ہے ۔۔۔۔خون آلود شہروں کی . . .اب بندے کی زندگی کی کیا وقعت . . .
آخر الزمان کی یہی پیشین گوئیاں کی تھیں نبی آکر الزمان ﷺنے .......فتنوں سے بھر پور زمانہ اور اسی میں ایمان کی پرکھ کٹھن ہے
http://daleel.pk/2016/10/25/8928
جواب دیںحذف کریں