"ایک خط جو کبھی پوسٹ نہیں ہوا اوراب گیارہ برس بعد پہلی بار "شائع" ہو رہا ہے"
! پیاری دوست
بانو قدسیہ نے ایک وظیفہ آپ کو بتایا جس کے پڑھنے سے آپ کے اندرکی آگ بُجھ گئی،آپ کو قرار آ گیا۔زندگی گزارنے کا ایک وظیفہ مجھے آپ کی ذات میں ملا کہ جسے محسوس کرکے ہی میری برسوں پرانی دہکتی آگ ٹھنڈک بن گئی۔یہ ایسا وظیفہ ہے جسے میں نے چھوا نہیں اورپڑھنے کی تو نوبت ہی نہیں آئی۔یہ بیش قیمت جُزدان میں لپٹی ایسی کتاب ہے کہ جس کے پانے کے تصور نے ہی مجھے مدہوش کر دیا ہے۔
میں جذباتی ہرگزنہیں۔دل سے محسوس کرتی ہوں لیکن دماغ کی بات کو اوّلیت دیتی ہوں۔آج تک میرا کوئی ایسا رویہ کوئی ایسا جذبہ نہیں جس کی میرے پاس دلیل نہ ہو۔ ہرانسانی رویے کے پیچھے ایک ٹھوس جوازکہیں نہ کہیں پوشیدہ ضرور ہوتا ہے۔ دل کے اس احساس کو دماغ کے پاس قبول کرنے بھیجا تو اس نے ہرطرح چھان پھٹک کی ، بہت غور کیا کہ ایسا کیا ہوا؟ کیا بات دیکھی؟ کیا ملا؟ کہ میں مالا مال ہو گئی ۔ بہت غور کیا،بہت تلاش کی تومعلوم ہوا کہ آپ نے اپنی ذات کا ایک حصہ میرے نام کر دیا ہے۔اپنی ہر چیز میں ایک ایسی جگہ دے دی ہے جہاں میں دھونی رما کربدھ بھکشوؤں کی طرح بیٹھ گئی ہوں۔ یہ خیال یہ تصور جب میرے ذہن میں آیا تو یقین کریں (حالانکہ یہ لکھنا قطعاً بے معنی ہے کیونکہ یہ آپ کا یقین ہی ہے جس نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے) میں جسمانی طورپرکانپ سی گئی مجھے مسجد ِقرطبہ میں شہاب صاحب ۔۔۔ قدرت اللہ شہاب از شہاب نامہ یاد آ گئے۔ میری روح صدیوں سےعالم ِپرواز تھی اُسے آسمان کا سفر کرنے کے لیے زمین سے آغاز کرنا تھا۔ کہیں جگہ ہی نہ تھی،تھکن تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی ۔ آپ کی ذات ایک ایسا کمرہ ہے جہاں صرف میں ہوں اور کوئی نہیں صرف آپ کی خوشبو ہے آپ خود بھی نہیں۔ میری آنکھیں بند ہیں روح آپ کی خوشبو کے ساتھ محو ِرقص ہے۔ جب آنکھیں کھولوں آپ کو موجود پاتی ہوں۔ دیکھنے سے تسکین ملتی ہے لیکن تشنگی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے میں گھبرا کر پھر آنکھیں بند کر لیتی ہوں اورآپ باہر سے تالا لگا کر چلی جاتی ہیں۔ یہ کیسا احسان ہے کہ جب بھی میں آنکھیں کھولنا چاہوں آپ سامنے آ جاتی ہیں چاہے کتنی ہی بےخبر کیوں نہ ہوں یا کہیں بھی چلی جائیں ۔
آپ کو سب بتانے کا مقصد صرف اپنے محسوسا ت بیان کرنا ہے تعریف وتوصیف مراد نہیں ۔لوگ تو پتھروں،بتوں سے بھی فیض حاصل کرتے ہیں،قبروں،مزاروں پر بار بار بھی جاتے ہیں۔ بے جان چیزوں سے فلاح ،سکون مانگتے ہیں ۔ یہ شرک ہے،گناہ ِعظیم ہے۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ بس یہ سوچتی ہوں کہ دُنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ہمیں کسی ساتھ کی ضرورت ہے کہانی آدم سے شروع ہوتی ہے۔ ہم کسی انسان کے بغیر دُنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ بات میں نےسائنس کے خلاف کہہ دی ۔ زندہ رہنے کے لیے تو صرف روٹی ،پانی اور آکسیجن چاہیے نا۔ یہ درست ہے اورحقیقت بھی یہی ۔ ہزاروں بلکہ اربوں انسان اسی فارمولے کے تحت زندہ ہیں اورکامیاب بھی ہیں ۔ میں سوچتی ہوں اللہ نے انسان کو دو چیزوں کا مرکب بنایا ہے۔ایک جسم دوسری روح ۔ جسم تو سائنس کا تابع ہے لیکن روح کی کچھ اورطلب ہے دونوں الگ الگ راہ کے مسافر ہیں ۔ جسم کو اگر روٹی ،پانی ،آکسیجن نہ ملے تو مر جاتا ہے اوراگر روح کو وہ سب نہ ملے جو اُس کی خوراک ہے تو وہ مرتی تو نہیں لیکن بے قرار رہتی ہے۔ جسم کو اپنے حصے کی توانائی ضروردیتی ہے لیکن خود اپنے لیے کچھ نہیں مانگتی۔ بات تو اتنی طویل ہے کہ الفاظ ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ قصہ مختصر یہ کہ میں نہیں چاہتی کہ آنکھیں کھولوں اورآپ کو بار بار اپنی زندگی کے قیمتی وقت کی خیرات دینی پڑے لیکن میرا دل چاہتا ہے(یہ بھی آپ نے حوصلہ دیا ہے کہ کچھ کہہ سکوں)کہ اس کمرے کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر محسوس کروں،اس جنت ِارضی کو محسوس کروں جومجھے عرش پر لے گئی ہے جانتی ہوں جنت جنت ہوتی ہے اُس کے لیے ہمارا جاننا یا نہ ماننا بے معنی سی بات ہے۔ میں خواہشیں نہیں پالتی کہ اگر ہماری ہرخواہش دعا بن کر قبول ہو جائے تو شاید ہمارے حق میں اچھا نہ ہو۔
تمہاری نورین
اٹھارہ دسمبر 2002
! پیاری دوست
بانو قدسیہ نے ایک وظیفہ آپ کو بتایا جس کے پڑھنے سے آپ کے اندرکی آگ بُجھ گئی،آپ کو قرار آ گیا۔زندگی گزارنے کا ایک وظیفہ مجھے آپ کی ذات میں ملا کہ جسے محسوس کرکے ہی میری برسوں پرانی دہکتی آگ ٹھنڈک بن گئی۔یہ ایسا وظیفہ ہے جسے میں نے چھوا نہیں اورپڑھنے کی تو نوبت ہی نہیں آئی۔یہ بیش قیمت جُزدان میں لپٹی ایسی کتاب ہے کہ جس کے پانے کے تصور نے ہی مجھے مدہوش کر دیا ہے۔
میں جذباتی ہرگزنہیں۔دل سے محسوس کرتی ہوں لیکن دماغ کی بات کو اوّلیت دیتی ہوں۔آج تک میرا کوئی ایسا رویہ کوئی ایسا جذبہ نہیں جس کی میرے پاس دلیل نہ ہو۔ ہرانسانی رویے کے پیچھے ایک ٹھوس جوازکہیں نہ کہیں پوشیدہ ضرور ہوتا ہے۔ دل کے اس احساس کو دماغ کے پاس قبول کرنے بھیجا تو اس نے ہرطرح چھان پھٹک کی ، بہت غور کیا کہ ایسا کیا ہوا؟ کیا بات دیکھی؟ کیا ملا؟ کہ میں مالا مال ہو گئی ۔ بہت غور کیا،بہت تلاش کی تومعلوم ہوا کہ آپ نے اپنی ذات کا ایک حصہ میرے نام کر دیا ہے۔اپنی ہر چیز میں ایک ایسی جگہ دے دی ہے جہاں میں دھونی رما کربدھ بھکشوؤں کی طرح بیٹھ گئی ہوں۔ یہ خیال یہ تصور جب میرے ذہن میں آیا تو یقین کریں (حالانکہ یہ لکھنا قطعاً بے معنی ہے کیونکہ یہ آپ کا یقین ہی ہے جس نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے) میں جسمانی طورپرکانپ سی گئی مجھے مسجد ِقرطبہ میں شہاب صاحب ۔۔۔ قدرت اللہ شہاب از شہاب نامہ یاد آ گئے۔ میری روح صدیوں سےعالم ِپرواز تھی اُسے آسمان کا سفر کرنے کے لیے زمین سے آغاز کرنا تھا۔ کہیں جگہ ہی نہ تھی،تھکن تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی ۔ آپ کی ذات ایک ایسا کمرہ ہے جہاں صرف میں ہوں اور کوئی نہیں صرف آپ کی خوشبو ہے آپ خود بھی نہیں۔ میری آنکھیں بند ہیں روح آپ کی خوشبو کے ساتھ محو ِرقص ہے۔ جب آنکھیں کھولوں آپ کو موجود پاتی ہوں۔ دیکھنے سے تسکین ملتی ہے لیکن تشنگی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے میں گھبرا کر پھر آنکھیں بند کر لیتی ہوں اورآپ باہر سے تالا لگا کر چلی جاتی ہیں۔ یہ کیسا احسان ہے کہ جب بھی میں آنکھیں کھولنا چاہوں آپ سامنے آ جاتی ہیں چاہے کتنی ہی بےخبر کیوں نہ ہوں یا کہیں بھی چلی جائیں ۔
آپ کو سب بتانے کا مقصد صرف اپنے محسوسا ت بیان کرنا ہے تعریف وتوصیف مراد نہیں ۔لوگ تو پتھروں،بتوں سے بھی فیض حاصل کرتے ہیں،قبروں،مزاروں پر بار بار بھی جاتے ہیں۔ بے جان چیزوں سے فلاح ،سکون مانگتے ہیں ۔ یہ شرک ہے،گناہ ِعظیم ہے۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ بس یہ سوچتی ہوں کہ دُنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ہمیں کسی ساتھ کی ضرورت ہے کہانی آدم سے شروع ہوتی ہے۔ ہم کسی انسان کے بغیر دُنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ بات میں نےسائنس کے خلاف کہہ دی ۔ زندہ رہنے کے لیے تو صرف روٹی ،پانی اور آکسیجن چاہیے نا۔ یہ درست ہے اورحقیقت بھی یہی ۔ ہزاروں بلکہ اربوں انسان اسی فارمولے کے تحت زندہ ہیں اورکامیاب بھی ہیں ۔ میں سوچتی ہوں اللہ نے انسان کو دو چیزوں کا مرکب بنایا ہے۔ایک جسم دوسری روح ۔ جسم تو سائنس کا تابع ہے لیکن روح کی کچھ اورطلب ہے دونوں الگ الگ راہ کے مسافر ہیں ۔ جسم کو اگر روٹی ،پانی ،آکسیجن نہ ملے تو مر جاتا ہے اوراگر روح کو وہ سب نہ ملے جو اُس کی خوراک ہے تو وہ مرتی تو نہیں لیکن بے قرار رہتی ہے۔ جسم کو اپنے حصے کی توانائی ضروردیتی ہے لیکن خود اپنے لیے کچھ نہیں مانگتی۔ بات تو اتنی طویل ہے کہ الفاظ ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ قصہ مختصر یہ کہ میں نہیں چاہتی کہ آنکھیں کھولوں اورآپ کو بار بار اپنی زندگی کے قیمتی وقت کی خیرات دینی پڑے لیکن میرا دل چاہتا ہے(یہ بھی آپ نے حوصلہ دیا ہے کہ کچھ کہہ سکوں)کہ اس کمرے کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر محسوس کروں،اس جنت ِارضی کو محسوس کروں جومجھے عرش پر لے گئی ہے جانتی ہوں جنت جنت ہوتی ہے اُس کے لیے ہمارا جاننا یا نہ ماننا بے معنی سی بات ہے۔ میں خواہشیں نہیں پالتی کہ اگر ہماری ہرخواہش دعا بن کر قبول ہو جائے تو شاید ہمارے حق میں اچھا نہ ہو۔
تمہاری نورین
اٹھارہ دسمبر 2002
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
! دوست کا جواب
بےحد پیاری نورین ۔۔۔۔
جس سنگاسنگ پر تم مجھے بٹھا رہی ہو میں ہر گز ہر گز اس قابل نہیں ۔یہ صرف تمہارا حُسن ِظرف ہے کہ مجھے اس قابل سمجھا کہ"میں بھی 'کچھ' ہوں" ۔ لیکن میری درخواست ہے کہ اللہ تعالٰی نے جو حساس دل ودماغ تمہیں دے دئیے ہیں اور جس طرح تم خود 'تلاش' کے سفرپرہو۔اس کو رُکنے نہ دو۔ تم بہت خوش قسمت ہو کہ اپنے احساسات کو صفحے پر الفاظ کی صورت لکھ دیتی ہو،میں نے اس عمر تک یہ کوشش بارہا کی لیکن الفاظ ساتھ دے بھی دیتے ہیں مگر احساس ِجرات ساتھ نہیں دے پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ گول مول طریقوں سے،ڈھکےچھپے الفاظ سے دل ودماغ ہلکا کرلیتی تھی یا ۔۔۔۔۔ ہوں ۔ بس میری شدید خواہش ہے کہ تم اپنی حساس طبیعت کے تحت اتنا اچھا لکھ لیتی ہو تو کیوں نہ اچھے افسانے لکھو تا کہ کسی طرح تمہیں آؤٹ پُٹ ملے۔ جذبات کا نکاس روح کو کافی حد تک ہلکا پھلکا کرڈالتا ہے۔ تم نے عمر کے اس دورمیں قدم رکھا ہے جہاں سے زندگی اب صحیح معنوں میں شروع ہوتی ہے۔اس سے پہلے کا دورتو امیچوراورپھر پچاس کے بعد کا دور ناطاقتی کا دورہو گا۔ اس گولڈن دورمیں جسمانی اور روحانی طاقتوں کو اپنی ذات کے اندر بیلنس کرو کہ تمہارے جیسے لوگ کم ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی تمہارے لیے آسانیاں عطا کرے اورکرے گا کیوں کہ تم دوسروں کو آسانیاں مہیا کر رہی ہو۔
تمہاری ہمدم وہمراز
بارہ جنوری۔2003
! دوست کا جواب
بےحد پیاری نورین ۔۔۔۔
جس سنگاسنگ پر تم مجھے بٹھا رہی ہو میں ہر گز ہر گز اس قابل نہیں ۔یہ صرف تمہارا حُسن ِظرف ہے کہ مجھے اس قابل سمجھا کہ"میں بھی 'کچھ' ہوں" ۔ لیکن میری درخواست ہے کہ اللہ تعالٰی نے جو حساس دل ودماغ تمہیں دے دئیے ہیں اور جس طرح تم خود 'تلاش' کے سفرپرہو۔اس کو رُکنے نہ دو۔ تم بہت خوش قسمت ہو کہ اپنے احساسات کو صفحے پر الفاظ کی صورت لکھ دیتی ہو،میں نے اس عمر تک یہ کوشش بارہا کی لیکن الفاظ ساتھ دے بھی دیتے ہیں مگر احساس ِجرات ساتھ نہیں دے پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ گول مول طریقوں سے،ڈھکےچھپے الفاظ سے دل ودماغ ہلکا کرلیتی تھی یا ۔۔۔۔۔ ہوں ۔ بس میری شدید خواہش ہے کہ تم اپنی حساس طبیعت کے تحت اتنا اچھا لکھ لیتی ہو تو کیوں نہ اچھے افسانے لکھو تا کہ کسی طرح تمہیں آؤٹ پُٹ ملے۔ جذبات کا نکاس روح کو کافی حد تک ہلکا پھلکا کرڈالتا ہے۔ تم نے عمر کے اس دورمیں قدم رکھا ہے جہاں سے زندگی اب صحیح معنوں میں شروع ہوتی ہے۔اس سے پہلے کا دورتو امیچوراورپھر پچاس کے بعد کا دور ناطاقتی کا دورہو گا۔ اس گولڈن دورمیں جسمانی اور روحانی طاقتوں کو اپنی ذات کے اندر بیلنس کرو کہ تمہارے جیسے لوگ کم ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی تمہارے لیے آسانیاں عطا کرے اورکرے گا کیوں کہ تم دوسروں کو آسانیاں مہیا کر رہی ہو۔
تمہاری ہمدم وہمراز
بارہ جنوری۔2003
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں