گھر اورعورت لازم وملزوم ہیں۔ گھر کا تصورہو اورعورت ذہن میں نہ آئے یہ ناممکن سی بات ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔
پیدائش کی اولین ساعتوں سے لے کر سوچ کی بلوغت تک وہ جیسے ایک سرائے میں سانس لیتی ہے جہاں ہرقدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے یہ جانے بنا کہ اس کا اپنا وجود شیشے سے بھی زیادہ نازک ہے۔اُس کی سماعتوں پر نصیحت وتلقین کی مسلسل ژالہ باری کے ساتھ ساتھ ہوس،محبت،عشق کے سنگریزے بھی برستےجاتے ہیں۔دامن بچاتی،ردا سنبھالتی اورکبھی اپنے دل کی کہی ان کہی نظرانداز کرتی سفر طے کرتی ہے۔یہاں تک کہ وہ مرحلہ آن پہنچتا ہے کہ جب بڑے تزک واحتشام سے ایک گھر سے کسی دوسرے گھرسفرکرنا پڑتا ہے۔ سماعتوں میں گھنٹیاں گونجتی ہیں کہ وہ گھراپنا نہیں تھا لیکن یہ گھرتو اپنا ہے۔ بہت جلد سُروں کا خمار اُترتا ہے یوں کہ ابھی تو پاؤں تلے زمین ہی نہیں گھر کی باری بعد میں ہی کہیں آئے گی۔ رفتہ رفتہ سمجھ آتا ہے تو فقط اتنا کہ زندگی کی گاڑی میں دو پہیوں کا ذکر توسنتے آئے تھے پرتوازن کا پیمانہ معلوم ہی نہ تھا۔ اب پتہ چلا کہ زندگی کے اس بندھن میں ہر دو میں سے ایک گونگا،بہرا اوراحمق بھی ہو پھر ہی گاڑی اپنی رفتار سے چلتی ہےاور یہ سبق صرف اپنی یاداشت میں تازہ رہے اوردوسرے کے سامنے اسے بار بار دہرانے کی ضرورت ہے اورنہ اجازت لیکن عورت اگر کشادہ دلی سےاس بات کو قبول کرے اور وقتاً فوقتاً اس بات کا اقراربھی کرتی رہے تو پھرکیا کہنے۔
یہ اپنی زندگی گزارنےکا نسخہ ہے کوئی نہیں سوچتا کہ اپنی زندگی گزارنے سے بھی زیادہ اہم ایک نئی زندگی پروان چڑھانے کا عمل ہے۔اس پودے کی نشوونما کی کتھا ہےجس کی آبیاری قدرت نے ذمے لگائی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہےکہ معاشرے میں عورت کی اس طرح بےحرمتی خود ایک عورت سے بڑھ کر کوئی دوسرا شاید نہیں کرتا۔ ایک ماں کے روپ میں اپنی بیٹی کی تو کہیں ساس کے روپ میں کسی دوسرے کی بیٹی کی اور بہن ہوکر دوسری بہن کے احساسات نہ سمجھنے کی اورخود اپنے آپ اپنی ذات اپنے احساسات کونظرانداز کرنے کی۔ پہلا قدم ہمیشہ عورت ہی اُٹھاتی ہے کسی عورت کو حقیر جاننے میں، اپنے آپ کوتباہ کرنے میں، اپنی صلاحیتوں کو زنگ لگانے میں لیکن اس کی وجہ ہمیشہ مرد کا رویہ ہی ہوتا ہے جو کبھی باپ کبھی بھائی اورکبھی شوہر کے روپ میں اس کا استحصال کرتا ہے۔
یاد رہے استحصال کوئی جسمانی یا ذہنی تشدد ہرگزنہیں بلکہ وہ میٹھا زہر ہے جو سلو پوائزن کی طرح خون میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ یہ صرف قدموں تلے زمین چھن جانے کا خوف ہے جو عورت کو سر اٹھانے سے روکتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عورت اس خوف سے نجات پا بھی جائے پھربھی دربدری اس کا مقدر ہے کہ یہ معاشرہ صرف مرد کا معاشرہ ہے جس میں عورت کا حق صرف کاغذوں پر ہی ملتا ہےاورکاغذ پربنے گھر بہتے پانی پرچلتی ناؤ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتےاورکاغذ کے گھر سے باہر در تو بہت کھلے مل جاتے ہیں لیکن گھر کا خواب ایک خواب ہی رہتا ہے۔بجا کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن اپنی زبان اورعمل سے مکان کو گھر بنانے کی ذمہ داری سراسر عورت پرعائد ہوتی ہے۔ عورت کو ملنے والا مکان کی ملکیت کا کاغذی حق کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک اُس میں اپنے رویے سے مکینوں کے دلوں میں "گھر" کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔کوئی بھی نظام کتنا ہی ناقابلِ برداشت اور ناہموار کیوں نہ ہو اُس کو مان کر،اس میں رہ کر ہی اپنی گنجائش نکالی جا سکتی ہے،کسی حد تک اپنے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔گھر میں رہتے ہوئے کتنی ہی مشکلات اور ناانصافیاں کیوں نہ ہوں انتظار کیا جائے تو سنوارنے کا موقع مل ہی جاتا ہے یا پھر برداشت کا ہنر ہاتھ آجاتا ہے۔گھر سے باہر نکل کر ہمدردی تو سمیٹی جا سکتی ہے،دکھوں کا مداوا بھی شاید ہوسکتا ہے لیکن گھر اور اس سے منسلک عزت دوبارہ کبھی نہیں مل سکتی۔
ایک مردہ عورت رہتی دُنیا تک نسلوں پر اپنےاثرات چھوڑنے والے والے "دیوان" اور دم بخود کرنے والے یادوں کے "تاج محل"کبھی محسوس نہیں کر سکتی اور نہ ہی اُن کا قرض اُتار سکتی ہے۔لیکن!ایک زندہ عورت کو دل کے کسی کونے میں احساس کا ننھا سا دیا ہی نصیب ہو جائے تو وہ اپنی ساری زندگی اور مکمل خواہشات اتنی بےنیازی سے دان کر دیتی ہے کہ فنا کی لذت بقا کی خواہش پر حاوی آ جاتی ہے۔
!آخری بات
یہ پوسٹ مردوں کے خلاف ہرگزنہیں بلکہ مرد توعورت کی خاطر جان، مال اور یہاں تک کہ ایمان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اس کے"دل" میں عورت کےلیے بےتحاشا جگہ ،بےحد احترام اور بلاشبہ ناقابلِ فراموش محبت کا سمندرموجزن رہتا ہے۔ عورت کی دیوی کے روپ میں پرستش سے لے کر ماں کی صورت اس کے قدموں میں جنت تلاش کرنے تک وہ ہمہ وقت قیام وسجود میں ہی رہتا ہے۔ یہ عورت کا مسئلہ ہے کہ وہ پتھر کے بت کی صورت نہیں بلکہ ایک عام انسان کی طرح اپنے وجود کا احساس چاہتی ہےاور مرد کا مسئلہ فقط یہ کہ وہ "دل" کی بات زبان پرکبھی نہیں لاتا۔ انا کےاس کھیل میں رسہ کشی چلتی رہتی ہے اورایک شاندار ازدواجی زندگی مثال بن جاتی ہے۔قصہ مختصر ایک کامیاب ازدواجی زندگی اُس شہد کی مانند ہے جس میں رویوں کے زہر کی نہایت چابک دستی سے آمیزش کی جاتی ہے،وہ زہر جو صرف پینے والے کو ہی نظر اتا ہے اور پلانے والاان جان ہوتا ہے اور یا پھر ان جان بننے کی کوشش کرتا ہے۔۔دیکھنے والے دیکھتی آنکھ پر بھروسہ کر کے فیصلے صادر کرتے ہیں،اس بات سے بےخبر کہ جس کی رگوں میں یہ قطرہ قطرہ"امرت" اُتر رہا ہے وہ اس کی اصل سے باخبر ہو کر بھی صرف"سقراط کہانی" کے لفظ اپنی مٹھی میں دبی تتلی کی صورت محفوظ کر کےاپنے رنگوں کی چمک اور خوشبو کی تازگی برقرار رکھنے کی سعیءمسلسل کیے جا رہا ہے۔جان کر بھی ان جان بنتے ہوئے کہ دیوار نہ سہی سایۂ دیوار تو سلامت ہے۔اور گردشِ سفر میں یہ آسرا بھی بہت ہے ورنہ منزل پر پہنچ کر کون کس کا آشنا۔
پیدائش کی اولین ساعتوں سے لے کر سوچ کی بلوغت تک وہ جیسے ایک سرائے میں سانس لیتی ہے جہاں ہرقدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے یہ جانے بنا کہ اس کا اپنا وجود شیشے سے بھی زیادہ نازک ہے۔اُس کی سماعتوں پر نصیحت وتلقین کی مسلسل ژالہ باری کے ساتھ ساتھ ہوس،محبت،عشق کے سنگریزے بھی برستےجاتے ہیں۔دامن بچاتی،ردا سنبھالتی اورکبھی اپنے دل کی کہی ان کہی نظرانداز کرتی سفر طے کرتی ہے۔یہاں تک کہ وہ مرحلہ آن پہنچتا ہے کہ جب بڑے تزک واحتشام سے ایک گھر سے کسی دوسرے گھرسفرکرنا پڑتا ہے۔ سماعتوں میں گھنٹیاں گونجتی ہیں کہ وہ گھراپنا نہیں تھا لیکن یہ گھرتو اپنا ہے۔ بہت جلد سُروں کا خمار اُترتا ہے یوں کہ ابھی تو پاؤں تلے زمین ہی نہیں گھر کی باری بعد میں ہی کہیں آئے گی۔ رفتہ رفتہ سمجھ آتا ہے تو فقط اتنا کہ زندگی کی گاڑی میں دو پہیوں کا ذکر توسنتے آئے تھے پرتوازن کا پیمانہ معلوم ہی نہ تھا۔ اب پتہ چلا کہ زندگی کے اس بندھن میں ہر دو میں سے ایک گونگا،بہرا اوراحمق بھی ہو پھر ہی گاڑی اپنی رفتار سے چلتی ہےاور یہ سبق صرف اپنی یاداشت میں تازہ رہے اوردوسرے کے سامنے اسے بار بار دہرانے کی ضرورت ہے اورنہ اجازت لیکن عورت اگر کشادہ دلی سےاس بات کو قبول کرے اور وقتاً فوقتاً اس بات کا اقراربھی کرتی رہے تو پھرکیا کہنے۔
یہ اپنی زندگی گزارنےکا نسخہ ہے کوئی نہیں سوچتا کہ اپنی زندگی گزارنے سے بھی زیادہ اہم ایک نئی زندگی پروان چڑھانے کا عمل ہے۔اس پودے کی نشوونما کی کتھا ہےجس کی آبیاری قدرت نے ذمے لگائی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہےکہ معاشرے میں عورت کی اس طرح بےحرمتی خود ایک عورت سے بڑھ کر کوئی دوسرا شاید نہیں کرتا۔ ایک ماں کے روپ میں اپنی بیٹی کی تو کہیں ساس کے روپ میں کسی دوسرے کی بیٹی کی اور بہن ہوکر دوسری بہن کے احساسات نہ سمجھنے کی اورخود اپنے آپ اپنی ذات اپنے احساسات کونظرانداز کرنے کی۔ پہلا قدم ہمیشہ عورت ہی اُٹھاتی ہے کسی عورت کو حقیر جاننے میں، اپنے آپ کوتباہ کرنے میں، اپنی صلاحیتوں کو زنگ لگانے میں لیکن اس کی وجہ ہمیشہ مرد کا رویہ ہی ہوتا ہے جو کبھی باپ کبھی بھائی اورکبھی شوہر کے روپ میں اس کا استحصال کرتا ہے۔
یاد رہے استحصال کوئی جسمانی یا ذہنی تشدد ہرگزنہیں بلکہ وہ میٹھا زہر ہے جو سلو پوائزن کی طرح خون میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ یہ صرف قدموں تلے زمین چھن جانے کا خوف ہے جو عورت کو سر اٹھانے سے روکتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عورت اس خوف سے نجات پا بھی جائے پھربھی دربدری اس کا مقدر ہے کہ یہ معاشرہ صرف مرد کا معاشرہ ہے جس میں عورت کا حق صرف کاغذوں پر ہی ملتا ہےاورکاغذ پربنے گھر بہتے پانی پرچلتی ناؤ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتےاورکاغذ کے گھر سے باہر در تو بہت کھلے مل جاتے ہیں لیکن گھر کا خواب ایک خواب ہی رہتا ہے۔بجا کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن اپنی زبان اورعمل سے مکان کو گھر بنانے کی ذمہ داری سراسر عورت پرعائد ہوتی ہے۔ عورت کو ملنے والا مکان کی ملکیت کا کاغذی حق کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک اُس میں اپنے رویے سے مکینوں کے دلوں میں "گھر" کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔کوئی بھی نظام کتنا ہی ناقابلِ برداشت اور ناہموار کیوں نہ ہو اُس کو مان کر،اس میں رہ کر ہی اپنی گنجائش نکالی جا سکتی ہے،کسی حد تک اپنے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔گھر میں رہتے ہوئے کتنی ہی مشکلات اور ناانصافیاں کیوں نہ ہوں انتظار کیا جائے تو سنوارنے کا موقع مل ہی جاتا ہے یا پھر برداشت کا ہنر ہاتھ آجاتا ہے۔گھر سے باہر نکل کر ہمدردی تو سمیٹی جا سکتی ہے،دکھوں کا مداوا بھی شاید ہوسکتا ہے لیکن گھر اور اس سے منسلک عزت دوبارہ کبھی نہیں مل سکتی۔
ایک مردہ عورت رہتی دُنیا تک نسلوں پر اپنےاثرات چھوڑنے والے والے "دیوان" اور دم بخود کرنے والے یادوں کے "تاج محل"کبھی محسوس نہیں کر سکتی اور نہ ہی اُن کا قرض اُتار سکتی ہے۔لیکن!ایک زندہ عورت کو دل کے کسی کونے میں احساس کا ننھا سا دیا ہی نصیب ہو جائے تو وہ اپنی ساری زندگی اور مکمل خواہشات اتنی بےنیازی سے دان کر دیتی ہے کہ فنا کی لذت بقا کی خواہش پر حاوی آ جاتی ہے۔
!آخری بات
یہ پوسٹ مردوں کے خلاف ہرگزنہیں بلکہ مرد توعورت کی خاطر جان، مال اور یہاں تک کہ ایمان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اس کے"دل" میں عورت کےلیے بےتحاشا جگہ ،بےحد احترام اور بلاشبہ ناقابلِ فراموش محبت کا سمندرموجزن رہتا ہے۔ عورت کی دیوی کے روپ میں پرستش سے لے کر ماں کی صورت اس کے قدموں میں جنت تلاش کرنے تک وہ ہمہ وقت قیام وسجود میں ہی رہتا ہے۔ یہ عورت کا مسئلہ ہے کہ وہ پتھر کے بت کی صورت نہیں بلکہ ایک عام انسان کی طرح اپنے وجود کا احساس چاہتی ہےاور مرد کا مسئلہ فقط یہ کہ وہ "دل" کی بات زبان پرکبھی نہیں لاتا۔ انا کےاس کھیل میں رسہ کشی چلتی رہتی ہے اورایک شاندار ازدواجی زندگی مثال بن جاتی ہے۔قصہ مختصر ایک کامیاب ازدواجی زندگی اُس شہد کی مانند ہے جس میں رویوں کے زہر کی نہایت چابک دستی سے آمیزش کی جاتی ہے،وہ زہر جو صرف پینے والے کو ہی نظر اتا ہے اور پلانے والاان جان ہوتا ہے اور یا پھر ان جان بننے کی کوشش کرتا ہے۔۔دیکھنے والے دیکھتی آنکھ پر بھروسہ کر کے فیصلے صادر کرتے ہیں،اس بات سے بےخبر کہ جس کی رگوں میں یہ قطرہ قطرہ"امرت" اُتر رہا ہے وہ اس کی اصل سے باخبر ہو کر بھی صرف"سقراط کہانی" کے لفظ اپنی مٹھی میں دبی تتلی کی صورت محفوظ کر کےاپنے رنگوں کی چمک اور خوشبو کی تازگی برقرار رکھنے کی سعیءمسلسل کیے جا رہا ہے۔جان کر بھی ان جان بنتے ہوئے کہ دیوار نہ سہی سایۂ دیوار تو سلامت ہے۔اور گردشِ سفر میں یہ آسرا بھی بہت ہے ورنہ منزل پر پہنچ کر کون کس کا آشنا۔
میں تو کم علم ہوں ۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ عورت صرف عورت ہے اور کوئی اور عورت نہیں بن سکتا
جواب دیںحذف کریںاس بات سے مجھے اختلاف ہے کہ مرد دل کی بات زبان پر نہیں لاتا------------------------------------------------------------ بلکہ عورت کے مقام، مرتبہ اوراس سے محبت ، عشق اور پیار ہی ایک مرد کے لیئے باعث مسرت اور سکون ہوتا ہے۔ ایک مرد کےجذبات اور اس کا پیار بنا ہی عورت کے لیئے ہے۔ عورت اور مرد کا ساتھ ہر جائز رشتے میں لازم و ملزوم ہے۔
جواب دیںحذف کریںویسے برا نا منائے گا، عورت کے لیے اگر پیار کی نہر بہادیں تو وہ دریا کی خواہش مند رہتی ہے، اور دریا بہا دو تو پھر سمندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لطیفہ ہے:::: ایک شادی شدہ عورت نے اپنے مرد سے کہا،
آپ سگرٹ مت پیا کریں ، صحت خراب ہوگی
سو اس نے سگرٹ چھوڑ دیئے
پھر کہا، آپ پان مت کھایا کریں، بہت عجیب لگتے ہیں
سو اس نے پان چھوڑ دیا،
پھر کہا، آپ اپنے بالوں کو ٹھیک رکھا کریں، شخصیت پر اثر ہوتا ہے،
اس نے بال بنانا شروع کر دیئے
پھر کہا، آپ گاڑی آہستہ چلایا کریں، ایکسیڈنٹ نا ہو جائے،
اس نے گاڑی احتیاط سے چلانا شروع کرد ی
یوں شادی کو ایک برس گزر گیا،
تو ایک دن اسے غور سے دیکھ کر کہنے لگی، جان!!!! تم کتنے بدل گئے ہو، اب مجھے پہلے جیسا پیار نہیں کرتے۔
لو کر لو گل!!!!! ایسا بھی ہوتا ہے۔
حسن یاسر نے کہا۔۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی باتیں اچھی لگتی ہیں شاید آپ کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی جہاں علم کے ساتھ عمل کو بھی اہمیت دی گئی ۔ہمارے ہاں عورت کو اپنا حق لینے کے لیے کم از کم پانچ سو سال مزید درکار ہیں باتوں کی حد تک ہم سب سیانے ہیں عمل کے وقت عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور ٹاک شوز یا بناؤ سنگھار میں لتھڑی خواتین ہمارے ہاں کے محدود طبقے کی نمائندہ ہیں جو تماشا بننے میں فخر محسوس کرتی ہیں ورنہ اکثریت وہی روایات اور رسوم کی بوسیدە چکی میں پس رہی ہیں ایسے گھٹن زدہ ماحول میں کیسا حق کہاں کی آزادی ؟؟؟ ہمارے معاشرے میں آج کوئی لڑکی اپنی پسند کا اظہار کر دے تو اس پر بےحیائی کا لیبل لگانے میں وہی لوگ پیش پیش ہوں گے جو منبر پہ کھڑے ہو کر دین کی ٹھیکیداری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں جن کوڑھ مغزوں کو یە بتانے والا کوئی نہیں کہ حضرت خدیجہ نے اپنا رشتہ خود بھیجا تھا عورت نے خود ساختہ وفا کی دیوی بن کر جو اپنا مقام طے کر لیا ہے اس کو بدلنے کے لیے ایک دو نہیں دس بارہ نسلیں درکار ہیں اور یہ سراسر میرا خیال ہے کسی کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں .... آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں میرے دادا جی ریٹائرڈ تھانیدار اور میرے نانا جی ہیڈ ماسٹر تھے میری پھوپھو جی اور امی جی ایک دن بھی اسکول نہیں گئیں لیکن گھر میں پھوپھو جی کا ہی حکم چلتا تھا یہ الگ بات کہ انہیں دادا جی سے نہ پڑھانے کا گلہ ضرور رہا تو آپ بتایئں یہ کیا رویہ ہے؟ایک اور بات کیا عورت کے لیے فکر وخیال کے نئے راستے صرف یہ ہیں کہ وە ساری زندگی اپنے اصل مقام کی پہچان کرتی رہے؟ اگر گھر ہی عورت کا اصل مقام ہے تو اس کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرنے میں کیوں ہم لوگ خائف رہتے ہیں؟ ہر مرتبہ عورت ہی سمجھوتے کیوں کرتی ہے کیا بطور باپ بیٹا بھائی یا شوہر کے ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم ان بےآواز آنسوؤں اور دبی دبی سسکیوں کی آواز سنیں ان کا مداوا کریں جو ہمارے ہی وجود کا حصہ ہیں میری پھوپھو جی کہا کرتی تھیں دو وقت کی روٹی تو وہ عورتیں بھی کھا لیتی ہیں جو صبح سے شام تک گھر گھر مانگنے جاتی ہیں لیکن پیٹ بھرنے کی اس کوشش میں وہ اپنی ذات کا غرور مار بیٹھتی ہیں تو کیا چار دیواری میں سمجھوتوں کی پھانس نگلنے والی خاتونِ خانہ اور ان عورتوں میں کوئی فرق رہ جاتا ہے ؟ کچھ خواتین اس معاملے میں خوش قسمت ثابت ہوتی ہیں لیکن یہ تو ایک اندھیرے غار میں آنے والی روشنی کی کرن جیسی ہے جو تاریکی سے نبرد آزما ہے جب تک ہم سب بطور ایک انسان کے عورت کو تسلیم نہیں کریں گے ان کی پسند ناپسند دکھ سکھ کا خیال نہیں کریں گے حالات نہیں بدلیں گے جہاں میں غلطی پر ہوں مجھے اپنی غلطی ماننی پڑے گی کاش ہم سب اس حقیقت کو جان لیں کہ وہ علم کیسا علم ہے جو شعور نہیں دے رہا۔
31 مئی 2015
" ضبط لازم ہے"۔
جواب دیںحذف کریںفروری 4۔۔۔2015
"پیروں تلے زمین چھن جانے کا خوف عورت کو سراٹھانے سے روکتا ہے"
(روزنامہ جنگ کے 4 فروری 2015 کے مڈویک میگزین میں شائع ہوا)
http://magazine.jang.com.pk/arc_detail_article.asp?id=26424