جمعرات, نومبر 07, 2013

"منیلا میں چند روز "

منیلا۔۔۔۔ فلپائن
فرار سدا سے انسان کی جبلت ہے۔یہی فرار ہےجس نے انسان کو خُلد سے نکلوایا اوریہ جبلت ہی تو ہے جو بچے کو ماں کی کوکھ سے جلدازجلد باہر آنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔سات سمندروں کا سفر کس کا خواب نہیں۔دُنیا میں پیدا ہونے والا تقریباً ہر شخص اپنے پاؤں میں پہیے لے کر پیدا ہوتا ہےاور ہمارے وطن میں تو ویسے ہی کچھ باقی نہیں سوائے ہمارے جسمانی وجود کے وہ بھی جو ہوا کی زد پہ ٹمٹماتے دیے کی مانند ہے۔مہنگائی سے لے کر کرپشن تک اور انفرادی سطح پر زیارتی سے اجتماعی طور پر ناانصافی تک،ماحول سے معاشرے تک کہیں بھی  تازہ ہوا میں سانس لینے کی  ذرا سی گنجائش نہیں۔یہ ہم سب کے دل کی آواز ہے اورثبوت کے طور پرآنکھیں جابجا اس کے نظارے دیکھتی ہیں۔
ایسی ہی پُکاراُس لڑکی کی بھی تھی جوبرسوں سے باہر کے کسی ملک جانے کی خواہش لیے بیٹھی تھی۔قسمت نے یاوری کی اوراللہ نے چاہا کہ اُسے اُس کے خواب کی اصلیت ایک بار تو دکھا دی۔خواب سے حقیقت تک کے اس سفر میں نہ صرف اس نے ایک نئی دنیا دریافت کی بلکہ اپنے وطن اوراس کی نعمتوں کا بھی ادراک ہوا۔
وہ  ایک کانونٹ اسکول کی  معلم تھی۔اس سال 2013 اگست میں کانونٹ کی تاریخ میں پہلی باراسلام آباد کی اپنی اساتذہ کے لیے فلپائن میں ایک گیارہ روزہ تعلیمی سیاحتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ جاتے وقت جانے والے اور لے جانے والے دونوں بہت پُرجوش تھے۔کانونٹ کی سسٹرز یہاں پاکستان میں اپنی اساتذہ کو بہت عزت دیتی ہیں اوراپنے ملک میں لے جانا وہاں کی ثقافت سے روشناس کرانا تو اُن کے لیے بہت ہی قابل ِفخر بات تھی۔روانگی سے لے کر واپسی تک کا سارا شیڈول جانے سے ایک ماہ پہلے ہاتھ میں تھما دیا گیا اور باقاعدہ لیکچر دے کر ہر بات کی وضاحت کی گئی۔
اساتذہ کا یہ گروپ جس میں ہر عمر کی خواتین تو تھیں لیکن اُن میں ایک قدر مشترک تھی اپنی مرضی سے اپنی دُنیا سے باہر آزاد فضا میں سانس لینے کی خوشی۔دس گیارہ گھنٹے کے سفر اور دو جہاز بدلنے کے بعد اپنے مقررہ مقام پر پہنچے تو رہائش سے لے کر کھانے تک نہایت عالیشان وی آئی پی ٹریٹمنٹ منتظر تھا۔ پاکستانی عورت خواہ وہ گھر پر کام کرے یا باہر کی ذمہ داریاں بھی نبٹائے وہ اتنےپروٹوکول کا کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتی۔ یہ پہلا احساس تھا جس نے روح سرشار کر دی۔روح کی تسکین کے بعد جب پیٹ کی بھوک نے شور مچایا تو آنکھ نے انواع واقسام کے خوش رنگ کھانے میز پرسجے دیکھے ۔ یہ بھی جنت کا نظارہ تھا کہ ہم خواتین جو سب کو کھانا کھلا کر اور برتن سمیٹ کر آخرمیں دیگچیاں صاف کر کے اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں۔ اپنے آپ کو معزز و محترم جانتے ہوئے دلپذیر دکھائی دیتی سجی نما روسٹ کی جانب ہاتھ بڑھایا تو ساتھ بیٹھی دوست نے آنکھ کا اشارہ کیا "حرام" ۔ بس پھر کیا تھا سوچنے والے بڑھتے ہاتھ رُک گئے اور لذت محسوس کرنے والوں کو عجیب سی ناگواری کا احساس ہوا ۔ مارے باندھے سفید چاول(خشکہ چاول) کھائے کہ یہ فلپائن تھا جہاں روٹی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ تھوڑا بہت چکھ کر کمروں میں واپس آئے ہی تھے کہ سسٹر کی کال آئی "واپس آؤ برتن سمیٹو" یہ کیا انداز تھا ؟ پہلے بادشاہوں کی طرح کھانا کھلایا اور اب برتن اُٹھانے کا کہا جا رہا ہے۔ تھکے ہارے الٹے قدموں لوٹے تو دیکھا میز کے اطراف ایک کاؤنٹر تھا جس میں استعمال شدہ چمچے،پلیٹیں،بچا ہوا کھانا اور باقی بچ جانے والی چیزوں کے لیے الگ الگ خانے بنے تھے۔ طریقے سے اپنی ٹرے کو ان جگہوں پر خالی کیا اورآئندہ کا یہ پہلا سبق ذہن نشیں کر لیا۔آہستہ آہستہ پتہ چلا کہ یہ جنت تو تھی لیکن ہم پاکستانیوں کے لیے جیل جیسے قوانین لیے ہوئے۔ وقت کم تھا اور ہر کام پہلے سے طے تھا شروع شروع میں کچھ الجھن سی ہوئی کہ ہم پاکستانیوں کے پاس ایک آزادی کی دولت ہی تو ہے۔ لیکن پھر جلد ہی "بندے دے پتر" بن گئے۔ پیٹ گھڑی بہت باقاعدہ ہوتی ہے جب اس نے شور مچایا تو پتہ چلا کہ لال مرچ ، دہی ، روٹی اور تو اور چائے بھی اس جنت بےنظیر میں شجرِ ممنوعہ تھی ، چائے کی کمی کافی سے پوری کرنے کی کوشش کرتے رہے اوریا پھر" کیلا زندہ باد" ۔ 
یہ ایک تعلیمی دورہ تھا ہر روز تقریباً تین سکولوں میں جا کر وہاں کے سیکھنے سکھانے کے عمل کا جائزہ لینا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اپنےمعلمی کے پیشے پر فخر محسوس ہوا جب ہر جگہ پُرتپاک استقبال کے ساتھ خوش آمدید کے طور پر خاص پروگرام بھی پیش کیے جاتے۔ چائے توپورے منیلا میں شجرِممنوعہ تھی ۔ کافی اور دوسرے مشروبات کے ساتھ کھانوں سے سجی میزیں خوش مزاج میزبانوں کی طرح استقبال کرتیں اورحلال حرام کے شش و پنج میں ہم میں سے اکثر پھلوں پر گزارا کرتے۔ اور پھل بھی تو قسم قسم کے تھےایسے جو ہم نے اپنے یہاں صرف کتابوں میں ہی دیکھے تھے۔ صرف میز پر جانے کی دیر ہوتی ہماری پسند پوچھ کر بہت اہتمام سے کاٹ کر پیش کیے جاتے۔ ایک بار تھکن سے بےحال جب متلی کی سی کیفیت پیدا ہوئی تو تازہ ہوا کی خاطر باہر جا بیٹھی ۔ سسٹرکو جب ناسازئ طبع کا پتہ چلا تو فوراً ملحقہ ریسٹ روم میں لے گئیں ۔ وہاں نرسز نے اتنی چاہت سے دیکھ بھال کی ،نرم نرم ہاتھوں سے مساج کیا ،نہایت احتیاط سے جوتے اتارے۔ اتنی محبت اتنی توجہ تو کبھی اپنوں سے بھی نہ ملی تھی۔ہمارے ہاں تو جب تک بندہ گر نہ جائے اُسے بیمار نہیں جانا جاتا اور سر درد تو محض ایک چونچلہ ہی سمجھا جاتا ہے۔
ایک اولڈ ہاؤس بھی گئے جو مدر ہاؤس تھا ۔ یہاں مدرز نے بہت پیار سے خوش آمدید کہا۔ ہم سے باتوں کے دوران ہماری اردو کے لفظ "خوش آمدید ،شکریہ اور اللہ حافظ " لمحوں میں یاد کر لیے ۔ ہر مدر اپنے کاموں میں مصروف تھی اور بہت فخر سے اپنے بارے میں بتاتی تھیں ۔ ہر چیز کی فراوانی اپنی جگہ لیکن تنہائی کا آسیب اس پُررونق مدر ہاؤس میں پوری شان سے براجمان تھا ۔ واپسی پر مدرز "تھوڑی سی اور بات کر لیں ذرا دیر اور رک جائیں" کہتی بہت دُکھی کر گئیں ۔ وسیع وعریض شاپنگ مالز میں گھومنا پھرنا اور پھر کھو جانا زندگی کا ایک نہ بھولنے والا تجربہ تھا۔ ہم نے بہت شوق سے جینز رکھیں کہ باہر جا کر بنا کسی روک ٹوک کے اپنی مرضی سے جو چاہے وہ پہنیں گے لیکن پھر یہ ہوا کہ جب پُرہجوم مالزمیں سب ایک دوسرے کو ڈھونڈتے اور دیار ِغیر میں کھو جانے کے خوف سے بوکھلانے لگے تو طے یہ پایا کہ اپنا لباس اپنا حجاب پہنا جائے تاکہ دور سے ایک دوسرے کو پہچانا جاسکے۔ وہ شناخت جو اپنے وطن میں بنیاد پرستی دکھائی دیتی تھی اب انسانوں کے سمندر میں نعمت بن گئی اورتو اور آس پاس گزرنے والے رک کر پوچھتے" انڈین" ،ہم کہتے نہیں! پاکستانی ۔ وہاں بھکاری اور بھیک کا تصور نہ تھا اور نہ سامان کی چوری کا خطرہ لیکن ہمیں خبردار کیا گیا کہ اپنے پرس کی حفاظت کریں ،غیر ملکیوں کے بیگ اورپیسے لوٹنا یا چھیننا جسے انگریزی زبان میں سنیچنگ کہتے ہیں عام ہے اور ایسا ہوا بھی ہماری ایک ساتھی کے پرس سے پیسے غائب ہو گئے اوراسے پتہ بھی نہیں چلا ۔
!ایک نیا تجربہ !! سسٹر کا آبائی گھر 
یہ منیلا سے نو گھنٹے کی زمینی مسافت پر تھا ، سسٹر نے ذاتی خرچ پر بذریعہ ہوائی جہاز اپنے گھر والوں سے ملوانے کا اہتمام کیا۔ منیلا میں بیرونِ ِملک پروازوں کے لیے الگ اور لوکل آنے جانے کے لیے علیحٰدہ ہوائی اڈے موجود تھے۔ سسٹر خود بھی کئی سال بعد اپنے گھر گئی تھیں ۔( سسٹرز کون ہوتی ہیں ؟ جیسے مسلمانوں میں ہمارے گھر کا کوئی ایک بچہ مدرسے چلا جاتا ہے دینی تعلیم حاصل کرتا ہے اور پھر دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیتا ہے بالکل اسی طرح عیسائیت میں بھی ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو دین اور دنیا میں ایک توازن رکھا جاتا ہے لیکن عیسائیت میں دینی تعلیم کے بعد دنیا سے رابطہ فقط کبھی کبھار اپنے گھر والوں سے چند روز ملنے تک کا ہی ہوتا ہے۔ شادی شدہ زندگی اور عام پہناوا یہاں تک کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ ہنسنا بولنا بھی ممنوع ہوتا ہے۔ کم عمر لڑکیاں ایک مخصوص لباس کے ساتھ سب کے سامنے سنجیدگی اور بردباری کا لبادہ بھی اوڑھ لیتی ہیں۔ان کی معاشرتی زندگی کانونٹ  تک ہی محدودہوتی ہے جہاں وہ اپنی مرضی سے جو چاہیں کر سکتی ہیں ۔) سسٹر کے گھر بہت زیادہ عزت اور محبت ملی ۔ سسٹر نے اپنے گھر میں اپنی والدہ کے ہاتھ سے بنے خاص کھانے کھلائے جن میں دنیا میں پائی جانے والی سب سے چھوٹی مچھلی ( سیناراپان )کی ایک مہنگی ڈش بھی تھی ۔ لیکن باقی کھانوں میں وہی حلال کھانے کا مسئلہ۔ اب احساس ہوا کہ جس طرح دنیا گول ہے اسی طرح ہر جذبہ بھی گول ہے، ہم محبت کو روٹی پر ترجیح دیتے ہیں۔ محبت کے خواہش مند ہوں محبت مل جائے تو عزت کی چاہ کرتے ہیں ،عزت مل جائے تو پھربات دوبارہ روٹی پرآ کر ختم ہو جاتی ہے۔خیرہم نے سسٹر کے کچن گارڈن سے نہایت چھوٹے سائزکی ڈھیروں ہری مرچیں توڑیں اورخوب مزے سے خشکہ چاولوں کے ساتھ کھائیں اور گھر والے کبھی ہمیں کبھی اپنے پُراہتمام کھانوں کو دیکھتے تھے۔
!!واپسی 
پی آئی اے کی رات کی فلائیٹ سے پہنچنےاوراگلی صبح دس بارہ روز کے بعد روٹی کی شکل دیکھنے اورمیرے ہاتھوں کا گرماگرم پراٹھا کھاتے ہوئے یہ سب باتیں بہن کا بے ساختہ اظہار تھا جسے میں نے اسی لمحے لکھ لیا،اسی لیے جب اس پورے آرٹیکل کا جائزہ لیا تو کھانا ہی سب سے بڑا موضوع دکھائی دیا اوراُسوقت بھی جب بہن نے بتایا کہ وہاں مٹی یا گرد کا نام و نشان نہ تھا تو میں نے یہی کہا تھا... ......"مٹی پاؤ تےروٹی کھاؤ"۔
کہانیاں کہنے سننے کے بعد اصل مرحلہ سوٹ کیس کھلنے کا بھی آیا۔ یہ ہماری فطرت ہے کہ محبت خلوص اپنی جگہ پر باہر سے آنے والوں کے سامان کا بھی بڑے ذوق وشوق سے جائزہ لیا جاتا ہے،لالچ کی بات نہیں بس ایک تجسّس سا ہوتا ہے ورنہ ہمارے ملک میں دُنیا کی ہر چیز وافر موجود ہے اورہماری پاکستانی ذہنیت جب کسی شے کی قیمت کو اپنی کرنسی میں تبدیل کرتی ہے تو کوئی خاص فرق نہیں لیکن ہر ملک کی خاص ثقافت اوراُس کی پہچان ہوتی ہے جو اس کی عام استعمال کی چیزوں میں نظر آتی ہے اور پھر یہ تو ایک طرح سے سرکاری دورہ تھا اس لیے سسٹرز نے اپنے ملک کے تحائف (سوونئیر) دے کر رُخصت کیا اورہم بھی بہت سی جگہ شاپنگ کرتے ہوئے جو مناسب لگا بھاگ دوڑ میں لیتے گئے۔ یہاں اپنی اس کمزوری کا بھی پتہ چلا جو ونڈو شاپنگ کہلاتی ہے۔اپنے ملک میں تو وقت بھی اپنا ہوتا ہے اور جگہیں بھی اپنی ۔ پہلے کئی جگہ سے تسلی کر کے پھر ہی کوئی چیز خریدتے ہیں لیکن یہاں جس جگہ ایک بار ہو آئے پھر دوبارہ وہاں جانے کا نہ موقع ملا اور نہ ہی وقت نے اجازت دی ۔ گھر آکر جب جائزہ لیا تو بہت سی چیزیں ہمارے ہاں کے مقابلے میں سستی لگیں ،اسی طرح بہت سی ایسی تھیں جو یہاں بھی مل سکتی تھیں ۔
منیلا کو مشرق کا موتی (اورینٹ آف دی ایسٹ) بھی کہا جاتا ہےاوروہاں کی خاص سوغات "سچے موتی" ہیں۔ خواتین اور زیور لازم وملزوم ہیں ۔ منیلا کے موتی بازارمیں جا کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ بالکل اصلی سچے موتی جو دو طرح کے تھے۔ فریش واٹر اور میرین واٹر،اول الذکر ذرا کم قیمت کے تھے ، لیکن اپنی کرنسی میں دیکھا تو بہت سستے لگے جیسے وہاں کے سو پیسو کی چیز ہمارے دوسو پاکستانی روپوں کے برابر تھی موتیوں سےلدی پھندی دکانیں ہمارے بڑھتے قدم روکتی تھیں اور ہم چھوٹے بچوں کی طرح ان رنگ برنگ موتیوں کی دُنیا میں کھو جاتے تھے۔ واپس آ کر سب سے زیادہ افسوس یہی ہوا کہ اصلی خریداری تو کی ہی نہیں ۔ وہ سچے موتی جن کی ہم نے وقت پر قدرنہ کی اب رہ رہ کر یاد آتے تھے۔ یہی ہماری فطرت ہےاورالمیہ بھی یہی۔ سچے موتیوں کی وقت پرقدرنہ کی جائے تو وقت کے گہرے سمندروں میں سیپ میں بند چپ چاپ کہیں کھو جاتے ہیں۔
! آخری تاثر
خواب سے حقیقت تک کے اس سفر میں ہمیں نہ صرف اپنے بارے میں بلکہ دوسروں کے بارے میں بھی بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ نوک جھونک ، جھنجلانا ،روٹھنا منانا اور پھر سب بھول کر گلے لگ جانا ہمارے اس سفر کی نہ بھولنےوالی یادیں ہیں۔ اور یہ بات سو فیصد سچ ہے کہ کسی انسان کی اصلیت اور اُس کے اندر کا اندر ہم کبھی بھی نہیں جان سکتے جب تک اس کے ساتھ رات نہ گزاریں یا سفر نہ کریں۔ اوراس سفر میں دن اگرخوشگوار حیرت کے مزے میں سب کے ساتھ گزرتے تھے۔ راتیں بھی پردیس میں تنہا کسی غیرمذہب کی مقدس جگہ میں گزارناعجیب تجربہ تھا۔ جہاں رات کےاندھیرے میں دیوار پرآویزاں اُن کی مقدس صلیب جگمگاتی اورپھر کھڑکیوں سے درختوں کو چھو کر آنے والی شائیں شائیں کی آوازیں ہمیں کسی دوست کے کمرے میں دستک دینے پر مجبور کرتیں۔ واپسی پر شاید سب کے دل کی آواز یہی تھی کہ ہم باہر سے جتنے بھی بدل جائیں اندر سے وہی خالص پاکستانی ہیں جن کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں اورچھوٹے چھوٹےغم۔ جو لڑتے ہیں تو دل سے اورکسی پرمرتے ہیں تو بھی دل سے۔ ہمارا وطن جیسا بھی ہے ہمیں قبول ہےکہ ہم یہاں ایک نمبر شہری ہیں۔ 
" پاکستان زندہ باد "
! آخری بات
اُن اجنبی ،بےلوث مہربانوں کو سلام جن سے  ہم شاید زندگی میں پہلی اورآخری بار ملےاور اُن سے ہمارا کسی بھی قسم کا رشتہ نہ تھا  مذہب کا اورنہ زمین کا اور سب سے بڑھ کر نہ ہی مطلب کا۔ لیکن محض انسانیت کےناطے ہمیں اتنا کچھ دے گئے کہ اُس محبت کا لمس،اُن آنکھوں کی تازگی اوربےغرض خلوص کی مہک تازندگی ہمارے ساتھ رہے گی۔ اللہ پاک مشکل کی اس گھڑی میں جب اُس قوم پر سمندری طوفان "ہیان" کی بدولت کڑا وقت آیا ہے، رحم کرے اورثابت قدم رکھے۔
نومبر8، 2013 
تصاویر۔۔۔۔
سوونئیرز۔۔۔
سچے موتیوں سے بنے زیور۔۔۔
 visiting BRH
YUMMY ice cream 
visit to school
universal food
trip to Tagatay
our regional home
ready to go
Ocean park ,Mailing
cam sur beach                                          
 SMA Ligao Mayon volcano                                      
 
Cam sur beach
 
Desi touch

Mall of Asia
shopping and just shopping
real pearls really
amazing
 
shopping paradise
snow land



5 تبصرے:

  1. واہ ۔کیا مزیدار سفرنامہ مع خوبصورت تصاویر۔
    بیرونی ممالک میں سفر کا کبھی کبھی یہ فائدہ ہتا ہے کہ اپنے ملک کی پہچان اور بھی دل میں گھر جاتی ہے۔اور بندے کو احساس بھی ہوجاتا ہے۔ نیز انسان کی بعض عادات بھی منفی مثبت تبدیل ہوجاتی ہیں۔

    ایک بار پھر شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. خوب، یہاں اپنے ساتھ بہت سے فلپینو کام کرتے ہیں، فطری کھلے دل اور کھلے زہن کے مالک۔

    یہاں ایک بات مشہور ان کے متلعق کہ انتہائی فضول خرچ واقع ہوتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت ہی دلچسپ انداز تحریر!
    بہت لطف آیا۔
    ایک بات شاید آپ کے علم بھی نہیں ہے۔کہ فلپائینی مہمانوں کیلئے اسپیشل ڈش بناتے ہیں۔۔
    جیسے بلوچستان کی سجی ہوتی ہے!
    تو ہمارے ایک دوست جب کھانے لگے تھے تو ہم نے کہا تھا۔
    صاحب یہ حرام ہے مت کھائے۔
    ان صاحب نے نخوت سے کہا تھا۔
    جا اوئے مولوی
    مجبوری میں جھٹکا بھی کھایا جا سکتا ہے۔
    ہم اس وقت ہی علم کے ذخیرے پر ناگ بن کر بیٹھ گئے تھے۔
    ان صاحب نے خوب چٹنیاں لگا کر مرغی کی ٹانگیں سمجھ کر ہمیں جلا جلا کھائیں۔
    جب کھانے کے بعد دو چار ڈکار مار چکے تو ہم نے کہا۔
    بھائی ہم بتائیں گے تو آپ ناراض ہو گے۔
    لیکن یاد رکھئے کہ ہم نے "ھذا حرام " کہہ دیا تھا۔
    اب ان خاتونہ سے تصدیق فرمائے !!
    بس بیچارے الٹیاں کرتے ہی باقی سیاحت کرتے رہے۔
    جی کتے کی "ٹانگیں" تھیں ؛ڈڈڈڈڈڈڈڈڈ

    جواب دیںحذف کریں

  4. "دلیل" پر اس تحریر کی اشاعت کے بعد احباب کا اظہارِ خیال اور میرے جوابات۔۔۔
    Sumreen Nasir ...
    woww Noureen Tabassum ur words beautifuly captured one of the best golden time of my life indeed the philipines trip memories are unforgetable... full time enjoyment and fun... thankyou very much dear for ur caring efforts.
    ......
    Munira Qureshi
    واہ ،،،، کسی اور کی آنکھ سے دیکھی،ان دیکھی دنیا کا اتنی تفصیل سے لکھ جانا ،،،، تحریرکنندہ کی،مہارت اور تصورات کی کامل پختگی کی علامت ہے ،،، ( قابلِ تعریف!) خود پہنچتیں تو پتہ نہیں کتنی جُزیات کے ساتھ ہمیں ان گوشوں کی طرف متوجہ کرتیں جس پر ہم سرسری نظر بھی نہ ڈالتے !
    میرا جواب۔۔۔۔۔
    کیا کہوں کیا نہ کہوں۔۔۔۔۔ چلیں کلام اقبال نے میری مشکل حل کر دی۔۔۔
    "آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں "
    ۔۔۔۔۔
    Farhat Tahir · University of Karachi
    تاثرات سے بهر پور سفرنامہ جس میں اپنائیت بهی ہے اور چاشنی بهی!
    ،،،،
    Tahir Ali Bandesha · Travel Consultant at Alkazima Travel and Tourism
    اچھے پیرائے میں سفر بیان کیا ہے واقعی ہی اک خود کلامی سا ہی لگ رہا ہے۔
    ۔۔۔۔۔
    Shabnam Munir....
    Bht hi khubsurat likha hai perh kr ankhon dekha haal laga hai, poray saffar nama ko bari khubsurati sy capture kia hai welldone,
    ۔۔۔۔۔
    Furrukh Nadeem
    Acha likha hai lekin let me tell you that Roti , chai , faqeer , chor are everywhere in Manila. Assad Mini Mart se barfi, laddu, jalebee and samosa bhi mile ga or roghni nan bhi
    Noureen Tabassum
    آپ نے درست کہا ۔ لیکن یہ ایک سرکاری دورہ تھا اور مہمان میزبان کی فراہم کردہ سہولیات کے پابند تھے۔۔اپنی اس تحریر اور اس احساس کے بارے میں بس اتنا کہوں گی کہ بلاشبہ یہ تصویر کا ایک رُخ ہی نہیں بلکہ محض جھلک ہی تھی۔ اس کی مثال اپنے ملک کے حوالے سے یوں دی جائے کہ جیسے باہر کے کسی ملک کا شہری ، اجنبی زبان بولنے والا زندگی میں پہلی بارچند روز کے لیے ہمارے وطن آئے اسے "اسلام آباد" کے کسی پوش علاقے میں ٹھہرایا جائےاور سیر کرائی جائے وہ بھی چیدہ چیدہ خاص مقامات کی اور ہم اپنے دیسی کھانوں سے اس کی تواضح کریں تو وہ بھی کچھ ایسا ہی محسوس کرے گا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔۔۔۔۔ پاکستان تو بہت امیر ملک ہے، وہاں بڑی بڑی گاڑیوں کی قطاریں ہر وقت رواں دواں رہتی ہیں، وہاں کے عام رہائشی علاقوں میں بھی بڑے عالیشان گھر ہیں اور وہاں کے ہوٹلوں کی شان وشوکت کا تو جواب نہیں بس وہ لوگ کچھ عجیب وغریب کھانے کھاتے ہیں جن کے "سوپ" میں مرچوں اور "گھی" کی اتنی فراوانی ہوتی ہےجو بیان سے باہر ہے ( پائے، نہاری) :)
    اور ہماری شامتِ اعمال سے وہ بےچارہ اگر "بڑی عید" پر آ جاتا تو ہر طرف قربانی اور خون دیکھ کر ہمیں خون آشام قوم کا خطاب ضرور دیتا۔
    اور وہ کبھی نہ جان سکتا کہ اس کی نظر سے محض چند سو گز پرے اسلام آباد کی کچی آبادیاں بھی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...