بدھ, جنوری 25, 2023

"خواب سے حسرت تک"

اس دنیا میں اربوں انسان ہیں ہر ایک دوسرے سے مختلف ۔اِسی طرح اُن کے خواب،خواہشیں اور حسرتیں بھی جُدا ٹھہریں ۔ ہم عام انسان ہیں اور ہماری عام سی خواہشات۔۔۔ زندگی کے میلے میں دوسروں کے لیے آسانیاں بہم پہنچانے کی سعی کرتے چُپکے سے اپنی پٹاری میں بھی اپنے خواب جمع کرتے جاتے ہیں اچھے وقتوں کے۔۔کبھی مہربان موسموں کے ۔۔

ایک وقت آتا ہے اور ان شااللہ ضرور آتا ہے جب ہمارے خواب حقیقت بن جاتے ہیں ،خواہش پوری ہو جاتی ہے،حسرت سیراب ہو جاتی ہے۔ کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی پلیٹ میں رکھ کر پیش کر رہا ہے لیکن اُس وقت ہم پر اپنے خواب ،اپنی خواہش اور اپنی طلب کی قدروقیمت بھی واضح ہو جاتی ہے۔وہ خواب جنہیں ہم تاعمر اپنی زندگی کی خوشی کی قیمت پر پالتے رہےاب قطعاً بےمعنی بلکہ لایعنی دِکھتے ہیں ۔

زندگی کی شطرنج کا اصل مہرہ وقت ہے۔وہ جب اپنی چال چلتا ہے تو ہر شے کی اصلیت بیان کرتا ہے۔ہم اچھے وقت کے انتظار میں عمر گزار دیتے ہیں۔ہر کسی کے مقدر میں اچھا وقت نہیں آتا ۔لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ جن کے نصیب میں اچھاوقت آ جائے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ اُن کا اپنا وقت تو ختم ہو گیا۔

زندگی کے رشتوں کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بعد ہمارے خیال میں جب ہماری اپنی ذات کے لیے ہماری اپنی زندگی شروع ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ زندگی تو راستے میں ہی کہیں تمام ہوگئی تھی۔ہم اپنے سارے رنگوں کو اپنی پلکوں میں چھپائے خود سے وابستہ رشتوں کی تصویر میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں ،اُن کی مکمل تصویرکشی کے بعد جب خود پر نظر پڑتی ہے تو معلوم ہوتا ہےاپنے سارے رنگ تو عمر کے بڑھتے سالوں کی بارشوں میں مُٹھی میں دبی تتلی کی طرح بکھر گئے ،اب تو صرف دو رنگ بچے ہیں ، آگہی کا روشن سفید اور واپسی کا "بلیک ہول"۔ زندگی کی باگ دوڑ (جو پہلے بھی اپنے ہاتھ میں کہاں تھی بس یقین کا دھوکا تھا) اپنے ہاتھ سے نکل چُکی۔اب تو بس انتظار ہے نقارےکا ۔ویسے تو یہاں کسی کا نہیں پتہ ۔کہتے ہیں نا کہ آنے کی ترتیب ہے جانے کی نہیں ۔لیکن ایک جا نشینی اپنے بڑوں کی بھی ہےکہ اُن کے جانے کے بعد اب ہم اُن کی جگہ پر ہیں ۔۔ انسان بھی عجیب ہے کہ دنیا کے تخت کی جانشینی کے لیے بےتاب رہتا ہے اور واپسی کے تختے کی جانشینی کی سوچ کو بھی قریب نہیں آنے دیتا۔

عمر کے بڑھتے ادوار میں انسانی اہلیت اور حسرتِ زندگی کی کسی نامعلوم لکھاری نے کیا خوب منظرکشی کی ہے۔۔۔۔

چالیس  سال کی عمر میں زیادہ پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو کم تعلیم یافتہ افراد کہیں زیادہ پیسے کماتے ہیں۔

 پچاس سال کی عمر میں بدصورتی اور خوبصورتی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اپنے زمانے کے حسین ترین انسان کے چہرے پر بھی جھریاں نظر آنے لگتی ہے۔

ساٹھ سال کی عمر میں بڑے عہدے اور چھوٹے عہدے کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ سر پھرے بیوروکریٹ کو ریٹائرمنٹ کے بعد دفتر کا چپڑاسی چوکیدار بھی سلام نہیں کرتا۔

ستر سال کی عمر میں چھوٹے گھر اور بڑے گھر کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ گھٹنوں کی درد اور کمر کی تکلیف کی وجہ سے صرف بیٹھنے کی جگہ ہی تو چاہئیے۔

اسی سال کی عمر میں پیسے کی قدر و قیمت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر اکاونٹ میں کروڑوں اور جیب میں لاکھوں روپے بھی ہوں تو کونسا سکھ خریدلو گے؟

نوے  سال کی عمر میں سونا اور جاگنا ایک برابر ہو جاتا ہے۔ جاگ کر بھی کیا تیر مار لو گے؟؟

 حرفِ آخر

 زندگی ہماری کبھی بھی نہیں ہوتی  ۔ہم  فقط  اس کے ساتھ کے احساس میں  اسے گزار دیتے ہیں۔

2 تبصرے:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...