بدھ, جنوری 23, 2013

" ماں کی یاد "

 
ہم کتنےہی سمجھ دارکیوں نہ بن جائیں ،انسانی نفسیات اور ذاتی نفسیات کی کتنی ہی خود ساختہ کتابیں کیوں نہ پڑھ لیں وقت وہ اُستاد ہے جو ہمیں ایسے ایسے نُکات سمجھاتا ہے جو اگرچہ سامنے ہی ہوتے ہیں لیکن ہم اُنہیں کسی اور نظر سے دیکھ کر گُزر جاتے ہیں۔
ماں کے جانے کے بعد آنسو کیوں خشک ہو گئے؟۔ یہ اب جانا ہے۔ 'ماں' کتنی ہی مجبور،لاچار اور بےبس کیوں نہ ہو،ہمارے آنسو بھی نہ پونچھ سکتی ہو لیکن کم از کم ہمارے ساتھ مل کرآنسو تو بہا سکتی ہے-آنسو کا رشتہ جوڑ کر ہم تو شانت ہو جاتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ہماری آنکھ کا آنسو ماں کے دل کو چھید ڈالتا ہے اورماں اپنی خلش اپنا درد فراموش کر کے اپنے آنسو اپنے دامن میں سمیٹ کر ہمیں سہارا دیتی ہے اور ہم نادان یہ سمجھتے ہیں کہ ماں کو احساس ہی نہیں ہماری اذیت کا ۔ یہ تو کہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ماں نے اُن آنسوؤں کو کس طور اپنے اندر جذب کر لیا تھا اب کسی کے سامنے آنسو بہانا محض جگ ہنسائی ہے اور کچھ بھی تو نہیں۔ ماں کے آنسو  ہر کسی کو نظر نہیں آتے کیونکہ وہ 
شور نہیں کرتےاندر کی طرف بہتے ہیں۔۔۔روح میں جذب ہو کر کبھی خدمت،کبھی محنت،کبھی چاہت، کبھی بےنیازی تو کبھی لفظ کی صورت اپنا عکس آئینۂ دُنیا میں چھوڑ جاتے ہیں۔اب دیکھنے والے ،برتنے والے کہاں تک ان موتیوں کی قدر کرتے ہیں یہ ان کا ظرف اور ان کا مقدر ہے۔
ماں کے سامنےسوائے ماں کے سب ظاہری رشتے بہت اہم لگتے ہیں۔۔۔اس لیے کہ ماں اپنی اہمیت کبھی ظاہر نہیں کرتی اور ماں کے بعد سب رشتے صرف روٹین ہی رہ جاتے ہیں اہم یا غیر اہم بھی نہیں۔۔۔اب بن کہے ہمیں ہماری تھکن کااحساس دلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔کوئی کاندھا نہیں ملتا،سننے والے چاہنے والےحتیٰ کے منانے والے بھی بہت مل جاتے ہیں لیکن !!! لڑنے والا کوئی نہیں ملتا۔۔۔جان بوجھ کر ہارنے والا کوئی نہیں ملتا۔یوں جانو کہ ایک بےضرر باکسنگ پیڈ چلا جاتا ہے جس پر مکے مار کر ہم اپنی بھڑاس نکال سکتے تھے یا نکالتے بھی تھے۔۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی۔
ماں کے رّتبے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہے!دُنیا میں پہلا سانس ماں کے وسیلے سے ملتا ہے۔۔۔اگر اپنی آخری سانس تک ماں کو یاد نہیں رکھا توایسی زندگی جانور سے بھی بدتر ہے۔یاد یہ نہیں کہ ٹھنڈی آہیں بھرتے۔۔۔غم زدہ رہتے ہوئے۔۔۔ ماں کو روتے رہیں۔ بلکہ ماں کی یاد کو ایک ایسا مضبوط ساتھ بنائیں جوزندگی میں ہرقدم پرسراُٹھا کرچلنے کا حوصلہ دے۔
اس میں شک نہیں کہ ماں کے بغیر  زندگی کے کینوس پر رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں بلکہ رنگ  اُڑ ہی جاتے ہیں۔ماں "اوزون" کی وہ پرت ہے جو ہمیں زمانے کے سرد وگرم سے خبردارکرتی رہتی ہے۔ لیکن ہم اپنی قابلیت،اپنی علمیّت کے بَل پر نِت نئے تجربات میں مصروف رہتے ہیں۔۔۔اس بات سے بےخبر کہ سرپر ردا کے بغیر کُھلے آسمان تلے ہم کیوں کرمحفوظ رہ سکتے ہیں۔ وہ 'اوزون' جو  ممکن حد تک ہماری حفاظت کرتا ہے۔پرکب تک۔ ہمارے تجربات کے بدبو دار مادے اُس میں شگاف ڈالنے میں لگے رہتے ہیں اورجب وقت نکل جاتا ہے توساری عمر تپش میں چلنا ہی مقدر ٹھہرتا ہے۔
ماں"متاعِ جاں" ہے۔اورجب سے قیمتی شے ہی چلی جائے تو پھرکیا فائدہ کیا نقصان۔ تخلیق کے پہلے لمس، پہلے سانس  سے  ماں کی کوکھ  ہی بچے کی دنیا اور زندگی  ہے۔ یقین   کی  چیخ سے کرب سے آشنائی تک ساری عمر وہ ماں کی کوکھ کی خوشبو محسوس کرتا ہے۔ ماں کی کوکھ زندگی اورماں کا وجود دُنیا ہے۔ ماں نہ رہے توزندگی بےمعنی اور وجود نہ ہو تو بھری دنیا میں اپنا وجود خالی ہو جاتا ہے ۔ماں کےبغیر زندگی کسی اورسمت نکل جاتی ہے اور وجود کےبغیر دُنیا اجنبی سی لگنے لگتی ہے اور بغیر چھت کے ایک چاردیواری  رہ جاتی ہے۔ ہر چہرے میں اُس عکس کی تلاش ہوتی ہے۔ ہر لمس اُس پھوار کی چاہ کرتا ہے۔دُنیا بہت چھوٹی اورراستہ طویل تر ہو جاتا ہے۔راستہ ہمدم کے بغیر نہیں کٹتا اورجب ہمدم نہ رہے تو اپنا وجود کٹنے لگتا ہے۔ اُسے بکھرنے سے بچانے کے لیے نئے سرے سے سفر شروع کرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر راہ نما تو ملتے ہیں لیکن وہ کبھی نہیں ملتا جو چلا گیا ۔ کبھی یہ راہ برخود کسی قطب نما کی تلاش میں ہوتے ہیں تو کبھی کوئی قطب نما خود ہی تلاش کے سفر میں ساتھ بن جاتا ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ جو ہمارے اندر ہو یا ہم جس ذات کا وجود ہیں وہ کبھی کہیں نہیں جاتا،نگاہوں سے اوجھل تو ہوتا ہے پرہمارے اندر اُترجاتا ہے۔ ہمارے وجود کے قبرستان میں ایک چھوٹی سی قبر اُس کی یاد کی ضرور بن جاتی ہے۔قبرسے پھوٹتی روشنی جب جگ کو منورکرتی ہے تو پھر قبر قبر نہیں رہتی مزار بن جایا کرتے ہیں۔مزار پر عُرس ہوتے ہیں، چراغاں ہوتا ہے،ہجوم ہوتے ہیں، میلے لگتے ہیں،قوالیاں ہوتی ہیں، مرادیں،منّتیں مانگی جاتی ہیں،چڑھاوے ہوتے ہیں۔رفتہ رفتہ یقین اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ مرادیں بر آتی ہیں،مانگنے والے تھک جاتے ہیں،عطا کرنے والا دیتے نہیں تھکتا۔
ماں اور زندگی درحقیقت ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ زندگی بس ایک بار ملتی ہے اورکبھی نہ ملنے کے لیے بظاہر ختم ہو جاتی ہے لیکن کسی اور انداز میں جاری رہتی ہے۔ماں صرف ایک بار ملتی ہے لیکن اُس کا احساس اُس کا ساتھ اپنے اندرسمو لیا جائے  توآخری سانس تک اُس کی مہک محسوس کی جا سکتی ہے۔
کسی اپنےکے جانے سے زندگی ختم نہیں ہوتی لیکن ایک نئی زندگی ضرور شروع ہوجاتی ہے"۔"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...