جمعرات, فروری 27, 2020

"امی کا خط"

 " کسی نے کیا  خوب کہا تھا کہ "پرانے خطوں کو پڑھنے میں اس لیے مزا آتا ہے کہ اُن کا جواب نہیں دینا پڑتا "۔لیکن   ہم نہیں جانتے تھے کہ آنے والے دور میں لفظ "خط" ہی معدوم ہو کر رہ جائے گا۔ ایک دور تھا کہ  جب دور دیس میں   بسنے والے اپنے پیاروں  سے ربطِ باہمی کا سب سے خوبصورت ذریعہ  خط لکھنا  اور   قیمتی تحفہ خط پڑھنا  ہوا کرتا تھا۔  اپنی امی کے انتقال کے آٹھ برس بعد  ملنے والے بوسیدہ  ہوتے کاغذ میں مدہم مِٹتے حروف آج اس لمحے اپنی پوری تازگی کے ساتھ سانس لیتے ہیں اور ہماری آنکھوں کو اُن کی محبت سے نم کرتے ہیں ۔بنا کسی کانٹ ٖٖچھانٹ کے لفظوں کا یہ صدقۂ جاریہ اپنے بلاگ کی صورت میں محفوظ کرتی ہوں کہ  اپنی نوبیاہتا بیٹی  کو لکھا گیا یہ خط محض ذاتی  حال احوال ہی نہیں بلکہ نئی زندگی کا آغاز کرنے والی ہر لڑکی کے لیے  ایک رہنمائی  ہے تو اس کے لفظ لفظ میں ماں کی اپنی بیٹی سے  بےلوث محبت کی  مہک بھی۔اس کے ساتھ ساتھ  اٹھائیس سال پرانے اس خط میں اس دور کے خاندانی  نظام  کی جھلک بھی  ملتی ہے جب سب  کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت ہوتا تھا اور ظرف بھی۔ 
(نورین تبسم)
۔۔۔۔۔۔
92۔10۔2
اسلام آباد
پیاری ہردلعزیزبیٹی عالیہ بشیر ہمیشہ خوش وخرم رہو
السلام علیکم
نیک تمناؤں اور پُرخلوص دعاؤں کے ساتھ نامہ یادآوری ارسال کر رہی ہوں۔اللہ تعالیٰ سے دعاگو  ہوں کہ تمہارا زندگی کا سفر ہمراہ شریکِ سفرپُرسکون اور باہمی تعاون اور اُلفتوں کے سائے میں بسر ہو اور اُمید کرتی ہوں کہ تم ایک باشعور اور سمجھدار لڑکی کے کردار میں اعلیٰ ظرفی،وسعتِ قلبی اور جذبہ پیارومحبت ، ہمدردی  اور خلوص  کے جذبوں  سے اپنےآپ کو مزین کرسکو تاکہ تمہارے افعال وکردارسےتمہارے اہلِ خانہ کے دلوں میں تمہاری قدر محبت خلوص گھر کر جائے۔ اللہ کا شکر ہے  کہ  اُ س نے تم کواچھا گھر،قدردان لوگ،پُرسکون ماحول اور پُرفضا وادی عطا کی ہے۔اب تم اپنی ذات کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے گھر کو خوشیوںِ  مسرتوں کا گہوارہ بنا سکتی ہو۔زندگی کی اعلیٰ ترین معراج گھر کا ماحول اور باہمی پیارومحبت ہوتا ہے۔امید ہے تم اپنے تمام دینی دُنیاوی معاملات خوش اسلوبی سے   ادا کرتی ہو گی۔ انہی الفاظ میں ہم دونوں (ماں باپ ) کی خوشی پنہاں ہے۔
اب جناب تمہارے خط  کے جواب کی طرف آتی ہوں ۔تم سوچنے  لگی ہو گی کہ امی کیا فلسفہ  لے کر بیٹھ گئی ہیں لیکن پیاری بیٹی یہ ہر ماں باپ کے دل کی آواز  ہوتی ہے ۔تمہارا خط جمعرات  دس بجے دن ملا ۔میں نے اُس  دن ربیع الاول کے حوالے سے میلاد کا پروگرام رکھا تھا۔خاندان کے  سب ہی لوگ مدعو تھے کیونکہ جمعرات  کو ہی اسلام آباد میں  تبلیغی اجتماع  تھا ،اس لیے میں نے سوچا  چلو ایک  پنتھ دوکاج ہو جائیں گے ۔مرد تبلیغ  میں شرکت  کریں گے اور  خواتین  پیارے پیغمبر  ﷺ کی  محفل سجا لیں گی۔تو جناب  ہمارا پہلا مہمان  روبی  تھی ۔وہ صبح   آٹھ بجے  آ گئی تھی ۔اُس کا خیال تھا کہ آنٹی  کی کچن کے کام  کی مدد ہو جائے گی۔میں اور ثمرین،تانیہ مل کر گھر کے سامان  میں ردوبدل کر رہے تھے کہ تمہارا خط آ گیا۔تمام کام چھوڑ کر  سب تمہارے  خط کو پڑھنے میں  لگ گئے۔بڑے ذوق و شوق  سے تمہاری لفظی ملاقات ہوئی ۔پھر تو تمہارا خط سب مہمانوں کے لیے موضوع بن گیا۔تقریباً تمام اہلِ خانہ نے فرداً فرداً    وہ   خط پڑھا اور سب لوگ خوش ہوئے۔ابو تمہارا خط گاڑی میں  لے گئے کہ  میں آرام سے پڑھوں  گا ۔اورہاں اہم بات یہ تھی کہ  بشیراحمد  کا خط گو کہ مختصر تھا لیکن لاجواب ،بہترین لفظوں کا  خزینہ تھا۔پڑھ کر طبیعت باغ باغ ہو گئی اور اُس کی حالت بھی ایسے صحیفہ کی بن گئی کہ جیسے کسی نے پہلی دفعہ ایسا نسخۂ کیمیا دیکھا ہو۔میری اور ڈاکٹرصاحب کی طرف سے  بہت بہت شکریہ ادا کر دینا کہ جن لفظوں سے انہوں نے یاد کیا  ہے۔ اللہ تعالیٰ اس خلوص کو قائم ودائم رکھے آمین۔
تو جناب یہ محفلِ میلاد کافی پُررونق رہی۔تقریباً 45خواتین نے  شرکت کی اور بچے تو  تم کوپتہ ہی ہے کہ اس کے علاوہ ہوتے ہیں ۔تمہاری اور نورین کی کمی کو لوگوں نے بہت محسوس کیا اور سب نے تم دونوں کویاد کیا اورتمہارے ماش کی دال کے بڑے ،گلابی چائے کا بہت ذکر ہوا،میں نے قیمہ سموسے اور بالوشاہی آڈر پر بنوائی تھی،باقی بسکٹ،دہی پھلکیاں ،چنے نرم والے بنائے تھے۔بالوشاہی محفل کے ختم ہونے پر لفافوں میں ڈال کر لوگوں کو جاتے ہوئے دی تھی۔رات کو تقریباً دو ڈھائی بجے تک  گھر کے لوگ جاگتے رہے،گھر کے باہر بیڈمنٹن کا  کورٹ لگا تھا،بڑا بلب لگا کر سب کھیلتے رہے۔یامین،سلیم ،فہیم صوفی بڑے چمپئین تھے۔لڑکیاں پکڑن پکڑائی کھیلتی رہیں اور تمام آنٹیوں نے اپنی مخصوص  گپ شپ  کی،اُس دن طویل دورانیہ کا ڈرامہ تھا،اس لیے کچھ لوگ اس  کو دیکھنے میں محو  ہو گئے،کچھ لوگ  خراٹے لیتے رہےاور محوِخواب  ہوگئے۔ رات کو  چائے کی محفل  چلی ۔اور سب لڑکے سونےکے لیے اجتماع کےکیمپ میں چلے گئےکیونکہ فیاض بھائی کی تاکید تھی کہ رات  گھر پر کسی نے نہیں سونا ہے۔ابو دیر سے آئےاور سب کو دیکھ کر حسبِ عادت بہت خوش ہوئے اور پھر نہانےکھانے کے بعد ابو آرام کرنے لگے اور صبح تقریباً  4 بجے ابو اجتماع میں چلے گئے۔ آٹھ بجے حلوہ گرم گرم لے کر آئے اور سب کو  شور کر کے اُٹھا یا کہ حلوہ گرم ہے حلوہ گرم ہے۔ناشتے کے بعدتقریباً  دس بجے  لوگ  شاردا آنٹی (خالہ) کے گھر چلے گئے کیونکہ دوپہر کا کھانا انہوں نے بنانا تھا۔ابو نے اپنا تمام دن تبلیغ میں گزارا۔اور اس طرح تم لوگوں کے بغیر  یہ محفل ختم ہوگئی۔
اور سناؤ تمہاری طبیعت کیسی رہتی ہے۔تم نے یہی کہنا ہے کہ ٹھیک ہے۔اللہ تعالیٰ ٹھیک ہی رکھے ۔اور ہماری بہن  کا کیا حال ہے،اُن کی طبیعت اب پہلے سے بہتر ہے،اُن کے آرام کا خیال رکھا کرو اور اُن سے خوش وخرم رہنےکے لیے کہا کرو۔اللہ سے دعا ہے کہ اُن کی صحت میں افاقہ کرےآمین۔ اور آپ کی پھوپھی صاحبہ کے مزاج کیسے ہیں ،اُن کے بچوں کو دعا کہنا اور اُن کی خدمت میں سلام عرض کرنا۔خالدہ کی طبیعت کیا خراب ہے  وہ سیلاب کے دنوںیں آ گئی تھیں لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔ اُن کو بھی دعا سلام کہنا۔اور یہاں پر تمام حالات بدستور ہیں اور سب لوگ  خیریت سے ہیں۔ثمرین تانیہ کے سہ ماہی امتحان ہیں ،اس لیےوہ پڑھائی میں مصروف ہیں ۔اور تم گھر کے کام کی فکر نہ کیا کرو۔جب تک صحت تندرستی ساتھ دےگی،میں زندگی کے فرائض بخوبی ادا  کرتی رہوں گی ۔تم کبھی سوچتی ہو گی  کہ امی کام کرنے  میں کیوں دلچسپی لیتی  تھیں ،تو  بیٹا یہ  چیز شاہد ہے کہ بیٹی کی  ذمہ داریاں شادی کے بعد بڑھ جاتی ہیں۔اس لیے ماں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ گھر پر کم سے کم کام میں ہاتھ ڈالے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ لڑکی بالکل نکھٹو اور کام چور  ہوجائے اور اُسے کچھ کرنا ہی نہ آئے۔یہ بھی مشکل مرحلہ ہوتا ہے،ثمرین کو بھی کوشش کررہی ہوں کہ کچن کے کام کی کچھ سوجھ بوجھ آ جائے۔تم تو ماشااللہ  ماسڑ ہو۔سب کام کر لیتی ہوں گی اور اچھی بات ہے ،کام کو ہمیشہ خوش دلی سے کرنا چاہیے۔اور سناؤ تم نے اپنا چیک اپ  کرایا ہے،اپنا وزن  ضرور کراتی رہنا۔خوراک میں اخروٹ اور دودھ کا استعمال  ضرور جاری رکھنا  اور موسم تو کافی تبدیل ہورہا ہے۔نورین کا فون ،خط آیا  ہے،وہ بھی کہتی ہے کہ موسم کافی سرد ہونے لگا ہے،تم کو بچے یاد کرتے ہیں،تمہارا خط بھی کل ملا ہے نورین کو۔ میں  یہ خط دیر سےپوسٹ کر رہی ہوں ۔اُمید ہے درگزر کرو گی۔ اور فیض اللہ الگ تم کو بہت یاد کرتا ہے۔اکثر ٹیلی فون گھماتا ہے کہ عالیہ آؤ۔میں اُس کو کہتی ہوں کہ تم عالیہ  سے لڑائی کرتے تھے  اس لیے وہ چلی گئی ہے۔ تو کان پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور کافی اُداس ہوجاتا ہے۔ثمرین تانیہ سب تم کو یاد کرتے ہیں۔تانیہ تم سے بھابھی کا خطاب دینے پر ناراض ہے اور تم نے ہیپی برتھ ڈے بھی نہیں کہا۔تمہیں پتہ ہے کہ وہ اپنی سالگرہ کو بڑی اہمیت دیتی ہے ،باقاعدہ کیک کاٹا گیا اور ابو  کے ساتھ سالگرہ منائی۔ اچھا تمام لوگوں کو درجہ بدرجہ سلام ودعا۔امی کو بہت بہت سلام کہنا۔بشیراحمد کو  ڈھیرساری دعائیں ۔ابو کی طرف سے سب کو سلام ودعا۔
والسلام تمہاری امی





2 تبصرے:

  1. خوبصورت یادیں ایک خزانہ ہوتی ہیں

    اللہ آپ کی والدہ کے درجات بلند فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. "خوبصورت یادیں ایک خزانہ ہوتی ہیں"
    آپ نے درست کہا۔ بلاگ پر آنے اور ذاتی احساس کو محسوس کرنے کے لیے آپ کی ممنون ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...