مکافاتِ عمل۔۔۔
کاروبارِ حیات میں نفع نقصان کا حساب کتاب کرتے ہم دیکھتے ہیں کہ پکڑ ہمیشہ اُس گناہ کی نہیں ہوتی جو جانے انجانے میں سرزد ہو جائے۔لیکن سزا ملنے پر پہلا خیال اُس زیارتی کی طرف ضرور جاتا ہے جو چاہے برسوں پہلے ماضی کی قبر میں دفنا دی گئی ہو یا حال کے مردہ خانے میں اُس کا بےگوروکفن لاشہ سرِعام تعفن دیتا دکھائی دے اور ابنِ آدم کی کمینگی کی تصویر ہی کیوں نہ بنا ہو۔یہ احساس زیارتی کرنے والے کو نہ بھی ہو لیکن اُن خاموش گواہوں کو ضرور ہوجاتا ہے جو سب جانتے ہوئے سب مانتے ہوئے بھی گواہی دینے کی جئرات نہیں کر پاتے ،اس لیے نہیں کہ بزدل ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہ عزت اور وقت خیرات میں نہیں دیا جا سکتا اور جو یہ ہمت کر بھی لے وہ خود قلاش ہو جاتا ہے۔
کاروبارِ حیات میں نفع نقصان کا حساب کتاب کرتے ہم دیکھتے ہیں کہ پکڑ ہمیشہ اُس گناہ کی نہیں ہوتی جو جانے انجانے میں سرزد ہو جائے۔لیکن سزا ملنے پر پہلا خیال اُس زیارتی کی طرف ضرور جاتا ہے جو چاہے برسوں پہلے ماضی کی قبر میں دفنا دی گئی ہو یا حال کے مردہ خانے میں اُس کا بےگوروکفن لاشہ سرِعام تعفن دیتا دکھائی دے اور ابنِ آدم کی کمینگی کی تصویر ہی کیوں نہ بنا ہو۔یہ احساس زیارتی کرنے والے کو نہ بھی ہو لیکن اُن خاموش گواہوں کو ضرور ہوجاتا ہے جو سب جانتے ہوئے سب مانتے ہوئے بھی گواہی دینے کی جئرات نہیں کر پاتے ،اس لیے نہیں کہ بزدل ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہ عزت اور وقت خیرات میں نہیں دیا جا سکتا اور جو یہ ہمت کر بھی لے وہ خود قلاش ہو جاتا ہے۔
ایسے ہی مکافاتِ عمل کا شکار وہ بچہ بھی ہوا جس نے چند ماہ پہلے ہی مملکتِ پاکستان سے اپنی شناخت کی رسید حاصل کی تھی۔ کہانی سمجھنے کے لیے تقریباً چالیس برس پیچھے جانا ہوگا۔اسلام آباد کا "جی" سیکٹر نیا نیا آباد ہو رہا تھا۔ مکان بنانےاور گھربسانے کے لیے اپنی آبائی علاقوں کو چھوڑ کر لوگ خوشی خوشی نئے شہر کا رُخ کر رہے تھے۔اسلام آباد ملک کے طول وعرض میں رہنے والوں اور مختلف زبانیں بولنے والوں کا ایسا خوش رنگ گلدستہ ہے جس میں سب برابری کی بنیاد پر ایک ہو کررہتے ہیں۔انہی میں ایک خاندان بٹ صاحب کا بھی تھا۔
اس دور میں گنتی کے چند گھر ہی اُس گلی میں آباد تھے سو رہنے والے بہت جلد ایک دوسرے کے قریب آ گئے،بڑے دکھ سکھ کے ساتھی اور بچے بچیاں نہ صرف کھیل کود بلکہ پڑھائی میں بھی ہم قدم۔ بٹ صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا جس کی عمر یہی کوئی سات آٹھ سال ہو گی ،اپنی بھولی بھالی باتوں سے محلے کی رونق تھا۔ ایک روز شام کے وقت ڈھونڈ مچ گئی کہ وہ کہیں کھو گیا ہے۔ وہ بہت شرارتی سا تھا ، سوچا کہ خود ہی کہیں نہ چھپ گیا ہو۔ جانے کس کےجی میں آیا کہ سامنے بننے والے نامکمل گھر کا جائزہ لیا جائے۔ بہت کڑا وقت تھا جب مغرب کے وقت کی دھندلی روشنی میں گھر کے پچھلے صحن میں پانی کی ٹینکی پر نظر پڑی تو اس معصوم کا جسم دکھائی دیا۔یوں محبتوں کی اس چھوٹی سی دنیا میں اجل کا پہلاپتھر گرا۔رفتہ رفتہ گلی میں گھر بننے اور آباد ہونے لگے۔ بچے بڑے ہوتے گئے،اُن کی شادیاں ہوئیں اور بڑے زندگی کاپلیٹ فارم خالی کرتے چلے گئے۔نئے آنے والے بھی بڑوں کی طرح سب کے ساتھ ایک لڑی میں سمٹے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یوں ہوا کہ بٹ صاحب کا گھر تو وہیں رہا لیکن مکین ایک ایک کر کے معاش اور تعلیم کی غرض سے دنیا کے دوسرے ممالک میں رہائش اختیار کرتے گئے۔اتفاق سے اُس گھر میں خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد رہائش پذیر رہا یوں گھر کبھی خالی نہ ہوا اور گھر کی وجہ سے اُن کا تعلق اپنی مٹی اور اپنے لوگوں سے اُسی طرح برقرار رہا۔ محبتیں فاصلوں کی قید سے آزاد ہوتی ہیں بلکہ فاصلے تو محبت کے چراغ کے لیے تیل کا کام دیتے ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ محبت صرف احساس کا نام ہے اور عملی زندگی میں عمل محبت پر بہرحال فوقیت رکھتا ہے۔
برسوں بعد جب گھر بالکل خالی ہوا تو اس کے ایک حصے کو کرایہ پر دینے کے بارے میں سوچا گیا ۔ محض گھر کی حفاظت کے لیے بہت دیکھ بھال کر کرایہ دار رکھے گئے۔لیکن وقت کے ساتھ ہی انسان کے کردار کا پتہ چلتا ہے۔ یوں جب کرایہ داروں نے دیکھا کہ مالک مکان ملک سے باہر رہتے ہیں تو وہ گھر پر قابض ہو گئے۔ شروع میں کرایہ دینے سے انکار کیا اور کہا کہ آپ کو گھر کی ضرورت نہیں آپ ہمیں فروخت کردیں۔رفتہ رفتہ بات عدالت تک اور مکان کی ملکیت کے دعوے تک جا پہنچی۔ ہمارے اندھے قانون کی پیچیدگیوں کہ "قبضہ سچا دعوی جھوٹا" کے مصداق باہر سے آنے والے اپنے ہی گھر میں داخل ہونے سے رہ گئے تو وہ کہاں تک عدالت کی پیشیاں بھگتتے۔ آس پاس کے لوگوں سے صلاح کی کہ وہ ان سے ملیں لیکن کرایہ داروں کے دروازے محلے والوں کو ہمیشہ بند ملتے۔ قابض کرایہ داروں کو صرف گھر کے قبضے سے غرض تھی۔ پرانے لوگ چلے گئے تو نئے آنے والوں میں سے کون مالک مکان کے حق میں گواہیاں دے کر خوار ہوتا۔ خیر باہر سے آنے والے قبضہ مافیا کے ہاتھوں تھک ہار کر واپس چلے گئے۔ چند روز پہلے اچانک سے بٹ صاحب کے گھر کے باہر ایک مجمع لگا دیکھا۔پولیس والے بھی موجود تھے کہ اس گھر کی گاڑی نے ایک شخص کو ٹکر مار دی ہے اور وہ ایمرجنسی میں خاصی تشویش ناک حالت میں ہے ۔ گاڑی کا ڈرائیور تو موقع سے فرار ہو گیا تھا۔کسی نے نمبر نوٹ کرلیا تو لاہور کی رجسٹرڈ گاڑی کی تلاش پولیس کو اُس گھر تک لے آئی۔پتہ چلا کہ گاڑی اس گھر کا وہی اکلوتا بچہ چلا رہا تھا جو ابھی چند ماہ پہلے ہی اٹھارہ سال کا ہوا تھا اور ابھی نئی نئی گاڑی چلانا سیکھی تھی۔اس وقت گھر پر صرف اُس کی ماں تھی وہی ماں جو کبھی دروازہ نہیں کھولتی تھی اور آج اردو ملی انگریزی میں پولیس والوں سے بازپرس کر رہی تھی لیکن وہ نہ ٹلے ،اسی دوران لڑکے کا باپ آگیا ،اس نے بھی بہتیرا کہا کہ مجھے لے جائیں میرے بیٹے کو چھوڑ دیں۔ پرایسا کب ہوا ہے۔ خیر ماں باپ کی دہائیوں اور تماشائی محلے والوں کے سامنے پولیس بچے کو اٹھا لے گئی اور گاڑی بھی قبضے میں کر لی۔۔۔سب سے بڑے انصاف کرنے والے نے فیصلہ سنا دیا۔لیکن شاید رسی دراز تھی یا پھر اس جگ ہنسائی نے اُس خاندان کو زندگی کا نہ بھولنے والا سبق سکھانا تھا کہ گاڑی کی ٹکر سے زخمی ہونے والا بچ گیا اور اُس نے "معاف" بھی کر دیا۔ یوں بچہ اسی رات گھر واپس پہنچ گیا۔ اس ظاہری کہانی کے بعد نہیں جانتے کہ اندرونی طور پر اُن ناجائز قابضین کا دل کیسے پلٹا کہ چند ماہ بعد ہی وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے اور ان کے بعد اس گھر میں بٹ صاحب کی بیٹی کا خاندان آباد ہو گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں