٭ انسانوں سے معاملات کے ضمن میں عمل تربیت کی نشان دہی کرتا ہے اور ردِعمل ظرف کی۔
٭ وردی کوئی بھی ہو عام عوام کے عام لباس سے تو بہتر ہی ہوتی ہے۔بس یہ ہے کہ وردی کی ڈیوٹی سخت اور غلطی کی سزا کبھی تو ناقابلِ معافی۔جبکہ سادہ لباس میں خزانہ ڈکار جاؤ تو جاتے جاتے بھی سیلوٹ۔
٭ ہماری قیمتی چیزیں ہماری زندگی تک ہی قیمتی ہوتی ہیں اور برسوں سینت سینت کر رکھی گئی خا ص چیزیں ایک وقت کے بعد ہمارے لیے بھی بےوقعت ہو جاتی ہیں۔
٭ زبان کا کڑوا کبھی دل کا میٹھا نہیں ہو سکتا۔
٭ گرچہ زبان لٹمس ٹیسٹ ہے ذائقوں کے باب کا لیکن زبان کی کڑواہٹ ہر ذائقے پر سدا حاوی رہتی ہے۔
٭ ہماری سلامتی منہ بند رکھنے میں ہے گرچہ اس کی قیمت چُکاتے چُکاتے زندگی کیوں نہ ختم ہو جائے ۔ پھر بھی یہ گھاٹے کاسودا نہیں۔
٭ جیسے ہر شے کا ایک نقطۂ پگھلاؤ ہے ،اسی طرح ہر احساس کا بھی ایک نقطۂ پگھلاؤ ہوتا ہے۔ انسان اپنی نوعیت کی ایک منفرد تخلیق ہے تو عام یا خاص حالات میں انسانی جذبات کا اس سے بھی بڑھ کر پیچیدہ طرزِعمل سامنے آتا ہے۔ انسان جب برداشت کے نقطۂ انجماد تک پہنچ جاتا ہے تو بسا اوقات وہی اُس کا نقطۂ پگھلاؤ ثابت ہوتا ہے۔
٭زندگی میں ملنے والا ہر شخص محض ایک سبق ہے۔سمجھ جاؤ،یاد کر لو تو زندگی برتنا سہل ہو جاتا ہے ورنہ ناسمجھی کے رٹے لگاتے رہیں اور خسارۂ زندگی بھگتے جائیں ۔
٭ہمارے بہت سے مسائل ہماری زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوتے ہیں۔اپنی زندگی میں اُن کے حل کی توقع بےسود ہے ۔
٭ عزت نہ تو خدمت سے ملتی ہے اور نہ ہی اپنی محنت کی کمائی بنا کسی غرض کے کسی کے حوالے کر کے۔ عزت فقط احساس کا سودا ہے ۔جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ بندوں سے اس کی توقع دُکھ ہی دیتی ہے۔
٭ جو اچھا سوچتے ہیں وہی اچھا بولتے ہیں۔
٭ خوشیاں اور غم اپنے ہی ہوتے ہیں ۔وہ کسی اپنے کے ساتھ کبھی بانٹے نہیں جاسکتے۔
٭ انسان اکیلا آیا ہے اور اُس نے اکیلے ہی جانا ہے لیکن یہ کم بخت دُنیا کہ اِس کے ہر ہر موڑ پر ایک ساتھ چاہیے۔
٭ خوشی یہ ہے کہ آپ سے وابستہ کوئی شخص ناخوش نہ ہو۔
٭خوشی اور سکون دو الگ الگ احساسات ہیں تو ان کے معیار بھی جدا ٹھہرے۔خوشی کسی بھی چیز سے مل سکتی ہے تو سکون صرف احساس سے۔
٭ ہم محبت اورعزت کے توازن کی آس میں جیتے ہیں۔یہ تو کہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ایک شے اِن سے بھی بڑھ کر ضروری ہے اور وہ ہے ہمدردی۔ہمدردی وہ کم یاب احساس جو کبھی تو ہمیں بھی اپنے آپ سے اپنے لیے نہیں ملتا۔
٭ہم صرف وہی باتیں بھولتے ہیں جنہیں ہم یاد رکھنا نہیں چاہتے۔
٭کون کہتا ہے کہ وقت کے ساتھ اور عمر کے بڑھنے سے ہی انسان کی سوچ پختہ یعنی میچور ہوتی ہے؟؟؟ ایسا کبھی بھی نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں صرف اپنے فرسودہ اور ہٹ دھرم اعتقادات پر رہنے والے ہمیشہ سوچ کی اولین چمک کی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔
٭ موت مہلت نہیں دیتی اور زندگی فرصت نہیں ۔
٭ ہائی پروفائل ہوتے ہوئے لوپروفائل رہنے میں ہی عافیت پوشیدہ ہے۔
٭ زندگی کا اصول کہہ لیں یا اُتارچڑھاؤ کہ بیج کوئی بوتا ہے اور پھل کوئی اور کھاتا ہے۔ مکان کوئی بناتا ہے اور آباد کوئی اور کرتا ہے۔۔ ہمیں تو بس زندگی کی دیہاڑی میں اپنے حصے کی مزدوری کرنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ خوش قسمت کون اور بدقسمت کون ہم یہ فیصلہ کبھی بھی نہیں کر سکتے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں