جمعہ, اگست 09, 2024

"سنو"

سنو  !جب کسی مقام پر پہنچ جاؤ تو  شور نہ مچایا کرو ،اعلان نہ کرتے پھرو،نقارے نہ بجاؤ۔،خاموشی سے بیٹھ رہو۔ تھوڑا سستا لو اور اسے محسوس کرو۔جان لو کہ یہ فتح یہ سرشاری  بس ذرا دیر    کی تو بات ہے پھر تو واپس ہونا ہی ہے۔   

بلندیوں پر قدم جماتے سمے مہربان ساتھیوں کے سنگ گر  بدلتے منظروں کی سرخوشی تھی تو اب اُترائی کے سفر میں نظارے تو وہی ہیں لیکن نظر کا زاویہ کہیں اور ہے۔زندگی کے سفر میں یہ چڑھائی اُترائی کا کھیل بھی عجیب ہے۔جاتے ہوئے کسی کمزور سی شاخ کا  بس ذرا سا سہارا  درکار ہوتا ہے اور قدم خودہی  آگے  بڑھتے  چلے جاتے ہیں  جبکہ واپسی میں اپنے ہر قدم پر نگاہ جمانا پڑتی ہے  وگر نہ دکھائی دینے والے سہارے منہ کے بل گرانے کو کافی  ہوتے ہیں۔ آغازِسفر نئی کہانی کی شروعات  ہوا کرتا ہےجس میں میں ہم نوا  اور رہبر  ملتے ہیں تو واپسی کا سفر صرف اور صرف  اپنے وجدان کے ساتھ  طے کرنا ہوتا ہے۔جاتے ہوئے اگر کمر پر لاد  ے ضرورتوں اور خواہشوں کے بوجھ قدم شل کرتے تھے تو  واپسی  میں ایسی کسی بھی ضرورت سے بےنیاز ہو کر  فقط اپنے قدموں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت  اہم رہ جاتی ہے۔ واپسی کا سفر ہمیشہ اُداس کرتا ہے کہ  اب کہانی کا خاتمہ ہے۔دعا بس یہ ہونی چاہیے کہ عزت کی زندگی کا اختتام بھی عزت سے ہی ہو۔ کہانی خواہ ناول کی ہو یا زندگی کی اس کا اختتام ہی اس کی کامیابی کا تعین کرتا ہے۔ بےشک ہماری زندگی کہانی  حرف بہ حرف رب کی طرف سے طے کردہ ہے لیکن یہ بھی حق ہے کہ اللہ نہ کرے اُس نے لکھا  ہو  کہ ہم نے آخر میں خود ہی اپنی زندگی کمائی  لُٹاناہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

" بیالیس برس بعد "

"  پہلے رابطے سے پہلی ملاقات تک"  کل ہم نے ملنا ہے اور ان شااللہ ضرور ملنا ہے۔ کل بارش بھی ہے شاید۔ تین  دن  پہلے  بات ہوئی لیکن گ...