جسے بےخبری کی زندگی عطا نہیں ہوئی اُسے بےخبری کی موت کیونکر آ سکتی ہے۔
دنیا ایک جہانِ حیرت ہے جس میں آنکھ کھولنے کے بعد زندگی ہرآن نئی سج دھج سے سامنے آتی ہے۔۔۔کبھی عرش کی سیر کراتی ہے تو کبھی پاتال میں دھکیل دیتی ہے۔کبھی اجنبی زبان میں باتیں کرتی ہے تو کبھی ان کہی بھی سن لیتی ہے۔ غرض کہ آخری سانس تک بہروپ بدل بدل کر ملتی ہے۔لیکن یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اندر کی آنکھ کھل جائے تو آگے کی منزلوں کا کھوج انسان کو نئے جہانوں کے سفر پر لے جاتا ہے۔یہ سفر کہانی زندگی کہانی کے ساتھ پل پل رنگ بدلتی رہتی ہے۔انسان ایک محدود عمر میں لامحدود زندگی کے تجربات تک رسائی چاہتا ہے۔اللہ کے کرم اور اس کی عطا سے بہت کم کسی کو اپنے احساس کے بیان کے لیے لفظ کی نعمت عطا ہوتی ہے۔اُس میں سے بہت کم اس نعمت کو زندگی کے ہر ہر موڑ پر یوں ساتھ رکھتے ہیں کہ ساتھ چلنے والا اِس کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرتا چلا جاتا ہے۔
سال 2015جون کے مہینے میں جناب مستنصر حسین تارڑ کے آفیشل فیس بُک پیج سے اچانک اُن کی سرجری کی خبر سامنے آئی اور اس کے بعد سب پڑھنے والے جہاں اُن کے لیے دعاگو رہے وہیں اس عرصے میں اُن کے شائع ہونے والے اخباری کالمز بھی خاص توجہ کا مرکز رہے کہ یہ کالمز جہاں جناب تارڑ کی تازہ ترین سوچ کے ترجمان تھے تو وہیں اُن کی جسمانی اور ذہنی صحت کی بحالی اور تازگی کے عکاس بھی تھے۔
اگست 2015 کی تصویر۔۔۔
دنیا ایک جہانِ حیرت ہے جس میں آنکھ کھولنے کے بعد زندگی ہرآن نئی سج دھج سے سامنے آتی ہے۔۔۔کبھی عرش کی سیر کراتی ہے تو کبھی پاتال میں دھکیل دیتی ہے۔کبھی اجنبی زبان میں باتیں کرتی ہے تو کبھی ان کہی بھی سن لیتی ہے۔ غرض کہ آخری سانس تک بہروپ بدل بدل کر ملتی ہے۔لیکن یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اندر کی آنکھ کھل جائے تو آگے کی منزلوں کا کھوج انسان کو نئے جہانوں کے سفر پر لے جاتا ہے۔یہ سفر کہانی زندگی کہانی کے ساتھ پل پل رنگ بدلتی رہتی ہے۔انسان ایک محدود عمر میں لامحدود زندگی کے تجربات تک رسائی چاہتا ہے۔اللہ کے کرم اور اس کی عطا سے بہت کم کسی کو اپنے احساس کے بیان کے لیے لفظ کی نعمت عطا ہوتی ہے۔اُس میں سے بہت کم اس نعمت کو زندگی کے ہر ہر موڑ پر یوں ساتھ رکھتے ہیں کہ ساتھ چلنے والا اِس کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرتا چلا جاتا ہے۔
سال 2015جون کے مہینے میں جناب مستنصر حسین تارڑ کے آفیشل فیس بُک پیج سے اچانک اُن کی سرجری کی خبر سامنے آئی اور اس کے بعد سب پڑھنے والے جہاں اُن کے لیے دعاگو رہے وہیں اس عرصے میں اُن کے شائع ہونے والے اخباری کالمز بھی خاص توجہ کا مرکز رہے کہ یہ کالمز جہاں جناب تارڑ کی تازہ ترین سوچ کے ترجمان تھے تو وہیں اُن کی جسمانی اور ذہنی صحت کی بحالی اور تازگی کے عکاس بھی تھے۔
اگست 2015 کی تصویر۔۔۔
اسی دوران شائع ہونے والے جناب مستنصر حسین تارڑ کے چند کالم۔۔۔ اور اُن میں سےکچھ اقتباسات۔۔مکمل تحریر کے لیےکالم لنک پر کلک کریں۔
جون میں آنے والے دو کالم
٭من مور ہوا متوالا۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ 14/06/2015
’’مور کہاں ہے؟‘‘
’’اِدھر سائیں۔۔۔ ادھر چلے آؤ۔۔۔‘‘
ان مندروں کے پچھواڑے میں وہی صحرائی شجر، پژمردہ جنگلی جھاڑیاں اور سروٹوں کے انبار تھے اور مور تھے۔
واقعی وہاں مور ہی مور تھے۔۔۔ اتنے بے شمار کہ ہم تو موروں کی ایک سلطنت میں آنکلے تھے، راجہ بھی مور اور پرجا بھی مور۔۔۔ چونکہ ادھر کم لوگوں کاآنا ہوتا تھا تو وہ بے فکر اورنڈر مور تھے۔۔۔
سروٹوں کے سائے میں ریت پر آرام کرتے۔۔۔ صحرائی گھاس میں سے ظاہر ہوتے۔۔۔ دھوپ میں ٹہلتے ہوئے، چھدرے درختوں کی سوکھی ہوئی ڈالیوں پر براجمان مور۔۔۔
وہ اتراتے پھرتے تھے۔۔۔
اس ریتلے فسوں میں ٹہلتے پھرتے تھے۔
کبھی کوئی ایک مور کسی ڈالی پر براجمان پھڑپھڑاتا اور ایک طویل اڑان کے بعد کسی اور شجر کی ڈالی پر جا براجمان ہوتا۔
میں جو فریدالدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘کا مرید ہوں تو اس لمحے مجھے عطار سے کچھ گِلہ بھی ہوا کہ اس نے سچ کی تلاش میں اڑانیں کرنے والے دنیا بھر کے پرندے شمار کئے پران میں مورنہ تھے، شاید اس لئے کہ یہ ایران کے باسی نہ تھے۔۔۔ صرف ہندوستان کے باشندے تھے۔
اور یہاں کاسبو کے تھری قصبے سے بھی دور صحرا میں جب میں نے اتنے موردیکھے تو مجھے اونچے درختوں والی، گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والی بے مثال مغنیہ ثریّا یاد آنے لگی۔
ثریّا نے جہاں گائیکی میں اوج ثریا کو چھو لیا تھا اور بے شمار لازوال گیت گائے تھے جن میں میری پسندیدہ نعت ’’بیچ بھنبور میں آن پھنسا ہے دل کا سفینہ شاہِ مدینہ‘‘ بھی شامل ہے وہاں اس نے ایک ایسا گیت بھی گایا تھا جو بہت معروف نہ ہوا لیکن وہ اکثر شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے میرے بدن میں رقص کرتا رہا۔۔۔
من مور ہوا متوالا رے۔۔۔ یہ کس نے جادو ڈالا رے۔۔۔
یہاں صحرائے تھر کے ایک قدیم مندر کے احاطے میں جھاڑیوں، سروٹوں، درختوں اور ریت پر نکلتے، اتراتے، پوشیدہ، ظاہر ہوتے، کبھی اس ڈال پر کبھی اس ڈال پر جا بیٹھتے تھے جتنے مورتھے، یہ وہی من کے مور تھے جو مجھ پرجادو ڈالتے تھے۔
جس کو دیکھا، خمار میں دیکھا
یہ معجزہ بہار میں دیکھا
تو میں نے بھی ایک معجزہ صحرائے تھر کے ایک قدیم مندر میں دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭من مور ہوا متوالا۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ 17/06/2015
ہمیں بہرطور موروں کی یہ دنیا چھوڑ جانا تھی۔
اور ہم اگرچہ اُس جدائی سے بہت دل گرفتہ ہوئے پر ہم رنگے جا چکے تھے۔
گویا یہ موروں کی دیوالی تھی جس میں ہم نے شرکت کی تھی اور اُنہوں نے ہم پر رنگوں کی پچکاریاں پھینکی تھیں تو ہم رنگے جا چکے تھے۔
ہم واپس ہو رہے تھے۔
کاسبو کے ریتلے راستوں پر ہماری پراڈو کے ٹائروں کے نشان نقش ہوتے جا رہے تھے اور میں دکھی ہو رہا تھا کہ ہم رُک نہ سکتے تھے۔۔۔ میں کچھ دیر کاسبو کی ریت کی گلیوں میں بھٹکنا چاہتا تھا، اور مجھے شام ہو جائے۔۔۔وہ مہتاب جو پچھلی شب تھر کے صحرا کے اندر ہمارے بدنوں پر ابھرا تھا اُس نے آج کی شب بھی تو انہی ریتلی گلیوں میں جھلکنا تھا۔۔۔ ان خاردار جھاڑیوں کی ریت کی گلیوں میں مجھے شام ہو جائے اور اگر فیض صاحب میرے ہمراہ ہوتے۔۔۔ اُن دو شبوں کی مانند جب وہ صبح کی اذانوں تک ہمارے رفیق رہے اور ہماری فرمائش پر اپنے شعر سناتے رہے اور جب کبھی میں اُنہیں کوئی ذاتی نوعیت کا سوال پوچھتا تو وہ کہتے ’’بھئی تارڑ، رہنے دیں‘‘ ۔ تو اگر فیض اس شب کاسبو کی ریتلی گلیوں میں میرے ہمراہ ہوتے اور مہتاب ابھرتا تو انہوں نے تو کہنا تھا کہ
آج تنہائی کسی ہمدم دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے میری ساقی گری شام ڈھلے
منتظر ہیں ہم دونوں کہ مہتاب اُبھرے
اور جھلکنے لگے تیرا عکس ہر سائے تلے
دن کی تلخ دھوپ میں ہم خوابوں، سرابوں اور خیالوں میں سے نکل آئے، کاسبو میں سے نکل آئے۔
دھوپ میں ہمارے سب موروں کی دیوالی کے رنگ نچڑ گئے۔۔۔ ہم پھیکے پڑ گئے۔۔۔ ہمیں اُن سے بچھڑنا تھا سو بچھڑ گئے کہ ہم نے آج بہت دور جانا تھا۔۔۔ ہم نے جھیل کینجھر کے کنارے آج کی شب گزارنی تھی۔۔۔ آج ہمارے سندھ کے سفر کا اختتام ہونا تھا۔
سندھ کا صحرائی خواب گمشد۔۔۔ سفر تمام شد!۔
۔۔۔۔۔ اس کالم پر میرا احساس۔۔۔فیس بک پیج سے۔۔۔۔
۔( فیس بک پیج سے۔۔۔جناب تارڑ کی یہ تحریر جو سندھ سفر کی آخری کڑی ہے۔ اس کو دل کی آنکھ سےمحسوس کیا تو آنکھ کی نمی نے مہر ثبت کی۔۔اس تحریر کا لفظ لفظ اگر دل کے صحرا میں رنگوں کی برسات کرتا ہے تو ہر سطر میں اداسی کی پھیلتی دھند صاحب تحریر کے قلم کی عظمت کو سلام کرتی ہے۔یوں لگتا ہے کہ کمرہ نمبر 304 میں تکیوں سے ٹیک لگائے انہوں نے اس سفر کا احوال قلمبند کیا جس کی مسافت محض چند سو میل تو تھی پر جس کو طے کرنے کے لیے نگری نگری پھرنا پڑا۔ریتلے میدانوں کا یہ سفر جناب تارڑ کے لیے زندگی کا ایک خاص موڑ ضرور ہو گا۔اللہ پاک ان کو ذہنی اور جسمانی صحت والی زندگی عطا فرمائے آمین۔۔ نورین تبسم)۔
٭من مور ہوا متوالا۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ 14/06/2015
’’مور کہاں ہے؟‘‘
’’اِدھر سائیں۔۔۔ ادھر چلے آؤ۔۔۔‘‘
ان مندروں کے پچھواڑے میں وہی صحرائی شجر، پژمردہ جنگلی جھاڑیاں اور سروٹوں کے انبار تھے اور مور تھے۔
واقعی وہاں مور ہی مور تھے۔۔۔ اتنے بے شمار کہ ہم تو موروں کی ایک سلطنت میں آنکلے تھے، راجہ بھی مور اور پرجا بھی مور۔۔۔ چونکہ ادھر کم لوگوں کاآنا ہوتا تھا تو وہ بے فکر اورنڈر مور تھے۔۔۔
سروٹوں کے سائے میں ریت پر آرام کرتے۔۔۔ صحرائی گھاس میں سے ظاہر ہوتے۔۔۔ دھوپ میں ٹہلتے ہوئے، چھدرے درختوں کی سوکھی ہوئی ڈالیوں پر براجمان مور۔۔۔
وہ اتراتے پھرتے تھے۔۔۔
اس ریتلے فسوں میں ٹہلتے پھرتے تھے۔
کبھی کوئی ایک مور کسی ڈالی پر براجمان پھڑپھڑاتا اور ایک طویل اڑان کے بعد کسی اور شجر کی ڈالی پر جا براجمان ہوتا۔
میں جو فریدالدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘کا مرید ہوں تو اس لمحے مجھے عطار سے کچھ گِلہ بھی ہوا کہ اس نے سچ کی تلاش میں اڑانیں کرنے والے دنیا بھر کے پرندے شمار کئے پران میں مورنہ تھے، شاید اس لئے کہ یہ ایران کے باسی نہ تھے۔۔۔ صرف ہندوستان کے باشندے تھے۔
اور یہاں کاسبو کے تھری قصبے سے بھی دور صحرا میں جب میں نے اتنے موردیکھے تو مجھے اونچے درختوں والی، گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والی بے مثال مغنیہ ثریّا یاد آنے لگی۔
ثریّا نے جہاں گائیکی میں اوج ثریا کو چھو لیا تھا اور بے شمار لازوال گیت گائے تھے جن میں میری پسندیدہ نعت ’’بیچ بھنبور میں آن پھنسا ہے دل کا سفینہ شاہِ مدینہ‘‘ بھی شامل ہے وہاں اس نے ایک ایسا گیت بھی گایا تھا جو بہت معروف نہ ہوا لیکن وہ اکثر شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے میرے بدن میں رقص کرتا رہا۔۔۔
من مور ہوا متوالا رے۔۔۔ یہ کس نے جادو ڈالا رے۔۔۔
یہاں صحرائے تھر کے ایک قدیم مندر کے احاطے میں جھاڑیوں، سروٹوں، درختوں اور ریت پر نکلتے، اتراتے، پوشیدہ، ظاہر ہوتے، کبھی اس ڈال پر کبھی اس ڈال پر جا بیٹھتے تھے جتنے مورتھے، یہ وہی من کے مور تھے جو مجھ پرجادو ڈالتے تھے۔
جس کو دیکھا، خمار میں دیکھا
یہ معجزہ بہار میں دیکھا
تو میں نے بھی ایک معجزہ صحرائے تھر کے ایک قدیم مندر میں دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭من مور ہوا متوالا۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ 17/06/2015
ہمیں بہرطور موروں کی یہ دنیا چھوڑ جانا تھی۔
اور ہم اگرچہ اُس جدائی سے بہت دل گرفتہ ہوئے پر ہم رنگے جا چکے تھے۔
گویا یہ موروں کی دیوالی تھی جس میں ہم نے شرکت کی تھی اور اُنہوں نے ہم پر رنگوں کی پچکاریاں پھینکی تھیں تو ہم رنگے جا چکے تھے۔
ہم واپس ہو رہے تھے۔
کاسبو کے ریتلے راستوں پر ہماری پراڈو کے ٹائروں کے نشان نقش ہوتے جا رہے تھے اور میں دکھی ہو رہا تھا کہ ہم رُک نہ سکتے تھے۔۔۔ میں کچھ دیر کاسبو کی ریت کی گلیوں میں بھٹکنا چاہتا تھا، اور مجھے شام ہو جائے۔۔۔وہ مہتاب جو پچھلی شب تھر کے صحرا کے اندر ہمارے بدنوں پر ابھرا تھا اُس نے آج کی شب بھی تو انہی ریتلی گلیوں میں جھلکنا تھا۔۔۔ ان خاردار جھاڑیوں کی ریت کی گلیوں میں مجھے شام ہو جائے اور اگر فیض صاحب میرے ہمراہ ہوتے۔۔۔ اُن دو شبوں کی مانند جب وہ صبح کی اذانوں تک ہمارے رفیق رہے اور ہماری فرمائش پر اپنے شعر سناتے رہے اور جب کبھی میں اُنہیں کوئی ذاتی نوعیت کا سوال پوچھتا تو وہ کہتے ’’بھئی تارڑ، رہنے دیں‘‘ ۔ تو اگر فیض اس شب کاسبو کی ریتلی گلیوں میں میرے ہمراہ ہوتے اور مہتاب ابھرتا تو انہوں نے تو کہنا تھا کہ
آج تنہائی کسی ہمدم دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے میری ساقی گری شام ڈھلے
منتظر ہیں ہم دونوں کہ مہتاب اُبھرے
اور جھلکنے لگے تیرا عکس ہر سائے تلے
دن کی تلخ دھوپ میں ہم خوابوں، سرابوں اور خیالوں میں سے نکل آئے، کاسبو میں سے نکل آئے۔
دھوپ میں ہمارے سب موروں کی دیوالی کے رنگ نچڑ گئے۔۔۔ ہم پھیکے پڑ گئے۔۔۔ ہمیں اُن سے بچھڑنا تھا سو بچھڑ گئے کہ ہم نے آج بہت دور جانا تھا۔۔۔ ہم نے جھیل کینجھر کے کنارے آج کی شب گزارنی تھی۔۔۔ آج ہمارے سندھ کے سفر کا اختتام ہونا تھا۔
سندھ کا صحرائی خواب گمشد۔۔۔ سفر تمام شد!۔
۔۔۔۔۔ اس کالم پر میرا احساس۔۔۔فیس بک پیج سے۔۔۔۔
۔( فیس بک پیج سے۔۔۔جناب تارڑ کی یہ تحریر جو سندھ سفر کی آخری کڑی ہے۔ اس کو دل کی آنکھ سےمحسوس کیا تو آنکھ کی نمی نے مہر ثبت کی۔۔اس تحریر کا لفظ لفظ اگر دل کے صحرا میں رنگوں کی برسات کرتا ہے تو ہر سطر میں اداسی کی پھیلتی دھند صاحب تحریر کے قلم کی عظمت کو سلام کرتی ہے۔یوں لگتا ہے کہ کمرہ نمبر 304 میں تکیوں سے ٹیک لگائے انہوں نے اس سفر کا احوال قلمبند کیا جس کی مسافت محض چند سو میل تو تھی پر جس کو طے کرنے کے لیے نگری نگری پھرنا پڑا۔ریتلے میدانوں کا یہ سفر جناب تارڑ کے لیے زندگی کا ایک خاص موڑ ضرور ہو گا۔اللہ پاک ان کو ذہنی اور جسمانی صحت والی زندگی عطا فرمائے آمین۔۔ نورین تبسم)۔
اگست 2015 کے کالم ۔۔۔
موت کی ٹیلی فون بک ۔۔مستنصر حسین تارڑ
Posted Date : 02/08/2015......
مجھے اب اپنی بوسیدہ ہو چکی سیاہ جلد کی’ٹیلی فون اینڈ ایڈریس بک‘‘ سے خوف آنے لگا ہے۔اس کے ہر صفحے پر قبریں اُبھرنے لگی ہیں۔۔۔ یہ آج سے دس برس پیشتر کم کم تھیں پر اب ان کی تعداد اتنی بڑھنے لگی ہے کہ وہ زندوں کی نسبت تعداد میں زیادہ ہونے لگی ہیں۔ پہلے پہل تو یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی عزیز، شناسا، کوئی ادیب رخصت ہوتا تھا تو میں دل پر جبر کر کے اس کے نام اور فون نمبرپر سرخ مارکر سے ایک لکیر پھیر دیتا تھا لیکن جب میں نے دیکھا کہ ٹیلی فون بک کے ہر صفحے پر سرخ لیکروں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے اور جب کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو نگاہ صرف سرخ لکیروں، تنسیخ شدہ فون نمبروں پر ہی جاتی ہے اور احساس ہوتا ہے کہ یہ سب لوگ مر چکے ہیں تو میں نے یہ منسوخ کرنے کا طریقہ ترک کر دیا۔۔۔ کیونکہ ہر سرخ مارکر سے منسوخ کیا گیا نام اور فون نمبر یکدم اپنی پوری حیات کے ساتھ میرے سامنے آجاتا تھا کہ اچھا۔۔۔ کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا۔۔۔ اور اب ہمارے نام کو سرخ مارکر سے مٹا چکے ہو۔۔۔ کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا۔
۔"مجھے اپنی بوسیدہ ہو چکی سیاہ جلد کی ’ٹیلی فون اینڈ ایڈریس بک‘‘سے خوف آنے لگا ہے۔۔۔ عبداللہ حسین ابھی اس کالم میں زندہ تھا اور ابھی وہ بھی مر گیا ہے۔۔۔ اب مجھ سے اس کا نام تو نہیں کاٹا جاتا ۔اس پر موت کی سیاہی پھیر کر کیسے منسوخ کر دوں؟"۔
فرسٹ آف آل، تھینکس ٹو اللہ ۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ
Posted Date : 09/08/2015
آج سے کوئی چار ماہ پیشتر ایک شب مجھ پر اِک عجب ساعت آئی جس میں مجھے ایک دستک سنائی دی، موہوم سی دستک، وہ ایک واہمہ تھا یا ایک حقیقت یہ طے کرنا ممکن نہ تھا لیکن بہرطور اُس دستک میں ایک بلاوا تھا۔۔۔ ایک ایسا بلاوا جو ہر ذی روح کو بہرطور آنا ہے۔۔۔ اور خاص طور پر ایک چھہتر برس کے شخص کو تو آج نہیں تو کل آنا ہی ہے۔۔۔ میں نہ ہراساں ہوا اور نہ ہی دل گرفتہ، مجھے اور کچھ نہ سوجھا اور میں نے اُس عجب ساعت کے محسوسات کو ایک نثری نظم کی ہیئت میں کاغذ پر درج کر دیا۔۔۔
مت دستک دے۔۔۔
میرے چہرے کو سرسوں کا کھیت نہ کر۔۔۔
میری بجھتی آنکھوں کو یوں نیم وا نہ کر۔۔۔ کہ وہ بند نہ ہوں۔
تاآنکہ کوئی ہتھیلی اُن پر بچھ کر اُنہیں ہمیشہ کے لئے بند نہ کر دے۔
موت، منتظر موت، ابھی ایسا نہ کر۔۔۔
اتنی بے صبر تو نہ ہو۔۔۔
مت دستک دے میرے بدن کے سالخوردہ کواڑوں پر۔۔۔
یہ کواڑ تیرے ایک لمس سے بُھر سکتے ہیں۔۔۔
خاک نشیں ہو سکتے ہیں۔۔۔
قضأ کچھ تو توقّف کر لے۔۔۔
ذرا سی مہلت دے کہ میں نے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔۔۔
جو میری غفلت سے ادھورے پڑے ہیں۔۔۔
مت دستک دے۔۔۔
یہ اُس طویل نظم کا ابتدائیہ ہے۔۔۔ اور میں نہیں جانتا تھا کہ صرف دو ماہ بعد یکدم یہ قضأ کی دستک حقیقت کا روپ اختیار کر جائے گی اور میں زندگی اور موت کے ایک ایسے تجربے سے گزروں گا جسے میں بیان نہیں کر سکتا۔۔۔ مجھے یاد ہے جب کبھی کرکٹ کے شاندار کھلاڑی انضمام الحق کو مائیک پر بلایا جاتا تھا تو وہ ہمیشہ کہتا تھا۔۔۔ فرسٹ آف آل تھینکس ٹو اللہ۔۔۔ اور ہم اُس کے اس انگریزی اظہار کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن آج، دو ہفتے سے زائد ایک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈوں اور کمروں میں طویل آپریشنوں کے بعد جب کہ وہ دستک کبھی کانوں کو بہرا کرنے لگتی تھی اور کبھی مدھم پڑ جاتی تھی، اور اب میں واپس اپنے گھر میں زندگی کی جانب لوٹ رہا ہوں۔ میرے پاس سب سے اوّل اور دل کی اتھاہ گہرائیوں میں سے پکارنے والا ایک ہی اظہار ہے۔۔۔ فرسٹ آف آل تھینکس ٹو اللہ۔
۔۔۔۔۔۔
عجیب قوم ہے۔مستنصر حسین تارڑ
Posted Date : 12/08/2015
ہربرس چودہ اگست کا دن مجھے ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کرتا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ جس پاکستان کے پاکیزہ وجود کو گِدھ نوچتے چلے جا رہے ہیں، اس کے خون کے چھینٹوں سے یورپ اور امریکہ میں جائیدادیں دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں، سپین اور فرانس میں وسیع کاروبار قائم کر رہے ہیں۔۔۔جہاں دہشت گردی راج کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔
وزیٹنگ کارڈ گیلری۔مستنصر حسین تارڑ
Posted Date : 16/08/2015
ہر دو چار ماہ بعد جیسے باغبان پودوں اور درختوں سے سوکھی ہوئی ٹہنیاں کاٹ ڈالتے ہیں، غیر ضروری شاخوں کی قطع برید کرتے ہیں تا کہ ان کی جگہ نئی کونپلیں پھوٹیں تو کچھ اسی طور میں بھی اپنی سٹڈی میں ڈھیر کتابوں اور رسائل کی چھانٹی کرتا ہوں۔۔۔ اور اس کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے یہ کتاب پڑھ رکھی ہے تو کیا یہ اس لائق ہے کہ اسے سنبھال لیا جائے اور کبھی دوبارہ پڑھی جائے۔۔۔ اور کیا یہ کتاب ایسی ہے کہ میں آئندہ اسے پڑھوں گا، اگر نہیں تومیری مختصر سٹڈی میں گنجائش کم ہے تو اسے فارغ کر دیا جائے۔۔۔ اکثر میں ایسی کتابیں اور رسائل معذوروں کے ایک ادارے کو بھجوا دیتا ہوں جو انہیں فروخت کر کے کچھ رقم کما لیتا ہے۔ اس طور میں اپنی پرانی فائلوں، نوٹس اور مسودوں کی بھی چھانٹی کرتا رہتا ہوں۔۔۔ اس سلسلے میں سب سے اداس کر دینے والا کام، دل کو دکھ دینے والا کام، ان پرانے وزٹنگ کارڈز کی چھانٹی کرنا ہے جو محفلوں میں، پارک میں یا کسی دعوت میں لوگ مجھے عطا کر جاتے ہیں اور میں انہیں سنبھال لیتا ہوں لیکن جب ایک طویل عرصے کے بعد میں میز پر پھیلا کر ان کی کارڈ گردانی کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جنہیں میں کبھی جانتا تھا، ان سے ملاقات بھی رہتی تھی اور آج مجھے کچھ یاد نہیں کہ وہ کون تھے۔۔۔ حیات کے تمام پیشوں سے منسلک لوگ، آرٹسٹ، انجینئر، ڈاکٹر، بیورو کریٹ، جنرل اور صنعت کارلوگ، کچھ یاد نہیں کہ کون تھے۔۔۔ پچھلے دنوں ان وزٹنگ کارڈز کی چھان بین کر کے انہیں تلف کرنے کے دوران کچھ دلچسپ اور حیرت بھری کہانیاں وجود میں آئیں۔۔۔
وزٹنگ کارڈ گیلری۔۔ مستنصر حسین تارڑ
19/08/2015
مجھے ابھی احساس ہوا کہ ابھی تو سینکڑوں کارڈ ہیں، ان سب کا تفصیلی تذکرہ محال ہے بلکہ ابھی ابھی میرے ذہن میں خیال کی آتش میں سے ایک چنگاری بھڑکی ہے کہ ۔۔۔ اول تو میں اپنی خودنوشت لکھوں گا نہیں کہ میرے سب سفرنامے میری حیات کا سفر ہیں اور بقیہ تجربات اور مشاہدات اور کردار سب کے سب ناولوں میں کاشت کردیئے گئے تو باقی کیا بچا ہے۔ تو جو کچھ میں لکھنا چاہتا ہوں وہ بوجوہ لکھ نہیں سکتا تو اگر کبھی میں نے اپنی خودنوشت لکھی تو اس کا نام ’’وزٹنگ کارڈ‘‘ ہوگا۔ میں ان ملاقاتی کارڈوں کے حوالے سے ان لوگوں کا تفصیلی تذکرہ کروں گا جن سے اس حیات میں ملاقاتیں ہوئیں، بہت سے بھول گئے، کچھ یاد رہ گئے۔ ادھیڑ عمر فربہ نتالیہ پریگارنیا ۔۔۔ جس نے روسی زبان میں غالب کی شاعری پر ایک بڑی کتاب لکھی۔۔۔ جب مجھے 2003ء میں دوہا قطر کا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملا تھا تو نتالیہ کو اہم ترین تنقید نگار کے طور پر نوازا گیا تھا۔اشوک واجپائی، ازابیل شاء، صدر الدین ہاشوانی، پران نول، جاپانی یامانے، دوبئی کا شہزادہ سُمیل زراوی۔۔۔ سب کے ساتھ ملاقاتوں اور قربتوں کا حال اس مختصر تحریر میں کیسے سما سکتا ہوں
۔۔۔۔۔
جناب تارڑ کی کتابوں سے" موت" کے رومانس کی کچھ جھلکیاں۔۔۔
سنو لیک ۔۔۔صفحہ 390
ہسپر گلیشئیر۔۔۔"موت اگر یہاں نہیں آئی تو پھر کبھی نہیں آئے گی۔۔۔موت کے بعد مرنے کا منظر۔۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔
یاک سرائے۔۔۔ صفحہ 207 تا 2017
"سیاہ پوش سے ملاقات"
اس کی یکلخت موجودگی نے مجھے آزردہ کردیا۰۰۰۰فنا کیوں تعاقب کرتی ہے۔وہ جانتی ہے کہ وہی آخری بازی جیتے گی۔وہی مات دے گی تو اس کے باوجود ٱن لمحوں میں کیوں اپنا آپ دکھاتی ہے جب انسان فنا سے ماورا ہونا چاہتا ہے۔یہ تو دھوکا دہی ہے۔فریب ہے۔میں نے ٱسے سخت ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا " یہاں ۔۔اِس پرُامن علاقے میں،جھیل کرومبر کے ےکناروں کے آس پاس دریائے شین پر معلق کوئی پتھریلی شاخوں والی گیلری نہیں ہے ۔۔۔ورگوتھ کے وہ نالے نہیں ہے جن کے منہ سےجھاگ نکلتی ہے ۔ کوئی عمودی چٹان یا واخانی نالہ نہیں ہے تو تم۔۔۔تم یہاں کیا کرنے آئے ہو۔۔۔یہاں تو جھیل کنارے ایک ہمدرد اور محفوظ راستہ ہے۔مارموٹ سیٹیاں بجاتے ہیں۔تو تم یہاں کیا کرنے آئے ہو ؟"
"میں یہاں اس لیے آیا ہوں اگرچہ مجھے کسی بھی مقام پر پائے جانے کے لیے کسی جوازکی ضرورت نہیں لیکن میں یہاں خاص طور پر اس لیے آیا ہوں کہ تم اپنی مکمل تنہائی کی آزردہ خوشی میں اس منظر سے مکمل مسرت حاصل کرسکو"
"تم یقیناً مزاق کررہے ہو۔۔۔موت کی موجودگی کسی منظر میں سے مسرت حاصل کرنے کا سبب کیسے بن سکتی ہے؟"
"تم بھولتے ہو۔میں صرف موت نہیں محبت بھی ہوں۔۔۔اور دنیا کے کسی بھی نادیدہ اور دشوار ترین راستوں سے گزر کر سامنے آنے والے منظر میں جو مسرت پنہاں ہوتی ہے وہ صرف اور صرف فنا کے احساس سے جنم لیتی ہے۔اگر تمہیں حیاتِ جاودانی کا یقین ہو۔قبر کی قربت سے ماورا ہوجاؤ تو کُل کائنات تمہارے لیے بےمعنی ہوجائے۔۔۔دنیا کے سب سے دل میں اُلفت اور کشش بھر دینے والے منظر اور چہرے تمارے لیے بےحقیقت ہوجائیں کیونکہ۔۔۔تم اُنہیں کسی اور وقت کسی زمانے میں بھی دیکھ سکتے ہو۔۔کیونکہ وہ بھی ہمیشہ موجود رہیں گے اور تم بھی۔۔لیکن جب تم جانتے ہو کہ اگلے لمحے،کل تم نہیں ہوگے تب۔۔۔تم اپنی فنا کے احساس کے ڈر سے اُس منظر کی خوشی حاصل کرتے ہو۔۔۔میں تو تمہارا محسن ہوں"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور سے یارقند تک۔۔۔صفحہ32
نیند کی عارضی موت میں دفن ڈورس ڈے کی مُدھ بھری آواز میرے رگ وپے میں گونجتی تھی۔۔۔جو بھی ہوگا۔۔۔ دیکھا جائے گا۔۔۔ہم مستقبل میں نہیں دیکھ سکتے۔
ماسکو کی سفید راتیں ۔۔۔۔
ایک بہت ہی عمدہ آرٹیکل میں نے ایک ہی نشست میں پڑھا اور بہت ہی اچھا لگا ۔ ۔ ۔ تارڑ صاحب سے انسینت نہ بھی ہوتی تو بھی یہ کالم پڑھ چکنے کے بعد میں اُن کی گرویدہ ہوجاتی ۔ ۔ ۔ آپ نے جس خوبصورتی سے ان کالم کو جوڑا ہے یہ بھی ایک بہت شاندار کام ہے ۔ ۔ ۔ کاش ہم صرف پڑھتے ہی نہ رہیں بلکہ جو اچھا پڑھیں اُسے اسی طرح دوسروں کے سامنے رکھتے جائیں تاکے آنے والی نسلیں یہ سب پڑھ کر اس طرف جھکیں ۔ ۔ ۔ بہت ہی عمدہ ۔ ۔ ۔ بہت مزہ آیا ۔
جواب دیںحذف کریںایک شدید محبت کا اظہار
جواب دیںحذف کریںاللہ خوش رکھے آپ کو
سفر سندھ کے۔۔۔۔مستنصرحسین تارڑ
جواب دیںحذف کریںویسے موت سے مجھے شکایت بہت ہے..
یونہی بغیر کسی وارننگ کے کسی بھی لمحے آپ خوابیدہ ہیں دوستوں کی محفل میں ہیں، بچوں سے لاڈ کر رہے ہیں، ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیں بلکہ ہو سکتا ہے آپ کموڈ پر بیٹھے ہیں تو وہ کچھ اطلاع نہیں کرتی تو شکایت یہی ہے کہ وہ ذرا دھیرے دھیرے آئے.. اس کے قدموں کی چاپ تو سنائی دے.. اس کی آہٹ تو ہو اور وہ کہے کہ میں آ گئی ہوں اور تمہیں تیاری کی لیے کچھ مہلت دیتی ہوں تو آپ اُسے تھینک یُو کہہ کر اپنے بچوں کے چہرے دیکھ لیتے ہیں، اپنی بیوی کے خزاں رسیدہ چہرے پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں.. آپ جو ناول یا سفر نامہ لکھ رہے ہیں اُس کا مسّودہ رائٹنگ ٹیبل پر رکھ دیتے ہیں کہ یہ بعد میں دریافت ہو کر شائع ہو جائے.. کچھ تصویریں اور خطوط تلف کر دیتے ہیں، غار حرا کے ایک پتھر پر اپنے ہونٹ رکھ دیتے ہیں اور وہ سفید ٹشو پیپر جس پر کبھی رسول اللہ کی قبر پر بچھی چادر کی مٹّی کے ذرّے ہوا کرتے تھے جو اب معدوم ہو گئے ہیں اُس ٹشو پیپر کو ذرا آنکھوں سے تو لگا لوں.. اور تب.. ہاں.. اب آ جاؤ.. مجھے لے جاؤ..
موت سے یہی تو شکایت ہے کہ اتنی سی بھی مہلت نہیں دیتی..