سفر ۔1987۔۔1995
اشاعت ۔1997
انتساب ۔احمد داؤد کے نام
اقتباسات۔۔۔
لفظ ارادے یا مشقت کے پابند نہیں۔۔وہ من موجی چیزیں ہیں آئیں تو انکی حاضری لگاتے لگاتے انگلیاں دُکھنے لگیں نہ آئیں تو کورا کاغذ ترس ترس جاۓ ۔
۔۔۔۔
ایک ادیب ہونا ، ایک اداکار ہونا زندگی کے حساس لمحوں میں اکثر انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے ۔۔۔ آپ کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا کیونکہ لفظ اور اظہار آپ کا پیشہ ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔ تو ایک ادیب اور ایک اداکار زندگی کے کسی ایک لمحے میں یہ کیسے ثابت کرے کہ وہ مخلص ہے ۔ اس کے لفظ سچے ہیں ۔ اس کی آنکھوں میں جو نمی ہے اس میں اس کی اداکارانہ صلاحیتوں کا ہرگز عمل دخل نہیں ۔
اشاعت ۔1997
انتساب ۔احمد داؤد کے نام
اقتباسات۔۔۔
لفظ ارادے یا مشقت کے پابند نہیں۔۔وہ من موجی چیزیں ہیں آئیں تو انکی حاضری لگاتے لگاتے انگلیاں دُکھنے لگیں نہ آئیں تو کورا کاغذ ترس ترس جاۓ ۔
۔۔۔۔
ایک ادیب ہونا ، ایک اداکار ہونا زندگی کے حساس لمحوں میں اکثر انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے ۔۔۔ آپ کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا کیونکہ لفظ اور اظہار آپ کا پیشہ ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔ تو ایک ادیب اور ایک اداکار زندگی کے کسی ایک لمحے میں یہ کیسے ثابت کرے کہ وہ مخلص ہے ۔ اس کے لفظ سچے ہیں ۔ اس کی آنکھوں میں جو نمی ہے اس میں اس کی اداکارانہ صلاحیتوں کا ہرگز عمل دخل نہیں ۔
۔۔۔۔
مکمل تنہائی، شہر میں نہیں، صرف ویرانوں میں- میری محبوب ہے–چپ بیٹھنے سے، قدرت کے طلسم کدے میں چپ بیٹھنے سے، ایک ابدی تنہائی میں ایک ذرے کی حیثیت سے، اپنے دھیان میں گم بیٹھنے سے ہی انسان مکمل ہوتا ہے- اس دھیان میں ہی بہت سے بھید کھولتے ہیں- بہت سے در وا ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
زندگی کے اَن گنت مسائل میں سے ایک مسئلہ بلکہ معاملہ دل کا بھی ہے۔۔۔۔۔ہر شخص کا دل کہیں نہ کہیں رُکتا ہے۔۔۔۔کسی کے لئے یہ بیماری دل آخر کام تمام کرتی ہے، کسی کا کام ہی بیماری دل سے شروع ہوتا ہے۔۔۔۔میرا مسئلہ بھی دل کا ہے جو رُکتا بہت ہے۔۔۔۔قربت حُسن میں بھی، قربت موت میں بھی اور قربت سنگ میں بھی۔۔۔۔۔۔۔مجھے کبھی محبوب کی سنگ دلی کا شکوہ نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔موت ہر شخص کا مقدر ہے لیکن قربت سنگ نے مجھے زندگی میں بہت خوار کیا ہے۔۔۔۔۔۔اس کے طلسم نے ہمیشہ مجھے رُسوا کیا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
شہری آسائشوں اور عمر کے زوال نے میرے بدن کی ڈالیوں پر گھونسلے بنا رکھے تھے اور ان میں تھکاوٹ اور پژمردگی کے پرندے بولتے تھے ۔میں ان کی ہوس اور کشش کے ہاتھوں بےبس تھا۔
۔۔۔۔
جونہی خیمے ایستادہ ہوئے سب لوگ پانی سے باہر تڑپتی مچھلیوں کی طرحغڑاپ غڑاپ اپنی آسائش کے پانیوں میں اتر گئے۔
۔۔۔
شام کی سیاہ بلی کی آہستہ خرامی کے پہلو بہ پہلو خنکی بھی ایک بے آواز چور کی طرح مترن داس کی گھاس پر اترنے لگی۔
۔۔۔۔
حسن کی ایک جھلک اُس پوری کتاب پر بھاری ہوتی ہے جو اُس حسن کو بیان کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔
حسن کا اور آزردگی کا کیا رشتہ ہے؟
اس میں مسرت کم اور پچھتاوا زیادہ کیوں ہے۔
اگر حسن— خوبصورتی– اس قسم کا باغ بہاراں سدا نظروں کے سامنے رہے تو کیا پھر بھی آزردگی رہےگی یا اس کی جگہ اکتاہٹ اور یکسانیت لے لے گی— شاید بچھڑجانے کا پھر ملاقات ہو نہ ہو کا خدشہ ہی آزردگی کو جنم دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔
پتھروں کی دنیا کے اندر۔۔۔۔۔۔چھوٹے پامیر مجھ پر بلند ہوتے تھے۔ دریا کی آواز قریب ہوتی تھی۔۔۔
اس سے بڑی اور مکمل تنہائی کہیں نہیں ہو سکتی تھی لیکن۔۔۔۔۔۔کوئی ہے جو آپ کا پیچھا کرتا ہے۔۔۔
آج سیا گلابوں کی جھاڑیوں میں سے گزرتے ہوئے میں نے اس کے سانس کو محسوس کیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔اندھیرے میں ہمیشہ آپ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ کون ہے۔۔۔۔۔۔کیا کوئی ہوتا ہے یا نہیں۔۔۔ یہ وہم ہے یا حقیقت۔۔۔ وہاں کچھ نہ کچھ ہوتا ہے جس سے ہم آگاہ نہیں ہوتے۔۔۔ کوئی وجود سانس لیتا ہے۔
یہ فنا بھی ہو سکتی ہے اور محبت بھی۔۔۔ کہ دونوں کا اصل ایک ہے۔
بہت سے در ہیں جن سے وہ در آتی ہے۔۔۔ کوئی در شک کا، کوئی در یقین کا۔۔۔۔۔شک کا در کھلتا ہے تو یقین کا بند ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔یقین کا کھلتا ہے تو شک کے کواڑ بند ہو جاتے ہیں۔۔۔
بہت سے در ہیں جن میں سے وہ در آتی ہے۔۔۔۔۔فنا بھی، محبت بھی۔ ۔۔۔۔وہ اتنے دروازے کھولتی ہے کہ آپ انہیں بند نہیں کر سکتے۔۔۔ !!"۔
۔۔۔۔۔۔۔
پتھروں کی دنیا کے اندر۔۔۔۔۔۔چھوٹے پامیر مجھ پر بلند ہوتے تھے۔ دریا کی آواز قریب ہوتی تھی۔۔۔
اس سے بڑی اور مکمل تنہائی کہیں نہیں ہو سکتی تھی لیکن۔۔۔۔۔۔کوئی ہے جو آپ کا پیچھا کرتا ہے۔۔۔
آج سیا گلابوں کی جھاڑیوں میں سے گزرتے ہوئے میں نے اس کے سانس کو محسوس کیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔اندھیرے میں ہمیشہ آپ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ کون ہے۔۔۔۔۔۔کیا کوئی ہوتا ہے یا نہیں۔۔۔ یہ وہم ہے یا حقیقت۔۔۔ وہاں کچھ نہ کچھ ہوتا ہے جس سے ہم آگاہ نہیں ہوتے۔۔۔ کوئی وجود سانس لیتا ہے۔
یہ فنا بھی ہو سکتی ہے اور محبت بھی۔۔۔ کہ دونوں کا اصل ایک ہے۔
بہت سے در ہیں جن سے وہ در آتی ہے۔۔۔ کوئی در شک کا، کوئی در یقین کا۔۔۔۔۔شک کا در کھلتا ہے تو یقین کا بند ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔یقین کا کھلتا ہے تو شک کے کواڑ بند ہو جاتے ہیں۔۔۔
بہت سے در ہیں جن میں سے وہ در آتی ہے۔۔۔۔۔فنا بھی، محبت بھی۔ ۔۔۔۔وہ اتنے دروازے کھولتی ہے کہ آپ انہیں بند نہیں کر سکتے۔۔۔ !!"۔
۔۔۔۔۔۔۔
کیا واقعی یہ سفر کا اختتام ہے؟
کونسا ایسا سفر ہے جو آج تک نکتہ عروج پر پہنچ کر ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ہو۔
کیا کوئی منزل ہوتی ہے؟
سفر بھی تو آواگان کا ایک چکر ہے اور اس چکر میں آئے ہوئے بولائے ہوئے پھرتے ہیں-صرف اس لئے کہ منزل کوئی نہیں— منزل کے سراب، دھوکے اور دکھاوے ہیں- اگر کچھ ہے تو بس وحشت ہے۔
۔۔۔
منظر دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک وہ جن کے اندر جاتے ہی آپ فوراً اپنے ساتھیوں سے رجوع کرتے ہیں، اُن کے ساتھ اُس منظر کی سحرآفرینی بانٹتے ہیں- اُنہیں شریک کر لیتے ہیں اور خوب غُل مچاتے ہیں کہ کیا شاندار جگہ ہے- اور دوسری قسم سکوت اور خاموشی والی ہوتی ہے- ایسے منظر میں پہنچ کر انسان کمینہ اور خودغرض ہو جاتا ہے اور وہ ہرگز اُس منظر میں کسی کو بھی شریک نہیں کرنا چاہتا-- بلکہ ساتھیوں کو ناپسندیدگی سے دیکھتا ہے کہ یہ یہاں کیوں آگئے- انہیں خواہ مخواہ ساتھ لے آیا۔
۔۔۔۔۔
۔"رسول، میرے اندر منظروں کی ہوس ختم نہیں ہوتی. .چشمے خشک نہیں ہوتے،چراگاہوں کی ہریاول برسوں قائم رہتى ہے۔برف زاروں کی یخ بستگی مرے بدن کو سرد نہیں کرسکی. . .ہر صبح میری انگلیوں میں سے ان پانیوں کی مہک آتى ہے،جنہیں مدتوں پہلے میں نے چهوا تها. . .یہ ہوس کب ختم ہوگی؟"۔
"کبھی نہیں. . ."اس نے میری ہتهیلی کی پشت کو سہلایا."یہی ہوس تمہیں لکهنے پر مجبور کرتی ہے تمہیں ایسی قوت دیتی ہے جو دوسروں کے پاس نہیں. . .اور میں تمہیں رشک کی نگاه سے دیکهتا ہوں،تم ایک خوش نصیب شخص ہو. . . . ."۔
۔۔۔
۔۔۔
مجھے اپنا کراؤن پرنس سلجوق یاد آتا ہے جو میرے پکارنےپر"اچھا جی"کہہ کرمیری طرف اب بھی اُنہی نظروں سے دیکھتا ہے جن نظروں سے وہ اپنے پنگھوڑے میں ہمکتا ہوا میری طرف دیکھتا تھا۔مجھے میرا شہزادہ سمیر یاد آتا ہے جس کی خوش شکلی اُس کی سالگرہ پر ایسے کیک ہمارے گھر لاتی ہے جن پر کوئی نام نہیں ہوتا.. اور مجھے اپنی شہزادی عینی یاد آتی ہے جس کے خیال میں یہ دنیا صرف اُسی کے لیے تخلیق کی گئی ہے...۔
٭ورگوتھ گلیشئیر کراس کرنے کے بعد۔۔۔
دائیں سے بائیں۔۔۔مستنصرحسین تارڑ،شاہدعلی ایڈوکیٹ،میاں فرزندعلی ایڈوکیٹ (مرحوم)۔
٭ورگوتھ گلیشئیر کراس کرنے کے بعد۔۔۔
دائیں سے بائیں۔۔۔مستنصرحسین تارڑ،شاہدعلی ایڈوکیٹ،میاں فرزندعلی ایڈوکیٹ (مرحوم)۔
بمقام:- کرومبر جھیل کے قریب۔۔۔ سفید ریش مستنصرحسین تارڑ درمیان میں۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں