بدھ, مارچ 25, 2015

"ورلڈکپ 92 اور میں "

ہر انسان کی زندگی میں کچھ لمحے کچھ دن ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کی یاد دل سے نکل کر حقیقی زندگی میں بھی اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔کبھی یہ یادیں خوشگوار ہوتی ہیں دل اُن کے احساس سے معطر رہتا ہے۔کبھی ایسا روگ لگا جاتی ہیں جو سدا کتابِ زندگی کے سرورق کی بھرپور رنگینی کو بےرنگ کیے رکھتا ہے۔
مارچ کا مہینا۔۔۔خاص طور پر مارچ کا آخری عشرہ ہرپاکستانی کی یاد میں روشن چراغ کی مانند دمکتا ہے۔ تئیس مارچ 1940 کو قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور پچیس مارچ 1992کو پاکستان کی کرکٹ ٹیم نےعمران خان کی قیادت میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا۔ بظاہر دونوں واقعات میں کوئی مماثلت نہیں اورنہ ہی ان کے وقوع پذیر ہونےمیں کوئی باقاعدہ پلاننگ ہی سمجھی جاتی ہے۔۔۔۔تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہےکہ قراردادِلاہور سے قراردادِ پاکستان کا نام ہندو اخبارنویسوں کے اندھے تعصب کا شاخسانہ ہے جو مسلمانانِ برِصغیر کے لیے تائیدِایزدی ثابت ہوا ۔اسی طرح پےدرپے میچز ہارنےاور ڈک ورڈ لوئس میتھڈ کی بیساکھی کے سہارے سیمی فائنل تک رسائی کے بعد پھر قسمت اوریقین کے مضبوط جوڑ نے ورلڈ کپ کی ٹرافی کا حصول ممکن بنایا۔ عقل اور منطق کی موشگافیوں سے پرے مارچ کے یہ دو دن ہر پاکستانی کا قابل فخر سرمایۂ احساس ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
سال 1992 میرے لیے بھی ایک خاص سال تھا۔ دو بیٹوں کے بعد خاندان مکمل کرنے کے لیے بس ایک بیٹی کی چاہ تھی۔ یہ خاندان مکمل کرنے کی بھی عجیب کہانی ہے۔ ہم ہروقت زندگی کواپنے حساب سے مکمل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ہماری قابلیت فقط زندگی کی پزل کے بےترتیب ٹکڑوں کو ایک بامعنی تصویر دینے کی اہلیت سے مشروط ہوتی ہے۔ہماری خواہشیں یقین کی اُس حد کو چھونے لگتی ہیں جہاں ہم اپنی رضا کو رب کی رضا پر انجانے میں ہی سہی فوقیت دینے لگتے ہیں۔ آج کل کی ترقی یافتہ سائنس جو بھی کہے ہم اُس پر بھی حاوی ہونا چاہتے ہیں۔ عورت سے زیادہ مرد کو باپ کے روپ میں ایک بیٹی چاہ ہوتی ہے۔عورت زندگی کی خوشیوں اور طمانیت کےچاہے کسی بھی مقام پر ہو بیٹی کی آمد اُس کے لیے ایک ان کہی انجانی سی اداسی دے جاتی ہیں جسے وہ جانتی تو ہے لیکن اپنی کم عقلی سوچ کر مانتے ہوئے ہچکچاتی ہے۔
یہ کہانی 25مارچ 1992 سے پہلے آنے والی رات کی ہے۔اس رات فائنل کھیلنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اُمید اور نااُمیدی کے مابین ایک دوسرے سے چہرہ چھپائے اگر آنے والے دن کا سوچ کر جاگتے تھے تو ایک ماں آنے والے دن کے خدشات بھلاتے ہوئے تقدیر اور تدبیر کو باہم ملانے کی جستجو میں تھی اور روزے دار بیسویں روزے کی سحری کا اہتمام کرتے تھے۔ اگلےروز کا سورج ایک بیٹی کی نوید لے کرطلوع ہوا۔ دوپہر ڈھلنے سے پہلے ہی گھر لوٹ آئی۔ اور شام کو سب گھروالوں کے ساتھ قومی کرکٹ ٹیم کی شاندار فتح کے لمحات نے اِس دن کو یادگار بنا دیا۔ ہرسال 25 مارچ کے روز اور رمضان المبارک کے 20 ویں روزے کو بیٹی کے جنم دن کے ساتھ ساتھ ورلڈ کپ کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے۔
!آخری بات
ہماری ساری زندگی خوشیوں اور دکھوں کی پوٹلیوں کی گرہیں کھولتے گزر جاتی ہے۔ہم نہیں جانتے کہ وقت گھڑی نےمقدر میں کیا لکھا ہے۔ایک بار پہلے بھی لکھا تھا کہ انسان کو اگر معلوم ہوجائے کہ آئندہ اُسے کیا خوشیاں ملیں گی تو وہ کبھی مرنے کو تیار نہ ہو ۔اور اگر اُسے یہ پتہ چل جائے کہ زندگی میں آگے اُسے کن غموں کا سامنا کرنے پڑے گا تو وہ مزید ایک پل بھی زندہ رہنے کی خواہش نہ کرے۔
اللہ ہم سب کو اپنی اپنی محبتوں کی پہچان کا علم عطا فرمائے تاکہ ہم ابدی محبت کی لذت کو پانے کے قابل ہو سکیں۔
نورین تبسم
دوپہر 2 بجے
مارچ 25۔۔۔2015
۔۔۔۔۔۔
دو برس پہلے۔۔۔ مارچ 25۔2013 کا احساس۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...