عورت مرد کی 'جیب' دیکھتی ہے اور مرد عورت کا'جسم'۔اِسی'جستجو' میں دونوں ایک دوسرے کی اصل 'جھلک' سے محروم رہتے ہیں۔عورت کے نزدیک 'جیب' کی آسودگی دوسرے تمام جذبوں،تمام احساسات،تمام رویوں کی ہمواریوں اور ناہمواریوں کی وجہ بنتی ہے اور مرد کے مطابق عورت کے جسم کی ناآسودگی اِس کے لیے ہر میدان کو میدانِ جنگ بنا دیتی ہے خواہ وہ میدان اُس کا اپنا ہی جسم کیوں نہ ہو۔
۔"پہلی نظر" کے اس جائزے میں فرق صرف دیکھنے والی آنکھ کا ہے۔کوئی آنکھ جیب میں مال دیکھتی ہے یا پھر اس جیب کے اندر حسب نسب کی تہہ درتہہ پرتیں۔کبھی نگاہ اس جیب میں فہم وشعور کے موتی تلاش کرتی ہے تو کوئی تعلیم وتربیت کے نگینے ڈھونڈتی ہے۔ مرد کی آنکھ جب تماش بین کی آنکھ بن جائے تو ظاہری چمک دمک،بناؤسنگھار اور نازوادا کے رقصِ مجازی میں کھو جاتی ہے اور پھر ہمیشہ کے لیے اس جھنکار سے آگے کبھی نہیں دیکھ سکتی۔ یوں اس جادونگری میں وہ ساری عورت کہانی بُن لیتا ہے۔ایسی کہانی۔۔۔جو اُس کی عقل کے بند کمرے میں جنم لیتی ہے اور اُس کے احساس کی گھٹن کا شکار ہو کر فیصلہ سنا دیتی ہے۔
فطرت اور جبلت کے اپنے اپنے دائروں میں سفر کرتے، ایک دوسرے کی کشش کے مدار میں داخل ہوتے مرد وعورت کے تعلق میں جنسی رویہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔جس عورت کو اپنی نسوانیت کا احساس نہ ہو وہ "حیوانیت " اور "مردانگی" میں تمیز کھو دیتی ہے دوسری طرف مرد کی محبت میں جب تک تحفظ کا احساس نہ ہو وہ مکمل نہیں ہوتی۔نامکمل محبت ادھورے وجود کی طرح ہوتی ہے جو نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی روگ بن جاتا ہے۔ جو محبت روگ بن جائے وہ محبت نہیں محبت کا دھوکا ہے اوردھوکا دکھ ہی دیتا ہے سُکھ نہیں۔یہ زندگی کی کافی کا وہ ذائقہ ہے جو بغیر 'شِیر' اور' شیرینی' کے ہرحال میں چکھنا ہے۔جب تک مرد اور عورت اپنی ظاہری نگاہ سے بلند ہو کر اندر کی آواز پر دھیان نہیں دیں گے وہ کبھی ایک دوسرے کے حقیقی رنگ کی جھلک محسوس نہیں کر سکیں گے۔
آخری بات
رشتوں اور تعلقات کی آنکھ مچولی کھیلتے مرد اور عورت جب ایک جائز تعلق کے حصار میں آتے ہیں تو ہر احساس اور خواہش کو یکسر بھلا کر ہی ایک نئے سفر کا آغاز کرنا پڑتا ہے۔جس کا علیحدٰہ نصاب اور مختلف زاویہ نگاہ بھی ہوتا ہے۔ کانچ کی سی نازکی والے اس بندھن کو استوار رکھنے کے لیے چٹان کی سی ہمت درکار ہے جس کے سرورق کا پہلا سبق بھی"جیم"ہے" جی ہاں"۔۔۔یس سر ہی وہ راز ہے جو مرد اور عورت کی تخصیص سے قطع نظر رویوں کے فطری تضادات کوباہم ٹکرانے سے روکتا ہے۔ اگر مرد یا عورت میں سے کوئی ایک "جی ہاں" کی دہلیز کو نہ چھوئے تو "جیم کا یہ فساد" ایک نہ ختم ہونے والی میراتھن ریس کی طرح چلتا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے جائز یا ناجائز طرزِعمل سے سمجھوتہ کرتے ہوئے کوئی ایک "جھکنے" کی ہار مان لے تو زندگی ٹھہری ہوئی "جھیل" کی مانند گزر ہی جاتی ہے۔ ورنہ ساری زندگی "جوتیوں میں دال بٹتی " ہے جس میں نہ تو ذائقہ ہوتا ہے اور نہ ہی پیٹ بھرتا ہے۔ایک حرفِ انکارانسان کو پاتال میں گِرا دیتا ہےپھر یہ کیسی خود فریبی،کیسا نشہ،کیسا خمار۔آنکھ کُھلی اورزبان بند رہےتب گاڑی چلتی ہےاور احساس سویا ہی رہے تو بہتر ہے"خواب انسان کو بیداری کی اذیّت سے بچاتے ہیں"۔
۔"پہلی نظر" کے اس جائزے میں فرق صرف دیکھنے والی آنکھ کا ہے۔کوئی آنکھ جیب میں مال دیکھتی ہے یا پھر اس جیب کے اندر حسب نسب کی تہہ درتہہ پرتیں۔کبھی نگاہ اس جیب میں فہم وشعور کے موتی تلاش کرتی ہے تو کوئی تعلیم وتربیت کے نگینے ڈھونڈتی ہے۔ مرد کی آنکھ جب تماش بین کی آنکھ بن جائے تو ظاہری چمک دمک،بناؤسنگھار اور نازوادا کے رقصِ مجازی میں کھو جاتی ہے اور پھر ہمیشہ کے لیے اس جھنکار سے آگے کبھی نہیں دیکھ سکتی۔ یوں اس جادونگری میں وہ ساری عورت کہانی بُن لیتا ہے۔ایسی کہانی۔۔۔جو اُس کی عقل کے بند کمرے میں جنم لیتی ہے اور اُس کے احساس کی گھٹن کا شکار ہو کر فیصلہ سنا دیتی ہے۔
فطرت اور جبلت کے اپنے اپنے دائروں میں سفر کرتے، ایک دوسرے کی کشش کے مدار میں داخل ہوتے مرد وعورت کے تعلق میں جنسی رویہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔جس عورت کو اپنی نسوانیت کا احساس نہ ہو وہ "حیوانیت " اور "مردانگی" میں تمیز کھو دیتی ہے دوسری طرف مرد کی محبت میں جب تک تحفظ کا احساس نہ ہو وہ مکمل نہیں ہوتی۔نامکمل محبت ادھورے وجود کی طرح ہوتی ہے جو نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی روگ بن جاتا ہے۔ جو محبت روگ بن جائے وہ محبت نہیں محبت کا دھوکا ہے اوردھوکا دکھ ہی دیتا ہے سُکھ نہیں۔یہ زندگی کی کافی کا وہ ذائقہ ہے جو بغیر 'شِیر' اور' شیرینی' کے ہرحال میں چکھنا ہے۔جب تک مرد اور عورت اپنی ظاہری نگاہ سے بلند ہو کر اندر کی آواز پر دھیان نہیں دیں گے وہ کبھی ایک دوسرے کے حقیقی رنگ کی جھلک محسوس نہیں کر سکیں گے۔
آخری بات
رشتوں اور تعلقات کی آنکھ مچولی کھیلتے مرد اور عورت جب ایک جائز تعلق کے حصار میں آتے ہیں تو ہر احساس اور خواہش کو یکسر بھلا کر ہی ایک نئے سفر کا آغاز کرنا پڑتا ہے۔جس کا علیحدٰہ نصاب اور مختلف زاویہ نگاہ بھی ہوتا ہے۔ کانچ کی سی نازکی والے اس بندھن کو استوار رکھنے کے لیے چٹان کی سی ہمت درکار ہے جس کے سرورق کا پہلا سبق بھی"جیم"ہے" جی ہاں"۔۔۔یس سر ہی وہ راز ہے جو مرد اور عورت کی تخصیص سے قطع نظر رویوں کے فطری تضادات کوباہم ٹکرانے سے روکتا ہے۔ اگر مرد یا عورت میں سے کوئی ایک "جی ہاں" کی دہلیز کو نہ چھوئے تو "جیم کا یہ فساد" ایک نہ ختم ہونے والی میراتھن ریس کی طرح چلتا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے جائز یا ناجائز طرزِعمل سے سمجھوتہ کرتے ہوئے کوئی ایک "جھکنے" کی ہار مان لے تو زندگی ٹھہری ہوئی "جھیل" کی مانند گزر ہی جاتی ہے۔ ورنہ ساری زندگی "جوتیوں میں دال بٹتی " ہے جس میں نہ تو ذائقہ ہوتا ہے اور نہ ہی پیٹ بھرتا ہے۔ایک حرفِ انکارانسان کو پاتال میں گِرا دیتا ہےپھر یہ کیسی خود فریبی،کیسا نشہ،کیسا خمار۔آنکھ کُھلی اورزبان بند رہےتب گاڑی چلتی ہےاور احساس سویا ہی رہے تو بہتر ہے"خواب انسان کو بیداری کی اذیّت سے بچاتے ہیں"۔
جیم کے فساد کا علاج میم کی محبت سے ممکن ھے، نہایت عمدہ پُر فکر تجزیہ
جواب دیںحذف کریںیعنی 'جیم' کے فساد کا حل بھی 'جیم' (جی ہاں) سے نکلتا ہے
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی تحریر :)
نہایت خوبصورت تحریر اور تجزیہ
جواب دیںحذف کریںhttps://daleel.pk/2017/02/15/30949
جواب دیںحذف کریں