جمعرات, مارچ 19, 2015

"کرنیں ۔(3)"

{اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ }
٭بے شک اللہ جانتا ہے ہم نہیں جانتے۔
٭ کچھ نہ کچھ ہو گا اللہ بہتر جانتا ہے۔ زمین کی کروٹ سے پہلے جب چرند پرند خوفزدہ ہو جاتے ہیں تو انسان کا اپنے ہی وجود میں پیوست ٹائم بم کی آواز سُننا اجنبھے کی بات ہرگز نہیں۔
٭انسانی عمر محدود ہے اور دنیا میں ہوش وحواس میں آکر سوچنے والی زندگی اس سے بھی کم ۔ بس ہماری ضرورتیں لامحدود ہو جاتی ہیں اور ہم بنا سوچے سمجھے اپنی زندگی کو مشکل بنائے چلے جاتے ہیں۔ ہم اللہ کے ہیں اپنے آپ کو اس کے حوالے 
کردیں تو یہی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
۔۔۔
٭زندگی ہمیں کبھی بھی ہماری اپنی ٹرمز اور کنڈیشنز پر نہیں ملتی۔ تو وہ لمس اور لمحے جو ہمارے لیے زندگی بخش ہوتے ہیں ۔وہ کیسے ہمیں ہماری ٹرمز اور کنڈیشنز پر مل سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ Terms....Conditions
٭زندگی سے زندگی میں ملنا پل دو پل کو ہی سہی زندگی پر یقین قائم رکھتا ہے۔زندگی بخش احساسات زندگی میں ایک یادگار یاد کی صورت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ورنہ زندگی تو نام ہی جسم وروح کے ملنے بچھڑنے کا ہے۔
زندگی ایک یاد کہانی ہی تو ہے۔۔۔ زندگی میں یاد نہیں آتی جب زندگی چلی جاتی ہے تو فقط یاد رہ جاتی ہے۔کبھی ہمارے پاس یادیں ہوتی ہیں تو کبھی ہم خود یاد بن جاتے ہیں۔ یاد بھی پانی طرح ہوتی ہے۔۔۔ حد سے بڑھ جائے تو چھلک پڑتی ہے۔
 ٭دنیا میں بہت سے لوگ مل کر بچھڑ جاتے ہیں لیکن بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو ملتے ہی بچھڑنے کے لیے ہیں۔بچھڑنے والوں  کا ساتھ زندگی کے سمندر میں لہروں کی مانند ہوتا ہے،اُن کی یاد اور احساس کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو،وقت کی اُٹھنے والی طاقتور لہر بہت جلد اُن کی جگہ لے لیتی ہے۔
٭جن کی چاہ ہو وہ ملتے ضرور ہیں لیکن کبھی ہم سے پہلے گزر جاتے ہیں تو کبھی ہمارے ساتھ ہمارے پاس رہتے ہوئے بھی ہم اُنہیں پہچان نہیں پاتے۔۔۔کبھی زندگی کے پلیٹ فارم پر پل دوپل کو ملتے ہیں اور ہمارا اعتماد ہمارے حوالے کر کے بچھڑ جاتے ہیں۔
٭بچھڑنے کے لمحے ہمیشہ وقت گھڑی میں ٹھہر سے جاتے ہیں اور زندگی آگے بڑھ جاتی ہے۔ سب کچھ ملتا ہے زندگی سے لیکن وہ لمحہ وہ احساس نہیں ملتا۔
٭دنیاوی زندگی کے عذاب ثواب صرف سمجھ کا ہیرپھیر ہیں،اسی طرح ذہنی اور جسمانی عذاب ہوس یا عیاشی سے زیادہ فاصلہ نہیں رکھتے اگر برتنے کا ہنر نہ آتا ہو۔ مثالیں ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں ۔چاہے ادب کے "کلاسک" ہوں یا ایک جائز تعلق کے ناجائز راستے۔۔۔جنہیں پہلے زمانے میں ہیرے کی منڈیوں سے تشبیہ دے کر عزت کا جامہ پہنانے کی بےکار کوشش کی جاتی تھی۔آج کل تو اتنا تردد بھی نہیں کیا جاتا۔
"افسانہ اور حقیقت"
وکٹرہیوگو"نے کہا کہ٭"حقیقت افسانے سے زیاده حیران کن ہوا کرتی ہے"۔".ں
 ہمیشہ سے افسانے اور حقیقت کے درمیان الجھن رہی ہے، زندگی کے حقائق اتنے تلخ ہیں کہ ہم انہیں افسانے میں تو لپیٹ سکتے ہیں لیکن ان سے صرفِ نظرکرتے ہوئے محض خواب کی رنگین دنیا کو سامنے رکھ کر ذہنوں کو خماری میں مبتلا کر دینا  جو ذہنی عیاشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔کبھی کوئی تحریر پڑھنے والے کو حقیقت اور افسانے کے درمیان معلق کر دیتی ہے۔ ہر بار پڑھتے ہوئے خیال آئےکہ نہیں نہیں یہ افسانہ ہے اور درد کی شدت کو محسوس کر کے دعا نکلے کہ افسانہ ہی ہو لیکن آخر تک آتے آتے یقین کرنا پڑ جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے اور ہمارے آس پاس  بکھری کہانی۔ کبھی انداز تحریر شاندار  ہوتا ہے تو احساس اس سے بڑھ کر جاندار۔اپنی ذات کے محور کے گرد کہانی بننا چاہے وہ فسانہ ہے یا حقیقت بہت منفرد تجربہ ہے اور 
دوسروں کو اس طرح مسمرائز کر دینا بھی بہت کم کسی لکھنے والے کا کمال ہوا کرتا ہے۔سکھی رہنا چاہتے ہو تو افسانوں میں کبھی حقیقت تلاش نہ کرو اور حقیقت کو ایک فسانہ سمجھ کر پڑھتے رہو چاہے وہ اپنے اوپر بیتی ہو یا آس پاس سانس لیت،ی دم بخود کرتی چیختی چنگھاڑتی کہانیاں ہوں۔
آگہی"۔۔۔۔"
جو جان گیا جانو جان سے گزر گیا کہ آگہی ایک نعمت ہے تو اتنی بھاری ذمہ دای بھی ہے۔جس کے بوجھ تلے انسان ساری زندگی سسکتا رہتا ہے اور اپنی چیخیں اپنے کانوں تک بھی نہیں پہنچنے دینا چاہتا کہ "آگہی کی پہلی شرط ۔۔۔پہلی منزل اور پہلی سیڑھی اور پہلا امتحان "شکرگزاری" کا احساس ہے۔
۔" شریعت" ۔۔۔۔
ایک ان دیکھی رسی کی مانند ہے جو کبھی موجود دکھتی ہے کبھی معدوم۔ اور صاحب ایمان کے اپنے محدود دائرۂ کار میں حلال رزق بھی ہے اور حرام رزق بھی۔ حلال عطا ہے تو حرام اس کے کیے کا پھل ۔ اب یہ اس کی اہلیت پر منحصر ہے کہ وہ حیوان کی طرح بنا سوچے سمجھے ہر طرف منہ مارتا رہے یا اپنی نگاہ کی وسعت پر بھروسہ کرے۔ اور اور جب وہ فنا فی الحق کے پائیدان کو چھونے لگے تو پھر جہاں چاہے آزاد پھرے کہ کبھی اپنے محور سے دور نہیں جا سکتا ۔
ڈگری"۔۔۔۔"
جب تک انسان کے ساتھ ڈگری نہ ہو چاہے۔۔۔ جعلی سہی ۔۔۔وہ محترم نہیں اور عورت کے ساتھ جب تک رشتے نہ ہوں۔۔۔۔ وہ محض بازار میں بکنے والی چیز۔ یہ انسانی فطرت ہے فطرت کو بدلا نہیں جا سکتا لیکن سمجھا جاسکتا ہے ۔فطرت کو عزت دی جا سکتی ہے اور ہم عزت دینا نہیں جانتے۔بس یہی اصل المیہ ہے ۔عزت کا لباس ہر مردوزن کا بنیادی حق ہے جو وہ دوسروں سے پہلے خود اپنے آپ کو دیتا ہے۔
۔۔۔۔
۔"تمنا"۔۔۔
اس وقت تک ناسور نہیں بنتی جب تک ہم اسے سمجھنے کی کوشش ترک نہیں کر دیتے۔سوال یہ ہے کہ تمنا کوپانا اہم ہے یا سمجھنا؟ پہلی خواہش پہلا احساس تو بلاشبہ پانے کا ہی ہوتا ہے۔ جب وہ دسترس سے باہر ہو تو ضدی بچے کی طرح ایڑھیاں نہیں رگڑنا چاہیےبلکہ اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مہربان لیکن غریب ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے کر بہلا بھی دیتی ہے۔
٭زندگی کی تلخی کو جب تک گھونٹ گھونٹ جذب کرتے رہوگے ۔۔۔ ناسور بنتی جائے گی۔اسی طرح زندگی کی خوشیوں کو جتنا سمیٹتے جاؤ گے ہوس بڑھتی رہے گی۔ رب موقع دے تو زندگی سے ملنے والے دکھ اور سکھ سب یہیں چھوڑ جانے چاہیں ۔جتنا ہلکے ہوں گی اتنی آسانی سے جان نکلے گی۔
کھوٹ"۔۔۔۔۔"
کھوٹ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ جیسے۔۔۔۔۔
خالص سونا کسی کام کا نہیں۔ اسے ایک پتھر کے ڈلے کی طرح سنبھال کر تو رکھا جا سکتا ہے پر زیور کی صورت آراستہ نہیں کیا جاسکتا۔انسان کا شرف ان دھاتوں سے بڑھ کر ہے وہ ان میں اپنی اصلیت کھوجتا ہے اپنا عکس تلاش کرتا ہے لیکن کوئی ایک بھی مکمل طور پر اس کی ترجمانی نہیں کر سکتا ۔
" سکے کے دو رخ"
جو حق پر ایمان رکھتے ہیں ان کے تخیل اور حقیقت میں کوئی دوئی نہیں ہوتی۔ زندگی کو نادر اور نایاب سکے کی طرح سنبھال کر رکھنے اور برتنے والے اس سکے کے دونوں رخ بھی پہچانتے ہیں۔ اور انجان محض ایک ہی رخ دیکھ کر سکے کی مالیت کا اندازہ بلکہ یقین کا تعین بھی کر لیتے ہیں۔ اور یوں "سچ جھوٹ" ، "ہاں نا" اور "ظاہر باطن" کے مخمصے میں اپنا قیمتی اثاثہ کھو دیتے ہیں۔
کسی نے کہا ۔۔۔نفرت کمزور کا غصہ ہے۔لیکن غصہ ہو یا نفرت اس کا اظہار ضرور کمزور اور طاقتور میں فرق کی نشاندہی کرتا ہے۔ کمزور اپنا غصہ اپنے آپ پر نکالتا ہے تو طاقتور اپنے سے کمتر پر۔ جہاں تک بات نفرت کی ہے۔ نفرت کی بےشمارجہت ہیں۔۔۔ مذہبی اور معاشرتی حوالوں سے قطع نظر انسان ہر اس چیز سے نفرت کرتا ہے جو اس کی پہنچ سے دور ہو یا اس کی پہنچ میں آ کر فیض نہ دے سکے۔
غیرت "۔۔۔۔۔ "
ضمیر کی آواز کا نام ہے۔ مردہ ضمیروں کی غیرت بھی مردہ ہوتی ہے اور روشن ضمیر اپنے نفس کی آواز دباتے نہیں بلکہ اسے سمجھاتے ہیں ۔
ضمیر"۔۔۔۔۔"
انسان کے اندر کا وہ رنگ ہے جس کی کالک چھپانے کے لیے اکثر فول پروف میک اپ کیا جاتا ہے لیکن وقت کی بےموسم بارش اسے ایک پل میں صاف کر کے اصل چہرہ دکھا دیتی ہے۔ اور کبھی ضمیر کا اجلاپن آنکھیں چندھیا دیتا ہے کہ اپنا ہی چہرہ اجنبی لگتا ہے اور انسان انسانوں کے ہجوم میں تنہا رہ جاتا ہے۔
۔۔۔۔
کتاب اور نصاب۔۔
 دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والا  انسان جو  خواہ کسی  بھی رنگ،نسل اور مذہب سے تعلق رکھتا  ہو ، کتاب اس کی زندگی میں بنیادی کردار  کی حامل ہے۔اربوں انسانوں کی دنیا میں لاتعداد مذاہب کسی نہ کسی صحیفے کی ڈور سے بندھے ملتے ہیں۔اسی طرح  دنیاوی علوم کی کتب بھی  ہر معاشرے اور ہر دور میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔
۔۔۔۔
غلاف"۔۔۔۔"
غلاف کیا ہے۔۔۔۔ حجاب ۔۔۔پردہ ۔۔۔آئینہ ۔۔۔ جو سب عیاں کر کے بھی حقیقت سے دور رکھے۔
غلاف چاہے کعبہ کا ہو یا جسمِ انسانی پر ہمیشہ غلافِ عشق ہی ہے۔ اندھی عقیدت میں گندھے زائرین کبھی تو اُسے چپکے چپکے کُترتے ہیں۔۔۔ناکام رہیں تو اُس کے ریشوں کو متاعِ جاں جان کر اپنے فانی جسم کی بخشش کا ذریعہ بنانے کی لایعنی سعی کرتے ہیں۔ یہی حال انسانی جسم کا بھی ہے۔بدنگاہ کی نگاہ کو بھا جائے تو اُس کے غلاف کو تارتار کرنے کی ہوس میں اپنے تئیں محبت کی نہ جانے کون سی معراج طے کرنا چاہتے ہیں۔۔۔کبھی لفظوں کے نوکیلے نشتر اُتار کر اُسے چیر دیتے ہیں تو کبھی مکروہ ہاتھوں کے لمس سے ناپاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
"پردہ"
٭زندگی میں پردے پڑے رہتے ہیں اور موت سب پردے اُتار دیتی ہے۔ پردہ عقل پر پڑجائے تو زندگی موت سے بھی بدتر ہے اور وقت گزرنے سے پہلے سب پردے ہٹ جائیں تو موت زندگی کی نوید ہے۔
"تلاش ذات "
کچھ لوگ کری ایٹر۔۔۔۔ ہوتے ہیں تو کچھ انوینٹر۔۔۔۔ کچھ رول ماڈل تو کچھ پایونئیر۔۔۔۔
Pioneer۔۔۔ Role model... Inventor....Creator....
کچھ سڑکیں بناتے ہیں اورچپ چاپ گزر جاتے ہیں۔وہ اپنا راستہ آپ تلاش کرتے ہیں۔اپنی دُنیا اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ کبھی یہ دشت گردی۔۔یہ آوارگی انہیں دردر بھٹکاتی ہے تو کبھی تلاش ِذات کے سفر پر لے جاتی ہے۔اور یہی لوگ رہتی دنیا تک اپنے نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن!!! زندگی میں ایسے اذیت ناک موڑ بھی آتے ہیں جب اوروں کے لیے راستہ بناتے بناتے دوسرے آپ پر قدم رکھ کر گزرتے چلے جائیں۔
سانس اور آس "۔۔۔۔۔"
سانس کہانی بھی عجب ہے۔ جب تک سانس آتی رہے آس باقی رہتی ہے اور سانس اٹکنے لگ جائے تو آس بھی ٹوٹنے لگ جاتی ہے۔ ہماری محبتیں سانس اورآس کے درمیان معلق رہتی ہیں ۔ سانس میں آس مل جائے تو سانس آ جاتی ہے ۔
٭سانس سے لے کر آس تک ہمیں زندگی اور زندہ رہنے کے سب وسیلے بنا کسی استحقاق کے مل جاتے ہیں۔
٭آخری سانس سے پہلے کوئی بھی "انکشاف" حتمی یا "عجیب" نہیں ہوتا۔ زندگی کا فسانہ ہر گھڑی رنگ بدلتا ہے۔
٭آخری سانس تک سانس لینے کی جدوجہد ہی زندگی کی ضامن ہے اور زندگی کا ہم پر حق بھی۔جتنی شدت سے زندگی سے مایوسی بڑھتی ہے اس سے بڑھ کر زندہ رہنے کی خواہش قدم روکتی ہے۔
٭زندہ رہنا صرف عمر کے محدود ماہ وسال کے پھیلاؤ کا نام نہیں۔۔۔بلکہ اپنے ذہن و جسم میں در آنے والی اس معمولی سی کسک کو بھی سمجھنا ہے جو امرپیل کی طرح یا پھر دیمک بن کر خوشیوں کا رس رس نچوڑنے کے درپے ہے۔زندگی کے ہر گزرتے پل کبھی یوں بھی لگتا ہے کہ جیسے گدھ جسم کو نوچ رہےہوں اورچیخیں صرف ہمارے کان ہی سن سکتے ہوں۔
٭ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اُسی کی کہانی ہمارے اندر سانس لیتی ہے اور وہی سانس ہم باہر نکالنا چاہتے ہیں اور جب سانس باہر نہ لے پائیں تو پھر گھٹن کا احساس بہت بڑھ جاتا ہے چاہے جتنا مرضی کھڑکیاں کھول کر منظر دیکھتے رہیں۔
٭انسان وہ ناقدر شناس ناظر ہے۔ جو دیکھ کر بھی نہیں کچھ دیکھتا۔
٭کچھ لوگ وہ نہیں دیکھتے جو نظر آتا ہے بلکہ وہ دیکھتے ہیں جو محسوس ہوتا ہے اور جسے محسوس کیا جاتا ہے اسے ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔
"بنجر"
بنجر کا لفظ بہت برا ہے۔انسان کے لیے اسے استعمال کرنے سے گریزکریں ناشکری کی بو آتی ہے ،ہم خود بھی نہیں جانتے اپنی زرخیزی کو یہ تو دوسرے کی آنکھ کا حسن ہے جو ہمارے اندر کا اندر دیکھ لیتا ہے۔
۔"لاوارث"۔
وہی نہیں جس کی نسل نہ ہو بلکہ لاوارث وہ ہے جس کی سوچ بنجر ہو جائے اور میرا رب کسی کو لاوارث نہیں رکھتا ۔ یہ ہمارا خیال ہےجو جسم سے آگے نہیں جاتا۔ اور ہر پیدا ہونے والاکسی بھی شجر کا حصہ ضرور ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسے سایہ نصیب نہ ہو ۔
"تعزیت"
٭بظاہر یہ لایعنی سی بات لگتی ہے کہ کسی  کی زندگی میں وہ سوچا جائے اور لکھا جائے جو شاید ہم اُس کے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے پر محسوس کریں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بعد میں ہم چاہے تاج محل بنا دیں یا اُس کے فراق میں دیوان لکھ لکھ کر دُنیا کو مسمرائز کر دیں۔ وہ کبھی بھی کچھ بھی نہیں جان پاتا۔ اُس کا رابطہ اس دُنیا اور اِس کے معاملات سے ہمیشہ کے لیے منقطع ہو جاتا ہے۔تو کیوں نا ہم زندگی کی  عنایتوں کو زندگی میں ہی اپناتے ہوئے اُن کا احساس بھی کرلیں۔"جیو۔۔۔۔ اس لیے کہ جینا رب کی رضا ہے۔
٭الفاظ کبھی نہیں بھاگتے۔۔۔کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے بس ان کااظہار بدل جاتا ہے۔کبھی لفظ چیختے ہیں چلاتے ہیں اور کہنے سننے والے کو  سر سے پیر تک   وقتی تسلی   کے احساس سے شرابور کر دیتے ہیں۔ کبھی۔۔۔۔۔۔ الفاظ خاموشی کی چادر اوڑھ کر دوست سے یوں لپٹ جاتے ہیں کہ اس سے کچھ بھی کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ایسےمواقع پر ہماری خشک آنکھ کی مدھم سی نمی دوست کے دل کے سمندر میں اتر جاتی ہے ۔ اوروہ لمس کی حرارت پا کر اپنی ڈوبتی کشتی میں سے زندگی تلاش کرنے نکل پڑتا ہے۔
اللہ اس کٹھن موقع پر ہمیں ایک دوسرے کے لیے باعث سکون بنائےاور کڑے وقت اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے کہ یہی وقت ایمان کی سلامتی کا اصل امتحان بھی ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو ہر امتحان ہر آزمائش میں ثابت قدم رہنے کی ہمت عطا کرے۔ آمین

3 تبصرے:

  1. بہت عمدہ، فکرانگیز اور دلچسب بھی، ایک طرح سے آپکی فکر کے بنیادی اجزاء ترکیبی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ جناب۔ آ پ نے صحیح پہچانا ۔ "کرنیں" میں میرے بہت سے جملے مختلف اوقات میں کسی کی پوسٹ پر کیے گئے بےساختہ کمنٹس ہیں یا پھر اپنی پوسٹ پر کسی سے کی گئی عام بات چیت ہے۔

      حذف کریں
  2. یہ نۓ خیالات کے ساتھ ، نۓ معنئ کی نئ لغت ہے ۔ لیکن نہایت درجہ کڑوی سچائیوں کے ساتھ !!

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...