یومِ آزادی۔۔۔۔
زندگی آزادی کا نام ہے ۔۔۔۔ کسی وجود کی گہری پرتوں میں محفوظ و مطمئن رہنے کے بعد ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی سے نکل کر رنگ و روشنی میں جیتے جاگتے جسم کے سانس لینے کی آزادی اور پھر مقررہ سانسوں کے حساب کتاب کے بعد اپنے ہی جسم کی گھٹن سے نجات پا کر کائنات کی بےکراں وسعتوں میں دربدری کی آزادی۔
کیا ہے یہ انسان ؟ اور کیا ہے یہ سب گورکھ دھندا؟ آزادی کی طلب اسے قید سے فرار کی خواہش پر اکساتی ہےتو ایک چھوٹی قید سے بڑی قید میں جانا اس کی جبلت اور فطرت میں شامل ہے۔
زندگی اسی کا نام ہے اور زندگی کے ہر رنگ کو سمجھنا اور برتنا نہ صرف اپنی زندگی سہل بناتا ہے بلکہ انسان دوسروں کے لیے بھی آسانیوں کا باعث بنتا ہے۔آزادی کا مفہوم خوشی ہے لیکن خوشی زندگی سے عبارت ہے ۔جب تک زندگی رہے خوشی لینے کا خوشی پانے اور خوشی دینے کا احساس بھی زندہ رہتا ہے۔ یہ صرف سانس کے آنے جانے کا کھیل ہے۔ سانس کے ساتھ آس کا رشتہ ہی زندگی کے رنگوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ جیسے ہی روح و جسم کی ڈور ٹوٹتی ہے۔۔۔کائنات میں بکھرا ہر رنگ ہر کہانی اور ہر تصویر تو اسی جگہ موجود رہتی ہے بس ہمارا اپنا ربط اس سے ختم ہو جاتا ہے دوسرے لفظ میں ہم اس تصویر کے چوکھٹے میں سے نکل جاتے ہیں۔ اس وسیع وعریض تصویر میں ہماری حیثیت ایک ذرے سے بھی کم تر ہے اور سوائے ہماری اپنی ذات کے کسی کو اس کمی کا احساس نہیں ہوتا سوائے ہمارے اپنے پیاروں کے وہ بھی محض گھڑی دوگھڑی کے لیے۔
اسلام آباد کے خوبصورت موسم میں چودہ اگست کے رنگوں اور چہل پہل کی بہار ہمیشہ کی طرح اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی۔ برسوں سےسب کچھ ویسا کا ویسا ہی تھا۔۔۔بچوں کی خوشی۔۔۔سڑکوں،گلیوں بازاروں اور گھروں میں پورے جوش وخروش سےجابجا لہراتے قومی پرچم،آتش بازی دیکھنے اور خود اپنے طور پر چراغاں اور آتش بازی کے لیے رات کاانتظار۔
تہذیب بیکرز پرلوگوں کا ایسا جمِ غفیر کہ لگتا تھا آج سب کچھ مفت میں مل رہا ہے۔اونچی آواز میں ملی نغموں کی مست کر دینے والی دھنوں میں سب کھنچے چلے آ رہے تھے۔بڑی بڑی گاڑیوں پر بڑے بڑے پرچم لہرا رہے تھے تو خواتین برانڈڈ اور بڑے چھوٹے بچے ہرے اور سفید کپڑے پہن کر شاداں تھے۔اندربیکری کا اسٹاف سبز رنگ کی ٹی شرٹ میں سرو کر رہا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ۔۔" ہم ہیں پاکستانی" ۔ سارے دن کا تو پتہ نہیں لیکن رات 10 بجے کے قریب یہ عالم یہ تھا کہ کھانے پینے کے سب کاؤنٹر خالی ہو چکے تھے۔صرف گرما گرم پزے دھڑا دھڑ بک رہے تھے اور رش کا عالم یہ تھا کہ ہر سو کے بعد ٹوکن نمبر دوبارہ صفر سے شروع کیا جاتا اور نہ جانے کتنے ہزار ہو چکے تھا۔۔تہذیب کی خاص آئس کریم پر خوب رش تھا اور بغیر قطار کےسب خاص وعام پاکستانیوں میں دھکے دیتے ہوئے ٹھنڈ ڈالنے کے لیے جدودجہد جاری تھی اور شدید رش کے پیشِ نظر صرف ایک اسکوپ سے زیادہ نہیں دیا جا رہا تھا۔سب خوش تھے۔۔"اپنے خرچے پر"
ایک طرف یہ عالم تھا تو دوسری طرف محض چند قدم کے فاصلے پر کچھ گھروں میں محرم کی سی اداسی اور شام غریباں کی سی شام اتری تھی۔کہیں وقفے وقفے سے آنے والے پٹاخوں کی آوازیں ماں کا سینہ برچھی کی طرح جھید کر رکھ دیتیں تو کسی گھر میں چھوٹے چھوٹے معصوم خوفزدہ بچے نادیدہ قاتل سے سہم کر گھر کے درودیوار میں پناہ لیتےجس کی دہلیز اُن کے باپ کے لیے جائے مقتل ثابت ہوئی۔
یوم آزادی کے جوش وخروش اور گہما گمہی سے چند روز پہلے کی ان بےربط کہانیوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن جانے کیوں پھر بھی جشن آزادی کا ذکر ان کے بنا ادھورا سا دکھتا ہے۔
اگست کے شروع کا ذکر ہے کئی روز کے حبس کے بعد رات کی طوفانی بارش سے اسلام آباد کے ندی نالے زوروشور سے بہنے لگے۔ صبح کے وقت موسم بہت خوشگوار تھا ہلکی بارش کا لطف اٹھانے سب بچے گھروں سے نکل آئے۔ بارہ سالہ سعد خلافِ معمول جلدی اٹھ گیا اور تیزی سے ناشتہ کر کے باہر کی طرف بھاگا۔آج جانے کیا بات تھی کہ سعد کو بارش اچھی لگ رہی تھی ورنہ وہ تو ہمیشہ سے بارش اور پانی سے خوف کھاتا تھا۔ باہر چند دوست مل گئے اور باتوں باتوں میں پتہ ہی نہ چلا کہ سب اپنے گھر سےکچھ دور ایک پل پر موجود تھے۔گھر کے قریب اس پل سے روز تو گزرنا ہوتا تھا کہ اس کے دوسرے سرے پر ساتھ ہی اپنا اسکول بھی تھا۔ پل سے جھانکا تو نیچے بہتے چھوٹے سے نالے میں پانی اس قدر تیزی سے بہہ رہا تھا جیسے کہ کسی دریا کا بند ٹوٹ گیا ہو۔ سال بھر بڑے بھائی نےآگے جانے سے منع کیا لیکن کچھ بےپروا دوست نیچے اتر کر نالے کو نہ صرف قریب سے دیکھنا چاہتے تھے بلکہ کسی خطرے کا احساس کیے بنا پار بھی کرنا چاہا۔۔سعد نے پہلےتو آگے بڑھنے سے انکار کر دیا لیکن جب دوستوں کا ایڈونچر دیکھا تو ان کے ہمت بندھانے پر ہاتھ پکڑ کر پتھروں پر چند قدم چلا کہ بہتے پانی کے خوف نے قدم روک دئیے۔دوستوں سے ہاتھ چھوٹنا تھا کہ پانی کاخوفناک ریلہ آیا تو اگے جانے والے دونوں دوستوں کے ساتھ خود بھی لمحوں میں پانی میں جا گرا اور دیکھتے ہی دیکھتے بےرحم پانی اسے بہا لے گیا اور کنارے پر کھڑا بھائی چیختا رہ گیا۔ اتنے میں قریبی ٹال سے کچھ نیک لوگوں نے پانی میں چھلانگ لگائی اور کسی نہ کسی طرح آگے جانے والے دو دوستوں کونکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن سعد نے نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔بہت سے لوگ پہلے سے پل پر بپھرے پانی کا تماشا دیکھنے کھڑے تھے جہاں بہت سے لوگوں نے پانی میں چھلانگیں لگا دیں وہیں میڈیا میں بریگنگ نیوز کی پٹی بھی بن کر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اُدھر آنے والے سانحے سے بےخبر ماں پر عجیب گھبراہٹ طاری تھی۔اس کے یہی دو بیٹے اور ایک بڑی بیٹی تھی۔ اور بچوں کے اتنا بڑا ہونے کے باوجود وہ انہیں اپنے سےدور نہ جانے دیتی اور نہ ہی کبھی اُن کوگھر پر تنہا چھوڑا۔ اپنی کم ہمتی پر اکثر گھر والوں کی باتیں سننا پڑتیں۔ کسے پتہ تھا کہ ماں کے یہ بےنام خدشے کبھی سفاک حقیقت کا روپ دھار لیں گے۔اس پہلے لمحے کی کہانی بیان سے باہر سے جب بھائی نے آ کر ماں کو خبر دی کہ بھائی پانی میں گم ہو گیا۔ قصہ مختصر طوفانی بارش میں بچہ ہزار کوشش کے باوجود نہ ملا۔ اگلے تین روز بارش تو رُکی رہی لیکن لاحاصل تلاش ختم نہ ہوئی۔ اسلام آباد سے آگے سواں کیمپ تک بڑے بڑے جال ڈال دئیے گئے لیکن سب بےسود۔ یہ تین دن سب گھر والوں اور ماں کے لیے امید اور وسوسوں کے مابین پل پل مرنے کے برابر تھے۔انہی دنوں کسی کے کہنے پر ماں نے آدھی رات کو اٹھ کر اللہ کے نام کا ورد کیا اور سو گئی۔ صبح آنکھ رات کے عجیب سے خواب کی گھبراہٹ سے کھلی کہ جیسے سعد کسی اندھیری جگہ قید ہے اور مدد کے لیے بلا رہا ہے۔ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ کسی ناقابلِ شناخت لاش کے ملنےکی اطلاع آئی۔ نالے کے کنارے اگی بےترتیب جھاڑیوں اور ریت مٹی کے ڈھیر میں دبی اس مسخ شدہ لاش کا ایک ہاتھ کسی کو اتفاقاً دکھائی دے گیا۔ صرف ہاتھ سے باپ نے جانے کس طرح پہچانا اور یوں وہ ہنستا چہرہ کسی کی نظر میں آئے بغیر تابوت میں بند مٹی کے سپرد ہو گیا۔
دوسرا واقعہ ایک عام اور معمول کی "ٹارگٹ کلنگ " کا شاخسانہ دکھتا ہے۔ جس میں ایک جی دار اپنے گھر کے دروازے پر گھات لگائے ہوئے قاتلوں کا نشانہ بنا۔اُس کے چھوٹے بچے چیختے رہے اور آڑے وقت میں ساتھ دینے والا وفادار کتا بندھا رہ گیا۔ ہر روز کتنی ہی ناگہانی اموات اور قتل وغارت گری کی خبریں ہمارے سامنے سے گزرتی ہیں لیکن جو واقعات اپنے شہر میں پیش آئے ہوں ان کا احساس کچھ ایسے ہوتا ہے جیسے اپنے گھر اپنے آپ پر یہ سانحہ گزرا ہو۔ اللہ پاک ہم سب کو ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھے اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ ہر مشکل وقت کا جئرات سے سامنا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخری بات
موت برحق ہے۔ جو آیا اُس نے جانا ہی ہے۔ لیکن"کچھ لوگ زندہ ہوتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں اور کچھ مر کر زندہ ہوتے ہیں"۔۔۔ اور کچھ اس ایک مختصر سی زندگی میں ہی اتنے سفر طے کر لیتے ہیں کہ زندگی اُن کے پاؤں سے لپٹی چلی جاتی ہے اور راستوں کی دھول مقدر کا ستارہ بن کر جگمگانے لگتی ہے۔
یہ زندگی کے میلے۔۔۔میلہ ۔۔۔محمدرفیع
زندگی آزادی کا نام ہے ۔۔۔۔ کسی وجود کی گہری پرتوں میں محفوظ و مطمئن رہنے کے بعد ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی سے نکل کر رنگ و روشنی میں جیتے جاگتے جسم کے سانس لینے کی آزادی اور پھر مقررہ سانسوں کے حساب کتاب کے بعد اپنے ہی جسم کی گھٹن سے نجات پا کر کائنات کی بےکراں وسعتوں میں دربدری کی آزادی۔
کیا ہے یہ انسان ؟ اور کیا ہے یہ سب گورکھ دھندا؟ آزادی کی طلب اسے قید سے فرار کی خواہش پر اکساتی ہےتو ایک چھوٹی قید سے بڑی قید میں جانا اس کی جبلت اور فطرت میں شامل ہے۔
زندگی اسی کا نام ہے اور زندگی کے ہر رنگ کو سمجھنا اور برتنا نہ صرف اپنی زندگی سہل بناتا ہے بلکہ انسان دوسروں کے لیے بھی آسانیوں کا باعث بنتا ہے۔آزادی کا مفہوم خوشی ہے لیکن خوشی زندگی سے عبارت ہے ۔جب تک زندگی رہے خوشی لینے کا خوشی پانے اور خوشی دینے کا احساس بھی زندہ رہتا ہے۔ یہ صرف سانس کے آنے جانے کا کھیل ہے۔ سانس کے ساتھ آس کا رشتہ ہی زندگی کے رنگوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ جیسے ہی روح و جسم کی ڈور ٹوٹتی ہے۔۔۔کائنات میں بکھرا ہر رنگ ہر کہانی اور ہر تصویر تو اسی جگہ موجود رہتی ہے بس ہمارا اپنا ربط اس سے ختم ہو جاتا ہے دوسرے لفظ میں ہم اس تصویر کے چوکھٹے میں سے نکل جاتے ہیں۔ اس وسیع وعریض تصویر میں ہماری حیثیت ایک ذرے سے بھی کم تر ہے اور سوائے ہماری اپنی ذات کے کسی کو اس کمی کا احساس نہیں ہوتا سوائے ہمارے اپنے پیاروں کے وہ بھی محض گھڑی دوگھڑی کے لیے۔
اسلام آباد کے خوبصورت موسم میں چودہ اگست کے رنگوں اور چہل پہل کی بہار ہمیشہ کی طرح اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی۔ برسوں سےسب کچھ ویسا کا ویسا ہی تھا۔۔۔بچوں کی خوشی۔۔۔سڑکوں،گلیوں بازاروں اور گھروں میں پورے جوش وخروش سےجابجا لہراتے قومی پرچم،آتش بازی دیکھنے اور خود اپنے طور پر چراغاں اور آتش بازی کے لیے رات کاانتظار۔
تہذیب بیکرز پرلوگوں کا ایسا جمِ غفیر کہ لگتا تھا آج سب کچھ مفت میں مل رہا ہے۔اونچی آواز میں ملی نغموں کی مست کر دینے والی دھنوں میں سب کھنچے چلے آ رہے تھے۔بڑی بڑی گاڑیوں پر بڑے بڑے پرچم لہرا رہے تھے تو خواتین برانڈڈ اور بڑے چھوٹے بچے ہرے اور سفید کپڑے پہن کر شاداں تھے۔اندربیکری کا اسٹاف سبز رنگ کی ٹی شرٹ میں سرو کر رہا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ۔۔" ہم ہیں پاکستانی" ۔ سارے دن کا تو پتہ نہیں لیکن رات 10 بجے کے قریب یہ عالم یہ تھا کہ کھانے پینے کے سب کاؤنٹر خالی ہو چکے تھے۔صرف گرما گرم پزے دھڑا دھڑ بک رہے تھے اور رش کا عالم یہ تھا کہ ہر سو کے بعد ٹوکن نمبر دوبارہ صفر سے شروع کیا جاتا اور نہ جانے کتنے ہزار ہو چکے تھا۔۔تہذیب کی خاص آئس کریم پر خوب رش تھا اور بغیر قطار کےسب خاص وعام پاکستانیوں میں دھکے دیتے ہوئے ٹھنڈ ڈالنے کے لیے جدودجہد جاری تھی اور شدید رش کے پیشِ نظر صرف ایک اسکوپ سے زیادہ نہیں دیا جا رہا تھا۔سب خوش تھے۔۔"اپنے خرچے پر"
ایک طرف یہ عالم تھا تو دوسری طرف محض چند قدم کے فاصلے پر کچھ گھروں میں محرم کی سی اداسی اور شام غریباں کی سی شام اتری تھی۔کہیں وقفے وقفے سے آنے والے پٹاخوں کی آوازیں ماں کا سینہ برچھی کی طرح جھید کر رکھ دیتیں تو کسی گھر میں چھوٹے چھوٹے معصوم خوفزدہ بچے نادیدہ قاتل سے سہم کر گھر کے درودیوار میں پناہ لیتےجس کی دہلیز اُن کے باپ کے لیے جائے مقتل ثابت ہوئی۔
یوم آزادی کے جوش وخروش اور گہما گمہی سے چند روز پہلے کی ان بےربط کہانیوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن جانے کیوں پھر بھی جشن آزادی کا ذکر ان کے بنا ادھورا سا دکھتا ہے۔
اگست کے شروع کا ذکر ہے کئی روز کے حبس کے بعد رات کی طوفانی بارش سے اسلام آباد کے ندی نالے زوروشور سے بہنے لگے۔ صبح کے وقت موسم بہت خوشگوار تھا ہلکی بارش کا لطف اٹھانے سب بچے گھروں سے نکل آئے۔ بارہ سالہ سعد خلافِ معمول جلدی اٹھ گیا اور تیزی سے ناشتہ کر کے باہر کی طرف بھاگا۔آج جانے کیا بات تھی کہ سعد کو بارش اچھی لگ رہی تھی ورنہ وہ تو ہمیشہ سے بارش اور پانی سے خوف کھاتا تھا۔ باہر چند دوست مل گئے اور باتوں باتوں میں پتہ ہی نہ چلا کہ سب اپنے گھر سےکچھ دور ایک پل پر موجود تھے۔گھر کے قریب اس پل سے روز تو گزرنا ہوتا تھا کہ اس کے دوسرے سرے پر ساتھ ہی اپنا اسکول بھی تھا۔ پل سے جھانکا تو نیچے بہتے چھوٹے سے نالے میں پانی اس قدر تیزی سے بہہ رہا تھا جیسے کہ کسی دریا کا بند ٹوٹ گیا ہو۔ سال بھر بڑے بھائی نےآگے جانے سے منع کیا لیکن کچھ بےپروا دوست نیچے اتر کر نالے کو نہ صرف قریب سے دیکھنا چاہتے تھے بلکہ کسی خطرے کا احساس کیے بنا پار بھی کرنا چاہا۔۔سعد نے پہلےتو آگے بڑھنے سے انکار کر دیا لیکن جب دوستوں کا ایڈونچر دیکھا تو ان کے ہمت بندھانے پر ہاتھ پکڑ کر پتھروں پر چند قدم چلا کہ بہتے پانی کے خوف نے قدم روک دئیے۔دوستوں سے ہاتھ چھوٹنا تھا کہ پانی کاخوفناک ریلہ آیا تو اگے جانے والے دونوں دوستوں کے ساتھ خود بھی لمحوں میں پانی میں جا گرا اور دیکھتے ہی دیکھتے بےرحم پانی اسے بہا لے گیا اور کنارے پر کھڑا بھائی چیختا رہ گیا۔ اتنے میں قریبی ٹال سے کچھ نیک لوگوں نے پانی میں چھلانگ لگائی اور کسی نہ کسی طرح آگے جانے والے دو دوستوں کونکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن سعد نے نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔بہت سے لوگ پہلے سے پل پر بپھرے پانی کا تماشا دیکھنے کھڑے تھے جہاں بہت سے لوگوں نے پانی میں چھلانگیں لگا دیں وہیں میڈیا میں بریگنگ نیوز کی پٹی بھی بن کر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اُدھر آنے والے سانحے سے بےخبر ماں پر عجیب گھبراہٹ طاری تھی۔اس کے یہی دو بیٹے اور ایک بڑی بیٹی تھی۔ اور بچوں کے اتنا بڑا ہونے کے باوجود وہ انہیں اپنے سےدور نہ جانے دیتی اور نہ ہی کبھی اُن کوگھر پر تنہا چھوڑا۔ اپنی کم ہمتی پر اکثر گھر والوں کی باتیں سننا پڑتیں۔ کسے پتہ تھا کہ ماں کے یہ بےنام خدشے کبھی سفاک حقیقت کا روپ دھار لیں گے۔اس پہلے لمحے کی کہانی بیان سے باہر سے جب بھائی نے آ کر ماں کو خبر دی کہ بھائی پانی میں گم ہو گیا۔ قصہ مختصر طوفانی بارش میں بچہ ہزار کوشش کے باوجود نہ ملا۔ اگلے تین روز بارش تو رُکی رہی لیکن لاحاصل تلاش ختم نہ ہوئی۔ اسلام آباد سے آگے سواں کیمپ تک بڑے بڑے جال ڈال دئیے گئے لیکن سب بےسود۔ یہ تین دن سب گھر والوں اور ماں کے لیے امید اور وسوسوں کے مابین پل پل مرنے کے برابر تھے۔انہی دنوں کسی کے کہنے پر ماں نے آدھی رات کو اٹھ کر اللہ کے نام کا ورد کیا اور سو گئی۔ صبح آنکھ رات کے عجیب سے خواب کی گھبراہٹ سے کھلی کہ جیسے سعد کسی اندھیری جگہ قید ہے اور مدد کے لیے بلا رہا ہے۔ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ کسی ناقابلِ شناخت لاش کے ملنےکی اطلاع آئی۔ نالے کے کنارے اگی بےترتیب جھاڑیوں اور ریت مٹی کے ڈھیر میں دبی اس مسخ شدہ لاش کا ایک ہاتھ کسی کو اتفاقاً دکھائی دے گیا۔ صرف ہاتھ سے باپ نے جانے کس طرح پہچانا اور یوں وہ ہنستا چہرہ کسی کی نظر میں آئے بغیر تابوت میں بند مٹی کے سپرد ہو گیا۔
دوسرا واقعہ ایک عام اور معمول کی "ٹارگٹ کلنگ " کا شاخسانہ دکھتا ہے۔ جس میں ایک جی دار اپنے گھر کے دروازے پر گھات لگائے ہوئے قاتلوں کا نشانہ بنا۔اُس کے چھوٹے بچے چیختے رہے اور آڑے وقت میں ساتھ دینے والا وفادار کتا بندھا رہ گیا۔ ہر روز کتنی ہی ناگہانی اموات اور قتل وغارت گری کی خبریں ہمارے سامنے سے گزرتی ہیں لیکن جو واقعات اپنے شہر میں پیش آئے ہوں ان کا احساس کچھ ایسے ہوتا ہے جیسے اپنے گھر اپنے آپ پر یہ سانحہ گزرا ہو۔ اللہ پاک ہم سب کو ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھے اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ ہر مشکل وقت کا جئرات سے سامنا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخری بات
موت برحق ہے۔ جو آیا اُس نے جانا ہی ہے۔ لیکن"کچھ لوگ زندہ ہوتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں اور کچھ مر کر زندہ ہوتے ہیں"۔۔۔ اور کچھ اس ایک مختصر سی زندگی میں ہی اتنے سفر طے کر لیتے ہیں کہ زندگی اُن کے پاؤں سے لپٹی چلی جاتی ہے اور راستوں کی دھول مقدر کا ستارہ بن کر جگمگانے لگتی ہے۔
یہ زندگی کے میلے۔۔۔میلہ ۔۔۔محمدرفیع
یہ زندگی کے میلے
دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے!!
دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے!!
اک دن پڑے گا جانا
کیا وقت کیا زمانہ
کوئی نہ ساتھ دے گا
سب کچھ یہیں رہے گا
جائیں گے ہم اکیلے
کیا وقت کیا زمانہ
کوئی نہ ساتھ دے گا
سب کچھ یہیں رہے گا
جائیں گے ہم اکیلے
دنیا ہے موجِ دریا
قطرے کی زندگی کیا
پانی میں مل کے پانی
انجام یہ کہ پانی
دم بھر کو سانس لے لے
قطرے کی زندگی کیا
پانی میں مل کے پانی
انجام یہ کہ پانی
دم بھر کو سانس لے لے
ہوں گی یہیں بہاریں
اُلفت کی یادگاریں
بگڑے گی اور چلے گی
دنیا یہیں رہے گی
ہوں گے یہی جھمیلے
اُلفت کی یادگاریں
بگڑے گی اور چلے گی
دنیا یہیں رہے گی
ہوں گے یہی جھمیلے
یہ زندگی کے میلے
دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
۔۔۔۔
"،یہ زندگی کے میلے،،"۔۔اقتباس۔ تارڑ نامہ 2 ازمستنصر حسین تارڑ
بچپن میں فلمی گانے ہمارے کچے دماغوں اور کچے بدنوں پر بہت اثر کرتے تھے۔ کوئی فلمی گانا سنا تو خواہ مخواہ اور پہروں اداس رہے یا بے وجہ خوش ہو گئے۔ان دنوں محمد رفیع کا گایا ایک گیت ،،یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گئے،،
افسوس ہم نہ ہوں گے
بے حد پاپولر تھا۔اور عام لوگوں کے علاوہ یہ فقیر حضرات کا بھی بے حد پسندیدہ تھا۔ جو اسے گلی گلی الاپتے دست سوال دراز کرتے تھے تب مجھے یہ گیت اچھا لگتا تھا لیکن ایک بات سمجھ نہ آتی تھی۔ کہ یہ تو درست ہے کہ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گئے لیکن آخر میں یہ کیا ہے کہ افسوس ہم نہ ہوں گئے۔بھلا ہم کیوں نہ ہوں گے ۔ اگر گھر نہیں ہوں گے سکول میں ہوں گے کہیں نہ کہیں تو ہوں گے تو افسوس کاہے کا
ابھی تک یہ احساس نہ ہوا تھا کہ یہ زندگی خوبصورت اور مزے کی زندگی بالاآخر اختتام کو پہنچتی ہے۔ انسان ایک چارپائی پر رخصت ہو جاتا ہےاور میلے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔
بہترین اور دلخراش تحریر
جواب دیںحذف کریںآج کل لوگ ہر موقعہ پر انجوئے کرنے کے بہانہ ڈھونڈ تے ہیں یہ اللہ کا شکر ادا کرنے دو رکعت نماز پرھنے کا سوچتے بھی نہیں جب کہ ہمارے اسلام میں دونوں عیدین میں نماز سے عید شروع ہوتی ہے اور غریبوں کی کبھی زکات تو کبھی فطرے اور قربانی کے گوشت میں حصہ مقرر ہوتا ہے اسی طرح آزادی کے دن بھی ہمیں چاہئے کہ اپنی خوشی میں گریب کے دکھدرد کا دھیان رکھے ۔ اللہ ہمیں عمل صالح کی توفیق دے ۔بہت کوب لکھتی ہیں آپ ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں