ہمارے لیے ہماری زندگی کہانی ہمارے ماں باپ سے شروع ہوتی ہے۔ہم کبھی نہیں سوچتے کہ زندگی کی پہلی سانس ہم کس کے ساتھ تھے؟کن مہربان ہاتھوں نے اُس لمحے نہایت احتیاط سے ہمیں اپنی آغوش میں لیا؟ہمارے بدن کو کس لمس کی گرمی نے لباس عطا کیا؟ یہ سب فضولیات سوچنےکا وقت کہاں اورکیوں۔ ہاں ہم میں سے اکثر اپنی جنم بھومی کے بارے میں ضرور حساس ہوتے ہیں اور اکثر جانتے بھی ہیں شاید اس لیے کہ یہ ہماری پیدائش کی سند پر تحریر بھی ہوتا ہے۔جیسے جیسے عمر گزرتی ہے جانے کیوں اس جگہ سے ان دیکھی سی اُنسیت محسوس ہوتی ہے چاہے بعد میں اُس جگہ اُس علاقے سے کوئی تعلق بھی نہ رہا ہو۔اپنے آبائی علاقوں سے باہر پیدا ہونے والوں کے لیے تو خاص طور پراپنی جائے پیدائش بہت اہمیت رکھتی ہے اور برصغیر میں بسنے والوں کے بچوں کی یورپ یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں پیدائش ہو تو کیا ہی بات ہے کہ ہمیشہ کے لیے وہاں کی شہریت اور اس سے متعلقہ فوائد بونس میں ملتے ہیں۔ اسی طرح قیام پاکستان کی گولڈن جوبلی یعنی پچاس سال بھی کب کے ہو گئے لیکن ہمارے بزرگوں کی آنکھیں ہندوستان کے گلی محلوں کی یادوں اور دوستوں کی باتیں کرتے ہوئے اس طرح چمکنے لگتی ہیں جیسے کل ہی کی بات ہو۔
دنوں بلکہ سالوں کے الٹ پھیر میں ایک عمر ایک بھی آتی ہے جس میں کچھ گھنٹوں پہلے کی بات یاد نہیں رہتی اور برسوں پرانی بھولی بسری یادوں کی جزئیات تک یوں آنکھ کے پردوں پر رقص کرتی ہیں کہ محسوس کرنے والی نگاہ بےساختہ انہیں جذب کرنے کو مچلتی ہے۔بےشک یہ "ارذلِ عمر" ہے جس میں علم والے بھی بےعلم ہو جاتے ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ عمر کے اس پڑاؤ سے پیچھے رہنے والے ان کے تجرباتِ زندگی سے کیا کچھ کشید کرتے ہیں۔
برسوں پہلےہجرت کر کے آنے والے ہمارے بڑے اگر متحدہ ہندوستان میں ہندو سکھوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے کے قصے سناتے ہیں،عام معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی رواداری کی بات کرتے ہیں تو قیام پاکستان سے پہلے موجودہ پاکستان میں بھی صورتِ حال اس سے مختلف نہ تھی۔ہر شہر میں ہندوؤں اور سکھوں کے محلے اور ان کے بنائے ہوئے گھر آج بھی قابلِ رہائش ہیں۔دارالحکومت اسلام آباد سے متصل شہر راولپنڈی کی اِس حوالے سے بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔ راولپنڈی شہر نہ صرف قیام پاکستان سے پہلے کی ان گنت ان کہی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے بلکہ1947 کے بعد ہماری اس خونی تاریخ کا بھی عینی گواہ ہے جس سے رسنے والا لہو آج بھی دہائی دیتا ہے کہ اجل کی گرفت سے قطع نظر وہ ہاتھ اُسی طرح بےباک اور آزاد ہیں۔
راولپنڈی کا کمپنی باغ پاکستان کے قیام کے بعد جو 16 اکتوبر 1951 کو پہلے منتخب وزیرِاعظم خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 'لیاقت باغ" کے نام سے پکارا جاتا ہے اس کے صدر دروازے پر 27 دسمبر 2007 کو پہلی منتخب خاتون وزیرِاعظم محترمہ بےنظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ اس سے پیشتر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں 4 اپریل 1979 کو پاکستان کےمنتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے کے فیصلے کے نتیجے میں پھانسی دے دی گئی۔محترمہ بےنظیر بھٹو جناب ذوالفقارعلی بھٹو کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔
سن سینتالیس سے پہلے لیاقت باغ شہر سے کچھ ہٹ کر تھا۔راولپنڈی شہرکی حدود میں کرتارپورہ،کوہاٹی بازار،بھابڑا بازار،پرانا قلعہ،صرافہ بازار،موتی بازار،بوہڑ بازار،راجہ بازار،موہن پورہ اور نانک پورہ سکھ اور ہندو تاجروں کے اہم علاقے تھے۔اس کے بعد "نالہ لئی" شہر اور مضافات کو الگ کرتا تھا۔ یہاں سکھوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ ہندو اورمسلمان خاندان بھی مل جُل کر رہتے تھے۔انہی محلوں میں بوہڑ بازار کا نام اگرچہ اس علاقے میں "بوہڑ" کے بڑے سےدرخت کی مناسبت سے پڑا لیکن اس کی اصل وجۂ شہرت یہاں دواؤں کا کاروبار بھی تھا اور آج بھی بوہڑ بازار دواؤں کی مرکزی مارکیٹ ہے۔
فیروزہ دائی بوہڑ بازار میں رہنے والے ایک مسلمان خاندان کی بیٹی تھیں جو کم عمری میں شادی کے بعد جلد ہی بیوہ ہو کر بھائی کے گھر آ گئیں ۔کچھ عرصے بعد بھائی بھی چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر چل بسا تو آبائی گھر اور زمین جائداد کے معاملات کی ذمہ داری ان پر آن پڑی۔ بڑی ہمت والی خاتون تھیں۔ کاروباری امور کے ساتھ ساتھ دائی کا سرٹیفیکیٹ کورس بھی کیا۔غریبوں سے پیسے نہیں لیتی تھیں اور سب کےدکھ سکھ میں شریک ہونے سے رفتہ رفتہ نام بنتا گیا۔آس پاس سکھوں اور ہندوؤں کے گھر تھے۔مذہبی تفاوت سے پرے بچے کی ولادت کے کٹھن مرحلے میں فیروزہ دائی کا کردار عام لوگوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا اور انہیں یکساں طور پر عزت وتوقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔
فیروزہ دائی ایک نیک دل ہندو ڈاکٹر کے ساتھ مل کر کام کرتی تھیں۔وہ ڈاکٹر ہر سال اپنے خاندان کے ساتھ گرمیاں گزارنے ہندوستان کے پُرفضا مقام شملہ جایا کرتا اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے چابیاں اپنی معتمد فیروزہ کے سپرد کر دیتا۔ سال 1947 کی بات ہے کہ آنے والے کسی خطرے سے بےخبر ڈاکٹر معمول کے مطابق شملہ چلا گیا۔ فیروزہ ہمیشہ کی طرح اس دوران اس کے گھر آ کر رہنے لگی۔ وہ اُس کی اجازت سے اُس کا چوکا (چولہا) استعمال کرتی اور اپنا کھانا بھی بناتی۔ انہی دنوں سامنے والے گھر میں رہنے والے ہندو پڑوسی نے ڈاکٹر کو خط لکھا کہ ایک ملیچھ عورت آپ کی رسوئی پلید کر رہی ہے۔ڈاکٹر نے فوراً فیروزہ کو ییغام بھیجا کہ گھر میں کام کرتے ہوئے پردے گرا دیا کرو یا کھڑکی بند کر دو کہ کوئی دیکھے اور نہ ہی کسی کو بات کرنے کا موقع ملے۔ فیروزہ ہر سال ڈاکٹر کے لیے اس کے گھر پر رہ کر آم کااچار ڈالتی جس کے لیے پیسے ڈاکٹر دے کرجاتا۔اس سال بھی اس نے کئی مرتبان اچار کے تیار کیے۔اسی دوران تقسیمِ ہندوستان کے فسادات پھوٹ پڑے اور اس ہندو خاندان کو کبھی واپس آنا نصیب نہ ہوا۔اچار کا تو جانے کیا بنا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انتظامیہ نے آکر اس مکان پر اپنے تالے لگا دئیے۔ فیروزہ کے قریبی احباب نے گھر پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اس پر بہت زور ڈالالیکن اس کی امانت داری نے گوارا نہ کیا۔نہ صرف گھر کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا بلکہ اپنے ہاتھ سے ڈالے گئے اچار کو بھی چھوڑ دیا اور بعد میں بند گھر کی وجہ سے صرف اچار کی فکر ہی کرتی رہیں۔۔اسی محلے میں مسلمانوں کے گھر کم اور ہندو سکھوں کے زیادہ تھے۔ فیروزہ کے گھر والے اپنے پڑوسیوں کی ممکنہ دشمنی کے خوف سے آبائی گھر چھوڑ کر مسلمانوں کے محلے میں منتقل ہونے لگے تو سکھ پڑوسی ڈھال بن گئے اور کہا کہ واپس آ جائیں کوئی ہمارے اوپر سے گزر کر ہی آپ تک پہنچ سکتا ہے۔
اس کے بعد کون جانے کیا ہوا۔ جہاں ایک نظریے کی بنیاد پر قیام پاکستان کا معجزہ رونما ہوا وہیں پیار محبت، دوستی اور بھائی چارے کے مفہوم بھی بدل گئے۔ برسوں ساتھ رہنے والے، اپنے اپنے مذہب پر کاربند رہتے ہوئے دوسرے کے عقیدے کا احترام کرنے والے، ایک دوسرے کےخون کے پیاسے ہو گئے۔۔جس کا جہاں داؤ لگا اُس نے دوست کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ ہندوستان سے لٹے پُٹے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے تو پاکستان میں رہنے والے ہندو سکھ اپنی جانیں بچا کر ہندوستان چلے گئے۔بچپن کی محبتیں خواب ہوئیں پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندو مسلم دشمنی کی ایسی داغ بیل پڑی کہ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ہندو رہنماؤں کو پاکستان کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور لاکھ کوشش کے باوجود اُن کا بغض اور کینہ روز بروز فساد برپا کیے رہتا ہے۔
اللہ ہمارے وطن کو دُشمن کے شر سے بچائے۔ہمیں اپنے پرائے کی پہچان کا ہنر عطا فرمائے اور علم وعمل کے ہر میدان میں دُشمن کے مقابلے میں فتح مبین سے ہمکنار کرے۔ آمین۔
دنوں بلکہ سالوں کے الٹ پھیر میں ایک عمر ایک بھی آتی ہے جس میں کچھ گھنٹوں پہلے کی بات یاد نہیں رہتی اور برسوں پرانی بھولی بسری یادوں کی جزئیات تک یوں آنکھ کے پردوں پر رقص کرتی ہیں کہ محسوس کرنے والی نگاہ بےساختہ انہیں جذب کرنے کو مچلتی ہے۔بےشک یہ "ارذلِ عمر" ہے جس میں علم والے بھی بےعلم ہو جاتے ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ عمر کے اس پڑاؤ سے پیچھے رہنے والے ان کے تجرباتِ زندگی سے کیا کچھ کشید کرتے ہیں۔
برسوں پہلےہجرت کر کے آنے والے ہمارے بڑے اگر متحدہ ہندوستان میں ہندو سکھوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے کے قصے سناتے ہیں،عام معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی رواداری کی بات کرتے ہیں تو قیام پاکستان سے پہلے موجودہ پاکستان میں بھی صورتِ حال اس سے مختلف نہ تھی۔ہر شہر میں ہندوؤں اور سکھوں کے محلے اور ان کے بنائے ہوئے گھر آج بھی قابلِ رہائش ہیں۔دارالحکومت اسلام آباد سے متصل شہر راولپنڈی کی اِس حوالے سے بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔ راولپنڈی شہر نہ صرف قیام پاکستان سے پہلے کی ان گنت ان کہی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے بلکہ1947 کے بعد ہماری اس خونی تاریخ کا بھی عینی گواہ ہے جس سے رسنے والا لہو آج بھی دہائی دیتا ہے کہ اجل کی گرفت سے قطع نظر وہ ہاتھ اُسی طرح بےباک اور آزاد ہیں۔
راولپنڈی کا کمپنی باغ پاکستان کے قیام کے بعد جو 16 اکتوبر 1951 کو پہلے منتخب وزیرِاعظم خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 'لیاقت باغ" کے نام سے پکارا جاتا ہے اس کے صدر دروازے پر 27 دسمبر 2007 کو پہلی منتخب خاتون وزیرِاعظم محترمہ بےنظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ اس سے پیشتر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں 4 اپریل 1979 کو پاکستان کےمنتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے کے فیصلے کے نتیجے میں پھانسی دے دی گئی۔محترمہ بےنظیر بھٹو جناب ذوالفقارعلی بھٹو کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔
سن سینتالیس سے پہلے لیاقت باغ شہر سے کچھ ہٹ کر تھا۔راولپنڈی شہرکی حدود میں کرتارپورہ،کوہاٹی بازار،بھابڑا بازار،پرانا قلعہ،صرافہ بازار،موتی بازار،بوہڑ بازار،راجہ بازار،موہن پورہ اور نانک پورہ سکھ اور ہندو تاجروں کے اہم علاقے تھے۔اس کے بعد "نالہ لئی" شہر اور مضافات کو الگ کرتا تھا۔ یہاں سکھوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ ہندو اورمسلمان خاندان بھی مل جُل کر رہتے تھے۔انہی محلوں میں بوہڑ بازار کا نام اگرچہ اس علاقے میں "بوہڑ" کے بڑے سےدرخت کی مناسبت سے پڑا لیکن اس کی اصل وجۂ شہرت یہاں دواؤں کا کاروبار بھی تھا اور آج بھی بوہڑ بازار دواؤں کی مرکزی مارکیٹ ہے۔
فیروزہ دائی بوہڑ بازار میں رہنے والے ایک مسلمان خاندان کی بیٹی تھیں جو کم عمری میں شادی کے بعد جلد ہی بیوہ ہو کر بھائی کے گھر آ گئیں ۔کچھ عرصے بعد بھائی بھی چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر چل بسا تو آبائی گھر اور زمین جائداد کے معاملات کی ذمہ داری ان پر آن پڑی۔ بڑی ہمت والی خاتون تھیں۔ کاروباری امور کے ساتھ ساتھ دائی کا سرٹیفیکیٹ کورس بھی کیا۔غریبوں سے پیسے نہیں لیتی تھیں اور سب کےدکھ سکھ میں شریک ہونے سے رفتہ رفتہ نام بنتا گیا۔آس پاس سکھوں اور ہندوؤں کے گھر تھے۔مذہبی تفاوت سے پرے بچے کی ولادت کے کٹھن مرحلے میں فیروزہ دائی کا کردار عام لوگوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا اور انہیں یکساں طور پر عزت وتوقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔
فیروزہ دائی ایک نیک دل ہندو ڈاکٹر کے ساتھ مل کر کام کرتی تھیں۔وہ ڈاکٹر ہر سال اپنے خاندان کے ساتھ گرمیاں گزارنے ہندوستان کے پُرفضا مقام شملہ جایا کرتا اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے چابیاں اپنی معتمد فیروزہ کے سپرد کر دیتا۔ سال 1947 کی بات ہے کہ آنے والے کسی خطرے سے بےخبر ڈاکٹر معمول کے مطابق شملہ چلا گیا۔ فیروزہ ہمیشہ کی طرح اس دوران اس کے گھر آ کر رہنے لگی۔ وہ اُس کی اجازت سے اُس کا چوکا (چولہا) استعمال کرتی اور اپنا کھانا بھی بناتی۔ انہی دنوں سامنے والے گھر میں رہنے والے ہندو پڑوسی نے ڈاکٹر کو خط لکھا کہ ایک ملیچھ عورت آپ کی رسوئی پلید کر رہی ہے۔ڈاکٹر نے فوراً فیروزہ کو ییغام بھیجا کہ گھر میں کام کرتے ہوئے پردے گرا دیا کرو یا کھڑکی بند کر دو کہ کوئی دیکھے اور نہ ہی کسی کو بات کرنے کا موقع ملے۔ فیروزہ ہر سال ڈاکٹر کے لیے اس کے گھر پر رہ کر آم کااچار ڈالتی جس کے لیے پیسے ڈاکٹر دے کرجاتا۔اس سال بھی اس نے کئی مرتبان اچار کے تیار کیے۔اسی دوران تقسیمِ ہندوستان کے فسادات پھوٹ پڑے اور اس ہندو خاندان کو کبھی واپس آنا نصیب نہ ہوا۔اچار کا تو جانے کیا بنا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انتظامیہ نے آکر اس مکان پر اپنے تالے لگا دئیے۔ فیروزہ کے قریبی احباب نے گھر پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اس پر بہت زور ڈالالیکن اس کی امانت داری نے گوارا نہ کیا۔نہ صرف گھر کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا بلکہ اپنے ہاتھ سے ڈالے گئے اچار کو بھی چھوڑ دیا اور بعد میں بند گھر کی وجہ سے صرف اچار کی فکر ہی کرتی رہیں۔۔اسی محلے میں مسلمانوں کے گھر کم اور ہندو سکھوں کے زیادہ تھے۔ فیروزہ کے گھر والے اپنے پڑوسیوں کی ممکنہ دشمنی کے خوف سے آبائی گھر چھوڑ کر مسلمانوں کے محلے میں منتقل ہونے لگے تو سکھ پڑوسی ڈھال بن گئے اور کہا کہ واپس آ جائیں کوئی ہمارے اوپر سے گزر کر ہی آپ تک پہنچ سکتا ہے۔
اس کے بعد کون جانے کیا ہوا۔ جہاں ایک نظریے کی بنیاد پر قیام پاکستان کا معجزہ رونما ہوا وہیں پیار محبت، دوستی اور بھائی چارے کے مفہوم بھی بدل گئے۔ برسوں ساتھ رہنے والے، اپنے اپنے مذہب پر کاربند رہتے ہوئے دوسرے کے عقیدے کا احترام کرنے والے، ایک دوسرے کےخون کے پیاسے ہو گئے۔۔جس کا جہاں داؤ لگا اُس نے دوست کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ ہندوستان سے لٹے پُٹے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے تو پاکستان میں رہنے والے ہندو سکھ اپنی جانیں بچا کر ہندوستان چلے گئے۔بچپن کی محبتیں خواب ہوئیں پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندو مسلم دشمنی کی ایسی داغ بیل پڑی کہ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ہندو رہنماؤں کو پاکستان کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور لاکھ کوشش کے باوجود اُن کا بغض اور کینہ روز بروز فساد برپا کیے رہتا ہے۔
اللہ ہمارے وطن کو دُشمن کے شر سے بچائے۔ہمیں اپنے پرائے کی پہچان کا ہنر عطا فرمائے اور علم وعمل کے ہر میدان میں دُشمن کے مقابلے میں فتح مبین سے ہمکنار کرے۔ آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں