منگل, اگست 25, 2015

"جاناں جاناں"

جاناں جاناں"
کتابِ زندگی۔۔۔حقیقی۔۔۔مجازی
ایک کتابِ زندگی وہ ہے جس میں سوچ کے معمولی نُکتے سے عمل کی لغزش کے ہلکے سے نقطے تک من وعن جتنی تُندہی سے لکھا جارہا ہے اُتنی ہی تیزی سے صوتی اور بصری طور پر محفوظ بھی کیا جا رہا ہے۔۔۔۔کسی اور کے لیے نہیں صرف اور صرف ہمارے اپنےلیے۔
ایسی تصنیف جسے ہم جانتے ہوئے پہچاننے سے انکار کرنے کی جئرات کر بھی دیں لیکن ایک ایسے وقت پر ایمان رکھتے ہیں جب اُسے جھٹلانے کی ذرا سی بھی گنجائش قطعاً نہ ہو گی۔
قضاوقدر کا فلسفہ بھی عجیب ہے کہ ہم جو کرتے ہیں جو سوچتے ہیں پہلے سے لکھ دیا گیا ہے اور جو لکھا جا رہا ہے اُسے چھپانا یا اُس میں ردوبدل کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔اس فانی دُنیا میں رہتے ہوئے انسانوں کے ساتھ رشتوں اور تعلقات کو برتتے برتتےسکون کی خاطر اُس کی چیزوں کے ساتھ بھی ہمارے رشتے بن جاتے ہیں۔۔۔۔کوئی روپے پیسے،زمین جائداد میں سکون تلاش کرتا ہے تو کوئی کاغذ قلم سے دوستی کر لیتا ہے۔کسی کے پیر میں پہئیے لگ جاتے ہیں وہ جہاں گرد ہو جاتا ہے تو کوئی اپنے اندر اُتر کر اپنی تلاش کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔
ہماری چاہ کے بغیر،غیرارادی طور پر کتابِ زندگی قلم بند ہونا اگر حقیقت ہے تو اپنی ذاتی ڈائری میں زندگی کی سفر کہانی لکھنا "مجاذ" ہوتے ہوئے بھی ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ مجازی کیفیت ہمیں اپنے اوپر یقین کی صلاحیت عطا کرتی ہے کہ آگے بڑھتے بڑھتے جب ہم ذرا دیر کو ٹھہر کے اس کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو اپنی کتھا اپنی ہی تحریر کسی اور جہان کی کہانی لگتی ہے جس میں خوشیاں محفوظ ہوتی ہیں تو غم بھی سانس لیتے ہیں ۔ ایسے سوال ملتے ہیں کہ وقت آگے چل کر جن کے جواب دے دیتا ہے تو ایسے جواب بھی حیرت زدہ کر دیتے ہیں جن کے سوال آنے والے وقت میں سامنے آتے ہیں۔
جب ہم اپنے احساس کو لفظ میں سمیٹ کر لکھتے ہیں وہ ہمارے اندر کا اندر ہوتا ہے۔۔۔ہمارا وہ رنگ جس سے ہم خود بھی واقف نہیں ہوتےاور ہمارا ظاہر تو وہی عام سا ہوتا ہے۔۔۔۔
رشتوں کے رنگ میں رنگا ہواَمصلحتوں کی ڈورمیں جکڑا ہوا۔رسموں رواجوں اور مذہب کی پابندیوں میں مستورومحفوظ ۔
یادوں کو لفظ میں سمیٹنے کا ہنر اللہ کی طرف سے ایک بہت خاص تحفہ ہے جس سے ہم اپنی ذات کی ان بھول بھلیوں سے آگاہ ہوتے ہیں جنہیں وقت کی گرد دھندلا دیتی ہے۔ اپنی ذات کی یہی خوبیاں اور خامیاں آنے والی زندگی میں ہمارے کردار کی بنیاد بنتی ہیں۔اپنی ذات کے اسرار کھوجنے اور اپنے اندر اُٹھنے والے سوالوں کے جواب ہمیں اپنے آپ سے بہتر کہیں سے نہیں ملتے۔
انسان وقت کے ساتھ پرانا اورناکارہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک روز سب چھوڑ کر خالی ہاتھ چلا جاتا ہے لیکن اُس کی چیزیں وہیں رہتی ہیں۔ہم سب کی ڈائری میں ایسا ورق ضرور ہوتا ہے جسے ہم اکثر دوسروں کو تو چھوڑیں اپنی نظر سے بھی بچا کر محفوظ رکھتے ہیں۔ کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب ہم اسےان جان کے سامنے سودوزیاں سے بےپروا ہو کربڑی بےنیازی سے پلٹ دیتے ہیں۔میری خاکی ڈائری آج اس وقت میرے ساتھ میرے پاس ہے۔۔ میری ٹائم مشین ۔۔۔جب چاہوں اس کے ورق پلٹ کر انہی زمانوں میں لوٹ جاؤں اور ان سب خوشبو لمحوں کو چھو لوں جو میری سوچ کہانی کے رازدار ہیں تو آج اس پل میرے اپنی سوچ پر یقین کا آئینہ بھی ہیں۔جس طرح ابھی نہ جانے کتنے لمحے زندگی جینا ہے اسی طرح اس ڈائری کے بھی بہت سے صفحات کورے اور ان چھوئے میرے منتظر رہتے ہیں۔ بہت قیمتی ڈائری ہے میرے حوالے سے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے حوالے سے جن سے میں زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار ملی لیکن لفظ کی صورت اُن کا لمس اُن کے وجود کی گواہی بن کر ٹھہر گیا۔۔
میں لمحۂ موجود تک اپنے سب پسندیدہ شعراء سے ملی،اُن کو قریب سے دیکھا ،اُن کے لفظ کو ان کے لہجے میں محسوس کیا ان سے آٹوگراف لیے لیکن صرف احمد فراز سے نہ مل سکی۔ 80 کی دہائی میں وہ خود ساختہ جلاوطن تھے اورمیں نئی صدی کی اولین دہائی میں لفظ کی دنیا سے قطعی آؤٹ۔ جہاں ایک شدید تشنگی کا احساس ہے وہیں سکون بھی کہ شاید اچھا ہی ہوا جو ہوا اور ان کا جادواثر بُت ان چھوا رہا۔ اگرچہ لفظ اور خیال کے خوبصورت پیکر میں ڈھلا وہ بُت اتنا مکمل دکھتا تھا کہ شاید ان کی شخصیت اس میں دراڑ نہ ڈال سکتی۔لیکن یہ بھی حق ہے کہ بُت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اگر اس میں ذرا سی بھی خراش آ جاتی تو بہت کچھ بکھر سکتا تھا۔ بس میری ڈائری میں اُن کے ہاتھ کا لمس نہ ہونےکی اداسی یا ایک خلش سی ہے۔ ڈائری مکمل کرنے کی چاہ میں بہت بار اُن سے ملنے کا سوچا لیکن صرف سوچ سے کیا ہوتا ہے۔اُن کے جانے کے بعد جب ساری امید ختم ہو گئی تو ڈائری بہلانے کو اُن کے دستخط کا عکس کورے صٖفحے میں یاد کی گوند سے چپکا دیا۔ جانتی ہوں ڈائری میں محفوظ یادیں خوشبو دار پھول کی طرح ہی ہوتی ہیں جنہیں رکھتےتو بہت شوق سے ہیں لیکن بعد میں صرف یاد کے بھولے بسرے داغ ہی ملتے ہیں۔ لیکن پھر بھی خوش ہوں کہ لفظ کی خوشبو سے مہکتی ڈائری میں احمد فراز کا نام پہلے  صفحے پر جگمگایا تو ان کا لمس کہیں سے کسی طور تو ملا۔
بحیثیت انسان ہر ایک میں کسی نہ کسی خوبی کے ساتھ ساتھ بہت سی خامیاں اور تضادات بھی ہوتے ہیں۔اُن کے قریب آنے والے اپنی اپنی افتادِ طبع یا اپنے ظرف کے اعتبار سے فیض یاب ہوتے ہیں۔جب ہم لفظ کے رشتے سے کسی کی قربت محسوس کرتے ہی تو اکثر اس کی شخصیت کا تضاد ہمیں پریشان کر دیتا ہے۔ حالانکہ ہمیں صرف اپنی سوچ اور فکر کی تلاش کو ہی سامنے رکھنا چاہیے۔
زندگی میں اگر احمد فراز کی "خوشبو" نہ ہوتی اور پروین شاکر کے"جگنو" نہ دمکتے تو شاید زندگی گزر تو جاتی لیکن پھر بھی بہت کچھ ان کہا ان سنا ضرور رہ جاتا۔ اللہ اپنے عفووکرم کے صدقے دونوں کی آگے کی منزلیں آسان کرے۔ آمین۔
احمد فراز
تاریخِ پیدائش۔۔۔12جنوری 1931 بمقام کوہاٹ
تاریخ وفات۔۔۔25 اگست 2008بمقام ایچ ایٹ قبرستان اسلام آباد
احمد فراز کی تحریر کا عکس ۔۔۔میری ڈائری سے۔۔۔
اُس شخص کا مرقد ۔۔۔جس نےاپنی لازوال شاعری سے ہمارے ذہنوں میں زندگی کے رنگ اجاگر کیے۔

٭ "جاناں جاناں"
کے مسحورکن ترنم اور خیال کے بعد
٭"سنا ہےلوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں"۔
کے درمیان ہر لفظ بےمثال اور لازوال ہے۔ لیکن اول وآخر کا نشہ تو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہ ہی زنجیر بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھا تھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
ہم، کہ روٹھی ہوئی رُت کو بھی منا لیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سب ہی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعروشاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں‌ اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌ کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌ اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌
۔۔۔۔

8 تبصرے:

  1. خوبصورت تحریر
    اور بہت قیمتی ڈائری ہے آپ کی
    شکر کریں کہ اس دن چوری نہیں ہوئی
    سدا خوش رہیں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. کوئی بات نہیں آئندہ سہی۔۔۔
      اسی بہانےکوئی آئے تو

      حذف کریں
  2. ہمیشہ کی طرح بہت عمدہ لکھا ۔ جیتی رہیں بہنا

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت ہی عمدہ تحریر ۔ ۔ ۔ آپ لفظوں کی ملکہ ہیں ۔ ۔ ۔ خوب کمال سے اں کو استعمال کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ میں ہمیشہ پڑھ کر محسور ہوتی ہوں ۔ ۔ ۔ خوش رہیں !

    جواب دیںحذف کریں
  4. زندگی میں اگر احمد فراز کی "خوشبو" نہ ہوتی اور پروین شاکر کے"جگنو" نہ دمکتے تو شاید زندگی گزر تو جاتی لیکن پھر بھی بہت کچھ ان کہا ان سنا ضرور رہ جاتا۔

    بہت عمدہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. Just read and found it opening new ways to understand self that is in the deeper recesses of consciousness and with whom we get so little access that we are surprised when we meet our real inner calling. I one day want to meet you in person to listen to these extraordinary insights.

    جواب دیںحذف کریں
  6. Its very inspiring the way you describe your dairy as a time machine which enables you to go back into past and relive the moments again.

    جواب دیںحذف کریں
  7. محبوب رستمبدھ, اگست 26, 2015

    آج احمد فراز کی برسی ہے۔ ہم نے ان کو انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے مشاعرہ میں 2006 میں پہلی بار سنا اور دیکھا بھی۔ مشاعرہ کیا تھا نوجوان لڑکوں لڑکیوں کیلئے ان معروف شعرا کو اپنے درمیان پا کر جوش کی انتہا کا مظہر تھا۔ سینکڑوں سامعین بیک وقت چیختے ہوئے اپنی اپنی پسندیدہ غزل و نظم کی فرما ئش کرتے تھے اور احمد فراز مسکراتے ہوئے فرما ئشیں پوری کرتے۔ تب اس وجد کے عالم میں ان کی صحت و تندرستی کی دعائیں بھی مانگیں مگر 2008 میں آج کے دن ان کے سفر کا اختتام لکھا تھا۔

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...