پیر, اگست 24, 2015

"بھاگ لگے رہن"

"بھاگ لگے رہن"
زندگی حرکت کا نام ہے۔ کائنات کی ہر شےکا  بلا رُکے،مسلسل اپنے مقررکردہ افعال سرانجام دینا زندگی ہے۔انسان اس کائنات کا ایک پُرزہ ہے۔اس کا ہر کام بھی پہلے سے طےشدہ ہے۔پلک کی جُنبش سے لے کر آخری سانس کی آخری سوچ تک ایک روبوٹ کی مانند جیتا ہےاور کام ختم کر کے چلا جاتا ہے۔قضاوقدرکی بیڑیاں پہنے زندگی کی بند گلی میں"می رقصم"۔ کولہو کے بیل کی طرح گھومتے جانا اگر قسمت ہے تو فرار کی ازلی خواہش "بھاگنا"جبلت تو اس سے ڈرنا فطرت ہے۔ وہ جبلت جو ماں کی کوکھ میں محفوظ ومامون ہوتے ہوئے بھی بےقراری سے باہر آنے پر اُکساتی ہے توان جان رستوں کا خوف چِلّانے پر مجبور کر دیتا ہے۔قید انسان کی سب سے بڑی مایوسی سب سے بڑی خلش اور سب سے بڑا ناکامی کا احساس ہے۔ یہ احساس جو نومولود کی آکسیجن کے حصول کے لیے پہلی چیخ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ چیخ اگر سلامتی کی گواہی ہے۔۔۔بقا کا اعلان ہےتو انسان کی کمزوری اور بےبسی کا اظہار بھی ہے۔آزادی زندگی کی پہلی نعمت۔۔۔وہ گراں قدر عطیہ جو ایک بار مل جائے تو انسان ساری زندگی اس کی قدر سے بےنیاز ہو جاتا ہے۔پھر انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے قدم قدم پر جسمانی اور جذباتی سمجھوتوں کی قید میں زندگی گزارتا چلا جاتا ہے۔اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے اور اپنے فیصلے خود کرنے کے سرابِ صحرا میں کھو جاتا ہے۔ وہ بچہ جو اپنے وجود کی تکمیل کے بعد اپنے گوشۂ عافیت سے نکل بھاگا ذرا بڑے ہونے پر اپنے قریبی رشتوں سے بھاگ کر ان جان رستوں کی جانب بھاگتا ہے۔۔۔سمجھ دار ہوتا ہے تو معاشی اور معاشرتی تقاضے اُسے کسی اور سمت بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جسم کی تسکین کی جستجو کرتا ہے تو روح کی پیاس بےچین رکھتی ہے روح کی آواز پر کان دھرتا ہے تو جسم کی ناآسودگی تھکاوٹ میں بدل جاتی ہے۔سمجھوتوں کی بند گلی اُسے اپنے آپ سے بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
بقول شاعر ؎۔
خود اپنے سے ملنے کا یارا نہ تھا مجھ میں
میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے 
دن کی روشنی اگر اندھادھند بھگاتی ہے تو رات کی تاریکی نیند آنکھوں سے بھگا دیتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے لیکن آنکھ کھول کر سونا ایسا عذاب ہے جو اپنی شناخت اپنے مقصدِحیات کے کھوج میں بھاگنے والے ہی جان سکتے ہیں۔ دُنیا کے کامیاب ترین انسان غیرشعوری طور پر اپنے اندر اسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتے ہیںلیکن اُن کی ذات کے گرد محنت مشقت،ارادے اور یقین کے مضبوط خول اُنہیں کسی حد تک مایوسی سے بچاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی توانائی عطا کرتے ہیں۔ایک بھرپُور زندگی گُزارنے والے بھی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی کمی یا پچھتاوے کے آسیب میں مُبتلا نظر آتے ہیں۔ہر انسان اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی درز ضرور ڈھونڈ لیتا ہے جہاں سے آنے والی ناآسودگی کی لُو اُسے اپنے ٹھنڈے کمرے میں بھی کروٹیں بدلنے پرمجبُور کردیتی ہے۔غرض یہ کہ زندگی کے آخری سانس تک وہ خوب سے خوب تر کی تلاش کے سفرپر گامزن رہتا ہےاوراِسے ایک کامیاب زندگی کا فلسفہ بھی گردانتا ہے کہ زندگی ٹھہرے پانی کا نام نہیں بلکہ آگے بڑھنے اورترقی کرتے رہنے سے ہی مکمل ہوتی ہے۔
گر دُنیا میں قدم رکھنے میں ہماری مرضی کا قطعاً عمل دخل نہیں توبچپن کی کمزوری ،جوانی کے لااُبالی پن اور بڑھاپے کی لاچاری کے علاوہ بھی،مکمل ہوش وحواس کے ساتھ اور خودمختار ہوتے ہوئے بھی، ہمیں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنےکا حق یا موقع کبھی نہیں ملتا۔ ہماری زندگی ہمارے ساتھ جڑے رشتوں کے حصار میں اوران کے رنگ میں رنگتی گزر جاتی ہے.ہم اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے تقدیر کا لکھا کہتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ ہماری مایوسی کی انتہا بس یہی ہوتی ہے کہ روتے ہوئے آنا اگر زندگی کا پہلااحساس ہے تو تقدیر سے لڑتے چلے جانا زندگی کے آخری سانس کی داستان ہے۔ ساری عمر زندگی سے دست وگریباں تو رہتے ہیں لیکن پھر بھی اسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔ ہم ہمیشہ جینے کی لایعنی خواہش رکھتے ہیں۔زندگی کے لیے زندہ رہنے کی خواہش بنیادی شرط ہے۔جب زندگی سے مزید کچھ پانے کی طلب نہ رہے اور کھونے کا خوف ختم ہو جائے تو زندگی اور زندہ رہنے کی تمام کشمکش قرار پا جاتی ہے۔ایسا بہت کم کسی کی زندگی میں ہوتا ہے۔"اور اور" کی حسرت آنکھ میں پتھرا کر رہ جاتی ہے تو دُنیاوی نعمتوں اور لذتوں کے حصار پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر زندگی کے آخری لمحے تک رقصِ لاحاصل  میں اُلجھائے رہتے ہیں۔
حرفِ آخر
زندگی ایک میرا تھن دوڑ ہے جس میں ہر شخص اپنی اپنی صلاحیت ،اپنی اپنی قسمت ،اپنی اپنی خواہش ،اپنی اپنی ہوس کی رفتار سے بھاگ رہا ہے ،دیکھنے والی آنکھ جس کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتی ہے وہ حرف ِآخر ہرگز نہیں فیصلہ آخری انسان کی آخری سانس سے پہلے ممکن ہی نہیں- ہمیں ملنے والی محبتیں شفقتیں راستے میں آنے والے سنگ ِمیل اور حوصلہ افزائی کرتے مہربان اجنبیوں کی طرح ہوتی ہیں جو کبھی پانی کی بوتل پکڑاتے کبھی تھپکی دیتے ملتے ہیں ایک پل کا ساتھ نئی توانائی دے جاتا ہے اور ہم پھر رواں دواں ہو جاتے ہیں- فاصلوں کی دوڑ میں لمحہ لمحہ اہم ہوتا ہے -قیام اتنا ہی کرنا چاہیے کہ دوڑ میں شامل بھی رہیں اور پیچھے بھی نہ رہ جائیں - خواہشوں کی پیاس حاوی ہو جائے تو رفتار سُست پڑ جاتی ہے اور اگر خواہشوں سے کسی طرح فرار حاصل کر کے بھاگا جائےتو شاید دوڑ تو جیتی جا سکتی ہے لیکن دلی اطمینان نہیں مل سکتا ۔

2 تبصرے:

  1. اگر ہم خود سے جھگڑا نہیں کریں گے تو شاید زندگی کا مقصد ہی کھو دیں گے ۔ ۔ ۔ آپ کے الفاظ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ بہت خوب لکھتی ہیں ۔ ۔ ۔ !

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ کا ماشاء اللہ اتنی گہری سوچیں اور اسلوبِ ممثاثلت قاری اگر غور سے پڑھ لے تو گُم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ بی بی ۔ انسان کے جسم کا نظام بھی نہائت مربوط ہے ۔ سر سے لے کر پاؤں تک ہر عضوء کا ایک دوسرے سے قریبی تعلق اور ایک دوسرے سے مکمل تعاون ہی تو ہے جو انسان کو رواں دواں رکھتا ہے ورنہ انسان ایک معمولی سی حرکت بھی نہ کر سکے لیکن بات وہیں آ جاتی ہے کہ اسے سمجھنے کیلئے اہتمام اور سعی ضروری ہیں ۔ سچ کہا تھا کسی نے
    اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی
    تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...