مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
(افتخارعارف)
آزادی۔۔۔ انسان کا ایسا قیمتی خواب جو اس کے سارے خوابوں کے لیے جہاں آکسیجن کا کام کرتا ہے وہیں جب اس کی تعبیر بنا کسی بھاگ دوڑ کے پلکوں کو چھو لے تو آنکھ کھلنے کے بعد انسان اس کی اہمیت وضرورت سےہمیشہ بےخبر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کی قدر آزاد ہواؤں میں آنکھ کھولنے والوں سےبڑھ کر وہی جانتے ہیں جن کے جسم وروح پرغلامی کی زنجیروں کے زخم ثبت ہوں۔۔۔ ایسے زخم جنہیں وقت کا مرہم مندمل کر بھی دے لیکن پھر بھی بےحسی کی آنچ کی ذرا سی تپش پا کر پھر سے رسنے لگتے ہیں۔
۔14 اگست 1947 میں قیام پاکستان کے بعد آج اگست 2015 تک بہت وقت بیت گیا۔ننھے پودے تناور درخت بن گئے۔۔۔ کچی کونپلیں اپنی خوشبو اپنا رنگ اوراپنی مہک نچھاور کر کے پیوندِ خاک ہوئیں۔ کتنے ہی گھنے سائبان اپنے حصے کا کام کر کے رخصت ہوئےاور آج ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں۔ یہی دنیا ہے اور یہی زندگی کہانی ہے۔ایسا ازل سے ہوتا آیا اور ہوتا رہے گا۔ لیکن اللہ نے انسان کو لفظ کی صورت ایسی نعمت عطا کی جس کے سہارے وہ اُن تمام لمحوں اور یادوں کو دوسروں کے لیے محفوظ کر سکتا ہے جن کے تلخ و شیریں احساس آنے والی نسل کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیتے ہیں۔
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
(افتخارعارف)
آزادی۔۔۔ انسان کا ایسا قیمتی خواب جو اس کے سارے خوابوں کے لیے جہاں آکسیجن کا کام کرتا ہے وہیں جب اس کی تعبیر بنا کسی بھاگ دوڑ کے پلکوں کو چھو لے تو آنکھ کھلنے کے بعد انسان اس کی اہمیت وضرورت سےہمیشہ بےخبر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کی قدر آزاد ہواؤں میں آنکھ کھولنے والوں سےبڑھ کر وہی جانتے ہیں جن کے جسم وروح پرغلامی کی زنجیروں کے زخم ثبت ہوں۔۔۔ ایسے زخم جنہیں وقت کا مرہم مندمل کر بھی دے لیکن پھر بھی بےحسی کی آنچ کی ذرا سی تپش پا کر پھر سے رسنے لگتے ہیں۔
۔14 اگست 1947 میں قیام پاکستان کے بعد آج اگست 2015 تک بہت وقت بیت گیا۔ننھے پودے تناور درخت بن گئے۔۔۔ کچی کونپلیں اپنی خوشبو اپنا رنگ اوراپنی مہک نچھاور کر کے پیوندِ خاک ہوئیں۔ کتنے ہی گھنے سائبان اپنے حصے کا کام کر کے رخصت ہوئےاور آج ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں۔ یہی دنیا ہے اور یہی زندگی کہانی ہے۔ایسا ازل سے ہوتا آیا اور ہوتا رہے گا۔ لیکن اللہ نے انسان کو لفظ کی صورت ایسی نعمت عطا کی جس کے سہارے وہ اُن تمام لمحوں اور یادوں کو دوسروں کے لیے محفوظ کر سکتا ہے جن کے تلخ و شیریں احساس آنے والی نسل کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیتے ہیں۔
ایسے ہی احساس کے جگنو کی روشنی میں اس سال 14 اگست کو"قیام پاکستان اورتقسیمِ ہندوستان" کے عنوان سے ایک محفل سجائی بہت سے لکھنے والوں نے اپنی اپنی یاد کی شمع روشن کی۔افراتفری اور شک وشبے کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں یہ لرزتی مدہم پڑتی لُو جہاں ایک گہری اداسی لیے ہوئے تھی وہیں اپنے آپ پر یقین،اپنی بنیاد کی سچائی اور پائیداری کی امین بھی تھی۔
وطن کے حوالے سے کچھ تحاریر جو اس دوران میرے مطالعے میں آئیں یا احباب نے اس میں شرکت کی۔ سچائی کی روشنائی سے لکھی جانے والی ہر تحریر بہت پراثر اور ناقابلِ فراموش یادوں کا ایسا گلدستہ ہے جس میں دل میں کھب جانے والے کانٹوں کی چھبن اگر درد کی شدت بیان کرتی ہے تو اپنی مٹی سے تعلق مضبوط بھی کرتی ہے۔
سب سے پہلے میری تحریر"قسم اس وقت کی" سے کچھ اقتباس۔۔جس میں اپنی اہلیت کے مطابق اپنا فرض نبھانے کی بات کی گئی۔
"قسم اس وقت کی"
تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان اور آج کے لکھاری۔
تاریخ تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان تک کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے گواہ نہ صرف ہجرت کر کے آنے والے پاکستانی ہیں بلکہ پاکستان میں پہلے سے مقیم پاکستانی بھی بہت سے واقعات کےعینی شاہد ہیں۔ پاکستان کے قیام کو 68 برس مکمل ہوچکے۔اس وقت نہ صرف وہ نسل اپنی صحت کے مسائل سے نپٹتے ہوئےتمام واقعات بیان کر سکتی ہے جو اُن کی جوانی کے دور میں پیش آئے بلکہ اس دور میں ذرا سا ہوش سنبھالنے والے بچے جو آج اپنے گھروں کی عافیت میں ہمارے بزرگ ہیں اس بارے میں بہت کچھ کہتے بھی رہتے ہیں۔ ہر باشعور پاکستانی کے گھر میں اس کےبچپن میں یا کبھی نہ کبھی اس نے کہیں نہ کہیں پاکستان کہانی ضرور سنی ہو گی۔ آج کے لکھاری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ کانوں سے سنا وہ احوال سامنے لائیں جو کسی اپنے یا غیر کی آنکھوں نے دیکھا۔ان کی یاد میں سمٹےاحساس کو اپنے لفظ کی زبان دیں۔کوئی واقعہ کوئی بات جو ہم نے اپنے بڑوں سے سنی اور یقیناً سنی ہو گی۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ قیام پاکستان ایک معجزہ ہےاوراُس وقت ہوش وحواس کی دنیا میں سانس لینے والا ہر پاکستانی اس بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ضرور ہے۔
وطن کے حوالے سے کچھ تحاریر جو اس دوران میرے مطالعے میں آئیں یا احباب نے اس میں شرکت کی۔ سچائی کی روشنائی سے لکھی جانے والی ہر تحریر بہت پراثر اور ناقابلِ فراموش یادوں کا ایسا گلدستہ ہے جس میں دل میں کھب جانے والے کانٹوں کی چھبن اگر درد کی شدت بیان کرتی ہے تو اپنی مٹی سے تعلق مضبوط بھی کرتی ہے۔
سب سے پہلے میری تحریر"قسم اس وقت کی" سے کچھ اقتباس۔۔جس میں اپنی اہلیت کے مطابق اپنا فرض نبھانے کی بات کی گئی۔
"قسم اس وقت کی"
تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان اور آج کے لکھاری۔
تاریخ تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان تک کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے گواہ نہ صرف ہجرت کر کے آنے والے پاکستانی ہیں بلکہ پاکستان میں پہلے سے مقیم پاکستانی بھی بہت سے واقعات کےعینی شاہد ہیں۔ پاکستان کے قیام کو 68 برس مکمل ہوچکے۔اس وقت نہ صرف وہ نسل اپنی صحت کے مسائل سے نپٹتے ہوئےتمام واقعات بیان کر سکتی ہے جو اُن کی جوانی کے دور میں پیش آئے بلکہ اس دور میں ذرا سا ہوش سنبھالنے والے بچے جو آج اپنے گھروں کی عافیت میں ہمارے بزرگ ہیں اس بارے میں بہت کچھ کہتے بھی رہتے ہیں۔ ہر باشعور پاکستانی کے گھر میں اس کےبچپن میں یا کبھی نہ کبھی اس نے کہیں نہ کہیں پاکستان کہانی ضرور سنی ہو گی۔ آج کے لکھاری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ کانوں سے سنا وہ احوال سامنے لائیں جو کسی اپنے یا غیر کی آنکھوں نے دیکھا۔ان کی یاد میں سمٹےاحساس کو اپنے لفظ کی زبان دیں۔کوئی واقعہ کوئی بات جو ہم نے اپنے بڑوں سے سنی اور یقیناً سنی ہو گی۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ قیام پاکستان ایک معجزہ ہےاوراُس وقت ہوش وحواس کی دنیا میں سانس لینے والا ہر پاکستانی اس بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ضرور ہے۔
۔۔۔۔۔
It’s remarkable to visit this web site and reading the views of all mates concerning this paragraph i much like this
جواب دیںحذف کریںKaleerien TV