" ہر میلہ اُجڑنے کے لیے ہی ہوتا ہے چاہے وہ زندگی کا ہو یا خواہشوں کا"
جو آیا ہے اُس نے جانا ہی ہے۔آنے پر اختیار ہے اور نہ جانے پر۔شکم ِمادر میں نئی کونپل کی نوید سےلے کر رو شنی میں اُس کی رونمائی تک کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی ،صرف تجربات،حالات وواقعات کا تسلسل ہی وقت کا مجموعی طور پر تعین کرتا ہے۔اسی طرح جانے کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔آنے والے کل کے لیے تو پھر بھی اپنے طور پر بچ بچاؤ کا سوچا جا سکتا ہے پر جب بلاوا آتا ہے سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ آ نے کا اور جانے کا پتہ نہیں تو پھر کیا روگ لگانا کیا سوچنا۔لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ہم دنیا میں آمد کے وقت تو اپنی سوچ کے زاویے سے ناواقف ہوتے ہیں لیکن جاتے وقت اس سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور کسی حال میں اس دُنیا سے کوچ کرنا نہیں چاہتے۔ بہت کم بلکہ وہ ولی اللہ ہوتے ہیں جو اپنی جان جان ِآفرین کے سپرد یوں کرتے ہیں گویا عاجزی انکساری کے ساتھ قرض واپس کر رہے ہوں۔ ہمارے فہم ہماری عقل کا امتحان اسی وقت ہوتا ہے جب بلاوا آ جائے۔ہمیشہ پہلے سے کی گئی تیاری کام نہیں آتی۔اصل ہنر اپنی مرضی سے بھریا میلہ چھوڑنے کا ہے۔ یہ ہنر آ جائے تو زندگی سے جُڑی دوسری خواہشات کو اپنانا اور چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے۔کبھی کوئی میلہ کسی کے جانے سے نہیں اُجڑا۔ہم خود اپنے آپ کو اُس کا 'کُل' جان کر چھوڑنا نہیں چاہتے حالانکہ ہم تو اُس کے ایک جزو سے بھی کم تر ہیں۔یہ بات شاید ہمارے جانے کے بعد دوسروں کی آنکھوں میں ہمارے لیے اُترتی ہے جب وہ ہماری تمام عمر کی لاحاصل تپسّیا کا نچوڑ دیکھتے ہیں۔اس سے پہلے کہ دُنیا تمہیں چھوڑ دے تم خود اپنی رضا سے کسی بڑی چاہ کی خاطر اسے چھوڑ دو۔ اگر مہلت ملی لوٹ آنے کی اور کوئی منتظر رہا تو پھر وقت ہی وقت ہے۔ ورنہ اپنے راستے پر چلتے جاؤ اور دوسروں کو اُن کی راہ چلنے دو۔جھگڑا نہ کرو۔دل میلا نہ کرو۔
آخری بات
میلے میں جا کر میلہ چھوڑنا اورمیلہ چھوڑنے کا حوصلہ رکھنا ہی راز ِزندگی ہے۔
جو آیا ہے اُس نے جانا ہی ہے۔آنے پر اختیار ہے اور نہ جانے پر۔شکم ِمادر میں نئی کونپل کی نوید سےلے کر رو شنی میں اُس کی رونمائی تک کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی ،صرف تجربات،حالات وواقعات کا تسلسل ہی وقت کا مجموعی طور پر تعین کرتا ہے۔اسی طرح جانے کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔آنے والے کل کے لیے تو پھر بھی اپنے طور پر بچ بچاؤ کا سوچا جا سکتا ہے پر جب بلاوا آتا ہے سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ آ نے کا اور جانے کا پتہ نہیں تو پھر کیا روگ لگانا کیا سوچنا۔لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ہم دنیا میں آمد کے وقت تو اپنی سوچ کے زاویے سے ناواقف ہوتے ہیں لیکن جاتے وقت اس سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور کسی حال میں اس دُنیا سے کوچ کرنا نہیں چاہتے۔ بہت کم بلکہ وہ ولی اللہ ہوتے ہیں جو اپنی جان جان ِآفرین کے سپرد یوں کرتے ہیں گویا عاجزی انکساری کے ساتھ قرض واپس کر رہے ہوں۔ ہمارے فہم ہماری عقل کا امتحان اسی وقت ہوتا ہے جب بلاوا آ جائے۔ہمیشہ پہلے سے کی گئی تیاری کام نہیں آتی۔اصل ہنر اپنی مرضی سے بھریا میلہ چھوڑنے کا ہے۔ یہ ہنر آ جائے تو زندگی سے جُڑی دوسری خواہشات کو اپنانا اور چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے۔کبھی کوئی میلہ کسی کے جانے سے نہیں اُجڑا۔ہم خود اپنے آپ کو اُس کا 'کُل' جان کر چھوڑنا نہیں چاہتے حالانکہ ہم تو اُس کے ایک جزو سے بھی کم تر ہیں۔یہ بات شاید ہمارے جانے کے بعد دوسروں کی آنکھوں میں ہمارے لیے اُترتی ہے جب وہ ہماری تمام عمر کی لاحاصل تپسّیا کا نچوڑ دیکھتے ہیں۔اس سے پہلے کہ دُنیا تمہیں چھوڑ دے تم خود اپنی رضا سے کسی بڑی چاہ کی خاطر اسے چھوڑ دو۔ اگر مہلت ملی لوٹ آنے کی اور کوئی منتظر رہا تو پھر وقت ہی وقت ہے۔ ورنہ اپنے راستے پر چلتے جاؤ اور دوسروں کو اُن کی راہ چلنے دو۔جھگڑا نہ کرو۔دل میلا نہ کرو۔
آخری بات
میلے میں جا کر میلہ چھوڑنا اورمیلہ چھوڑنے کا حوصلہ رکھنا ہی راز ِزندگی ہے۔
سا اوقات قردت ہماری زندگی سے ہمارے اپنوں کو ہم سے بہت دور لے جاتی ہے ہمیں محفوظ اور پر سکون رکھنے کے لیے... مگر ہم لا علم انسان بند ہو جانے والے دروازے کا سامنے کھڑے رونے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ربّا جی نے اپنی رحمت کا دوسرا دروازہ کھول دیا ہے . مگر ہم قدرت کے راز سے نا واقف ہیں
جواب دیںحذف کریں" ہر میلہ اُجڑنے کے لیے ہی ہوتا ہے چاہے وہ زندگی کا ہو یا خواہشوں کا "
جواب دیںحذف کریںجو آیا ہے اُس نے جانا ہی ہے ـ نہ آنے پر اختیار ہے اور نہ جانے پر ،
سو فیصد درست بات ہے جی
بے حد خوبصورت تحریر
جواب دیںحذف کریںhttps://daleel.pk/2017/04/28/40739
جواب دیںحذف کریں