مٹی تخلیق ِانسانی کی بنیاد ہے۔مٹی ہمیشہ ایک ہی ہوتی ہے۔اس کی خاصیت بھی کم وبیش یکساں ہے۔اپنی تکمیل کی خاطر مٹی مٹی کی طرف رجوع کرتی ہے ۔جب مٹی مٹی سے ملتی ہے تو مرد اور عورت دونوں اپنی جگہ اپنی شناخت برقرار رکھنے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ وہ اپنا آپ بچانے کی جستجو لیے قریب آنا بھی چاہتے ہیں اور دور بھی بھاگتے ہیں۔چاہت اور گریز کا یہ عجیب امتزاج ہے کہ جتنا دور جاتے ہیں اُتنی ہی قربت کی تڑپ بڑھتی جاتی ہے۔
محبت کی بارش لمس کی پھوار کی صورت جب دلوں پر اثر کرتی ہے تو مرد ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اور عورت ٹوٹ کر پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی سے جُڑ جاتی ہے۔اپنا آپ نچھاور کرتے کرتے عورت کے وجود کا کچا گھڑا خالی ہو جاتا ہے اور مرد سیراب ہو کر بھی تشنگی کے احساس کو جھٹک نہیں پاتا۔ یہی پیاس اُنہیں بار بار ملنے پر اُکساتی ہےمحبت کی بارش برستی رہے تو سوندھی مٹی مہکتی رہتی ہے۔امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب بارشوں کا موسم گزر جائے۔انتظار کی تپش مرد کو جھلسا دیتی ہے اور وہ راہ فرار ڈھونڈتا ہے توکبھی اپنی ذات کے اندر قید ہو کر رہ جاتاہے جبکہ عورت کے لیے انتظار کی خزاں زرخیزی میں اضافہ کرتی ہے۔ ایسے منظر ایسے رنگ تخلیق ہوتے ہیں کہ قربت کے لمحے بھی رقیب بن کر ان اداس موسموں کے حصار میں آ جاتے ہیں۔کیا کیا جائے کہ مرد کی آنکھ ان موسموں کی رنگارنگی کو بے وفائی کا لباس پہنا کر اپنی ہی نگاہوں سے اوجھل کر دیتی ہے ۔وہ جیت کر بھی ہار کے خوف سے باہر نہیں نکل پاتا۔
عورت کو زمین کہا گیا ہے، کھیتی سے مثال دی گئی ہے۔ مٹی کی سرشت میں ہے بکھرنا،چاہت لگن اورمحبت کی پھوارسےگوندھ لوتواجل کے بے رحم ہاتھ اورتقدیرکی مضبوط گرفت ہی اُسے توڑ سکتی ہے۔ رم جھم نہ ہوتواتنی تشنگی اتنی پیاس روح میں اُتر
جاتی ہے کہ سمندروں کا پانی اور ہڈیوں کا گودا بھی خشک ہوجاتا ہے۔ پھرچاہےلاکھ کوشش کرلو مٹی بکھرتی جاتی ہے۔ اُسے سمیٹ کر،سینت کر ایک خوبصورت ڈبے میں تو محفوظ کیا جا سکتا ہے، اُس کے وجود کے گرد ایک نقشین حالہ چڑھا کراُس کا طواف تو ہو سکتا ہے۔ اُس کے قدم کے نشان کوراہِ منزل تو بنایا جا سکتا ہے۔ اُس میں اپنی ذات تو تلاش کی جا سکتی ہے، اُس کا ثمرتو چکھا جا سکتا ہے، اُس کو شیشے کے نازک برتن کی طرح برتا تو جا سکتا ہے، اُس پھول کی خوشبو تو قید ہوسکتی ہے۔ اُسے ایک "ممی"کی طرح حنوط کر کے صدیوں اس کا دیدار تو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے اندر اتر کر اس کا اپنا پن کبھی گرفت میں نہیں لیا جا سکتا کہ " وہ تو مٹی ہے بکھر گئی تو بکھر گئی"۔
عورت بھی عجب شے ہےکیسی سمجھ دارکتنی ہی عقلمند کیوں نہ ہو،قوسِ قزح کے رنگ دیکھ کراپنی زندگی کے کینوس پر بکھرے پھیکے رنگ فوراً بُھلا دیتی ہے یہ جانے بغیرکہ یہ تو رِم جھم کا کھیل ہے،ایک پل کی کہانی ہے۔ اپنے رنگ اپنے ہی ہوتے ہیں ۔چاہے جیسے بھی ہوں اُن میں کوئی تغیّرنہیں۔ لمحے کی بھول کب برسوں کے اعتماد کی جڑیں اُکھیڑ ڈالے کسے معلُوم۔
محبت کی بارش لمس کی پھوار کی صورت جب دلوں پر اثر کرتی ہے تو مرد ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اور عورت ٹوٹ کر پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی سے جُڑ جاتی ہے۔اپنا آپ نچھاور کرتے کرتے عورت کے وجود کا کچا گھڑا خالی ہو جاتا ہے اور مرد سیراب ہو کر بھی تشنگی کے احساس کو جھٹک نہیں پاتا۔ یہی پیاس اُنہیں بار بار ملنے پر اُکساتی ہےمحبت کی بارش برستی رہے تو سوندھی مٹی مہکتی رہتی ہے۔امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب بارشوں کا موسم گزر جائے۔انتظار کی تپش مرد کو جھلسا دیتی ہے اور وہ راہ فرار ڈھونڈتا ہے توکبھی اپنی ذات کے اندر قید ہو کر رہ جاتاہے جبکہ عورت کے لیے انتظار کی خزاں زرخیزی میں اضافہ کرتی ہے۔ ایسے منظر ایسے رنگ تخلیق ہوتے ہیں کہ قربت کے لمحے بھی رقیب بن کر ان اداس موسموں کے حصار میں آ جاتے ہیں۔کیا کیا جائے کہ مرد کی آنکھ ان موسموں کی رنگارنگی کو بے وفائی کا لباس پہنا کر اپنی ہی نگاہوں سے اوجھل کر دیتی ہے ۔وہ جیت کر بھی ہار کے خوف سے باہر نہیں نکل پاتا۔
عورت کو زمین کہا گیا ہے، کھیتی سے مثال دی گئی ہے۔ مٹی کی سرشت میں ہے بکھرنا،چاہت لگن اورمحبت کی پھوارسےگوندھ لوتواجل کے بے رحم ہاتھ اورتقدیرکی مضبوط گرفت ہی اُسے توڑ سکتی ہے۔ رم جھم نہ ہوتواتنی تشنگی اتنی پیاس روح میں اُتر
جاتی ہے کہ سمندروں کا پانی اور ہڈیوں کا گودا بھی خشک ہوجاتا ہے۔ پھرچاہےلاکھ کوشش کرلو مٹی بکھرتی جاتی ہے۔ اُسے سمیٹ کر،سینت کر ایک خوبصورت ڈبے میں تو محفوظ کیا جا سکتا ہے، اُس کے وجود کے گرد ایک نقشین حالہ چڑھا کراُس کا طواف تو ہو سکتا ہے۔ اُس کے قدم کے نشان کوراہِ منزل تو بنایا جا سکتا ہے۔ اُس میں اپنی ذات تو تلاش کی جا سکتی ہے، اُس کا ثمرتو چکھا جا سکتا ہے، اُس کو شیشے کے نازک برتن کی طرح برتا تو جا سکتا ہے، اُس پھول کی خوشبو تو قید ہوسکتی ہے۔ اُسے ایک "ممی"کی طرح حنوط کر کے صدیوں اس کا دیدار تو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے اندر اتر کر اس کا اپنا پن کبھی گرفت میں نہیں لیا جا سکتا کہ " وہ تو مٹی ہے بکھر گئی تو بکھر گئی"۔
عورت بھی عجب شے ہےکیسی سمجھ دارکتنی ہی عقلمند کیوں نہ ہو،قوسِ قزح کے رنگ دیکھ کراپنی زندگی کے کینوس پر بکھرے پھیکے رنگ فوراً بُھلا دیتی ہے یہ جانے بغیرکہ یہ تو رِم جھم کا کھیل ہے،ایک پل کی کہانی ہے۔ اپنے رنگ اپنے ہی ہوتے ہیں ۔چاہے جیسے بھی ہوں اُن میں کوئی تغیّرنہیں۔ لمحے کی بھول کب برسوں کے اعتماد کی جڑیں اُکھیڑ ڈالے کسے معلُوم۔
Sondhi mati ki khushbu jitna pyara nam us se kahin khoobsooorat andaz-e-bian,lafzon ka chunao,plot,garz har khoobi majud ha iss choti c kahani mein...jo k mard or orat ki zindgi bhar ka hasil ha..jis mein dakha jae to orat aik bhar ki manind bar bar ati ha khoobsorat rangoon k sath or mard ko shadab kr dati ha ..lakin ham mard khizan k un chand paloon k giley mein iss bhar ko bhi kho datey hain ...iss be intiha muhabbat or ahsas ko bhi kho datey hain...oret ko bhi mati k manind dher kr datey hain...lakin orat phir se uth khari hoti ha khud ko jorr lati ha...lakin mard ki badgumani khatam nahin hoti...pata ni ham kia taalash kr rahe hotey hain orat mein...Shyd thk he kaha kisi ne k ham usey sirf jism samjn latey hain ye bhool jatey hain k uss k andar aik rooh bhi ha...ahsasat bhi hain..jazbat bhi hain...ye to uski muhabbat ha k woh inhen ujagar he nahin hone dati....
جواب دیںحذف کریں