رمضان 1434 ہجری ۔۔بمطابق جولائی 2013۔۔۔۔
نشہ نشہ ہوتا ہے چاہے جیسا بھی ہو ۔ بہت ہو گیا ۔ پانچ سحریاں لشتم پشتم بھگتانے کے بعد بات کسی حد تک سمجھ آ ہی گئی ۔ایک سال پیچھے جاؤں تو جولائی کے یہی دن تھے جب ایک ماہ کے لیے نیٹ سے رخصت لی ۔ یہ وہ دور تھا کہ جب نشہ خود بخود مل رہا تھا بغیر چاہ کیے بنا کسی طلب کے ایک مخلص دوست کے بہروپ میں۔ اسی لیے خاص رغبت بھی نہ تھی کہ یہ دُنیا میری زبان سے ناواقف میری اپنی نہ تھی ۔ میں اپنی زبان کی چاشنی جانتے ہوئے بھی اسے اس بازار میں سجانے سے قاصر تھی۔ کوئی راستہ بھی تو نہ دکھتا تھا ۔ راہ پوچھنے کا شوق پہلے کبھی تھا اور نہ اب ہوا تھاکہ مجھے ان دیکھےراستوں کو خود دریافت کرنے کی لگن ہمیشہ سے رہی تھی ۔ دوستی میں پہل کرنا بھی میری عادت نہ تھی تو اب کیسے اپنی عادتیں بدل لیتی بلکہ اس دنیا میں مجھے پرانی رفاقتیں بھی گوارا نہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ تین ماہ کے عرصے میں باہر کا کوئی فرد تو دور کی بات قریبی جاننے والے بھی حلقے میں نہ تھے جو ہنستے تھے کہ شاید فیس بک میرے لیے محض ایک "بک" ہی ہے۔ مجھے کسی کی پرواہ نہ تھی کہ یہ وہ نشہ تھا جس سے میں ابھی واقف ہوئی تھی۔۔۔ جب وال پر لکھا آتا "وٹس آن یور مائنڈ " اور یہی بات مجھے مسحور کر دیتی۔میں تنہا دنیا کی سیر کرتی، وہ جزیرے کھوجتی جو برسوں کتابیں پڑھ کر بھی عیاں نہ ہوئے تھے یا کتابوں کی باتیں نظروں کے سامنے جگمگاتی دیکھ کر ان میں ڈوب ڈوب جاتی۔نشہ نشہ ہوتا ہے جب اسے چھوڑنے کا ارادہ کیا تو پھر چھوڑ دیا کہ کوئی پلو پکڑنے والا بھی تو نہ تھا۔ پر اب ایک سال بعد جب بہت زور وشور سے اپنا عہد دہرایا تو پتہ چلا پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا لیکن میں وہیں کی وہیں کھڑی ہوں ۔ محبتوں کا ایک نشہ تھا جو قدم قدم پرجکڑتا تھا۔ ایسی محبتیں جو جان کا روگ بن جاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو نہ جانے کس بلند مقام پر دیکھنے لگ جاتے ہیں ۔ ستم بالائے ستم کہ عین رمضان سے پہلے
ایک سوال نامہ میری انا کےغبارے میں ہوا بھرنے کو مل گیا۔ جومنظر نامہ" کی طرف سے10 جولائی 2013 کو ارسال کیا گیا۔۔۔
لیکن جو ہوا اچھا ہی ہوا کہ آئینے میں چہرہ نظر آیا تو خود ساختہ فہم وفراست کا میک اپ اتر گیا ۔ بار بار اپنے جواب پڑھ کر بھی کوئی گہرائی نظر نہ آئی ،دکھائی دی تو ایک نادان عورت جو تعریف کے دو بول سن کو بظاہرخوش تو ہوجاتی ہے لیکن مطمئن کبھی نہیں ہوتی ۔ تنقید سننے کو تیار رہتی ہے پر تنقید کردی جائے تو اپنی منطق سے رد بھی کر دیتی ہے۔ یہ تو مرد کی ازلی معاملہ فہمی اور بُرد باری ہے جو سب جان کر بھی آج میں جیتا ہےاور درگزرکرتاجاتا ہے۔ لیکن نشہ نشہ ہوتا ہے اوریہ اُتر ہی جاتا ہے چاہے وقت کی کڑوی دوا اثر کرے یا اپنے اندر کا عزم کام دکھائے۔ بظاہر سب ٹھیک دِکھ رہا تھالیکن کہیں کچھ غلط ضرور تھا ۔ دن بھر نشے سے توبہ اور روزہ کھولنے کے بعد ذرا دیر آرام کر کے تراویح کے انتظار سے پہلے اپنے آپ کوبہلا کرصرف میسج دیکھنے کے بہانے نیٹ ان کرنا کہ فیس بک سے توبہ کی تھی بلاگ سے تو نہیں۔ پھر اپنے فیس بک کے بیج کو دیکھنا۔کیا کیا جائے نشہ نشہ ہوتا ہے۔ پھر تراویح پڑھنے کے بعد ٹی وی پر "امام کعبہ شیخ عبد الرحمٰٰن السُدیس" کی تراویح سننا بھی تو گویا روح کی تسکین کا باعث ہے اب بھلا کون اس کو چھوڑ کر نیند جیسا روٹین کا کام کرے اورسارا دن نیند کے خمار میں ہی تو گزرتا ہے کہ جولائی کے روزے ہیں جن میں حَبس کے باعث سانس بھی ُرک کر آتا ہے۔ بچے ویک اینڈ میں نائٹ میچ اور پھر رات کو ٹی وی پر میچ دیکھ کر رات دو بجے ممی کو اُٹھا کر سو جاتے اور یہی وہ وقت ہوتا جب نیند کا نشہ سر چڑھ کر بولتا کہ نشہ نشہ ہوتا ہے وہ وقت دیکھتا ہے اورنہ ماحول ۔ پھر پونے تین بجے ہڑبڑا کر آنکھ کھلتی اور بھاگ دوڑ میں سحری کی تیاری ۔ بچے اور ان کے بابا نیند سے بےحال ان معصوموں کی طرح لگتے جن کا پہلا روزہ ہو اور ان کو زبردستی اٹھا کر کھانا ان کے سامنے رکھنا ۔ دل ہی دل میں اپنے آپ کو یہ سبق یاد کرانا کہ نشہ نشہ ہوتا ہے چاہے خوش فہمی کا ہو یاغلط فہمی کا اس لیے جتنا جلد اس کے دام سے نکل آؤ اس سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ ہاں یاد آیا اپنا چائے کا چھوٹا سانشہ بھی تو سحری کی بھاگ دوڑ میں منہ دیکھتا رہ جاتا کہ ایک وہی تو اکلوتا سہارا ہوتا ہے دن بھر روزہ گزارنے کا ۔ زندگی کا پہلا رمضان ہے جو نشے کی حالت میں گزر رہا ہے لیکن وہ نشہ جو روزہ کھولنے کے بعد چڑھتا ہے اور صبح سحری کے بعد یوں اُترتا ہے کہ ساڑھے چار بجے سونے کے بعد چھ بجے دودھ والے کے موٹر سائیکل کا شور سب خمار اُتار دیتا ہے۔ نشہ کبھی اہم نہیں ہوتا کہ یہ ہماری قوت ِبرداشت کا امتحان ہے اہم یہ ہے کہ کتنی جلدی اُترتا ہے سب سے بڑا نشہ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنا ہے۔
حاصل کلام یہ ٹھہرا کہ کوئی ساتھ بھی اپنا نہیں جب تک کہ ہم خود اپنے ساتھ نہ ہوں ۔اللہ ہم سب کو اپنے اپنے نشے اپنی اپنی طلب کی پہچان کا علم عطا فرمائے ورنہ بےخبری کا نشہ انسان کو دیمک کی طرح چاٹ کر یکدم عرش سے فرش پر بھی گرا دیتا ہے اور کہیں کا نہیں رہنے دیتا نہ دین کا نہ دُنیا کا ۔
نشہ نشہ ہوتا ہے چاہے جیسا بھی ہو ۔ بہت ہو گیا ۔ پانچ سحریاں لشتم پشتم بھگتانے کے بعد بات کسی حد تک سمجھ آ ہی گئی ۔ایک سال پیچھے جاؤں تو جولائی کے یہی دن تھے جب ایک ماہ کے لیے نیٹ سے رخصت لی ۔ یہ وہ دور تھا کہ جب نشہ خود بخود مل رہا تھا بغیر چاہ کیے بنا کسی طلب کے ایک مخلص دوست کے بہروپ میں۔ اسی لیے خاص رغبت بھی نہ تھی کہ یہ دُنیا میری زبان سے ناواقف میری اپنی نہ تھی ۔ میں اپنی زبان کی چاشنی جانتے ہوئے بھی اسے اس بازار میں سجانے سے قاصر تھی۔ کوئی راستہ بھی تو نہ دکھتا تھا ۔ راہ پوچھنے کا شوق پہلے کبھی تھا اور نہ اب ہوا تھاکہ مجھے ان دیکھےراستوں کو خود دریافت کرنے کی لگن ہمیشہ سے رہی تھی ۔ دوستی میں پہل کرنا بھی میری عادت نہ تھی تو اب کیسے اپنی عادتیں بدل لیتی بلکہ اس دنیا میں مجھے پرانی رفاقتیں بھی گوارا نہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ تین ماہ کے عرصے میں باہر کا کوئی فرد تو دور کی بات قریبی جاننے والے بھی حلقے میں نہ تھے جو ہنستے تھے کہ شاید فیس بک میرے لیے محض ایک "بک" ہی ہے۔ مجھے کسی کی پرواہ نہ تھی کہ یہ وہ نشہ تھا جس سے میں ابھی واقف ہوئی تھی۔۔۔ جب وال پر لکھا آتا "وٹس آن یور مائنڈ " اور یہی بات مجھے مسحور کر دیتی۔میں تنہا دنیا کی سیر کرتی، وہ جزیرے کھوجتی جو برسوں کتابیں پڑھ کر بھی عیاں نہ ہوئے تھے یا کتابوں کی باتیں نظروں کے سامنے جگمگاتی دیکھ کر ان میں ڈوب ڈوب جاتی۔نشہ نشہ ہوتا ہے جب اسے چھوڑنے کا ارادہ کیا تو پھر چھوڑ دیا کہ کوئی پلو پکڑنے والا بھی تو نہ تھا۔ پر اب ایک سال بعد جب بہت زور وشور سے اپنا عہد دہرایا تو پتہ چلا پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا لیکن میں وہیں کی وہیں کھڑی ہوں ۔ محبتوں کا ایک نشہ تھا جو قدم قدم پرجکڑتا تھا۔ ایسی محبتیں جو جان کا روگ بن جاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو نہ جانے کس بلند مقام پر دیکھنے لگ جاتے ہیں ۔ ستم بالائے ستم کہ عین رمضان سے پہلے
ایک سوال نامہ میری انا کےغبارے میں ہوا بھرنے کو مل گیا۔ جومنظر نامہ" کی طرف سے10 جولائی 2013 کو ارسال کیا گیا۔۔۔
لیکن جو ہوا اچھا ہی ہوا کہ آئینے میں چہرہ نظر آیا تو خود ساختہ فہم وفراست کا میک اپ اتر گیا ۔ بار بار اپنے جواب پڑھ کر بھی کوئی گہرائی نظر نہ آئی ،دکھائی دی تو ایک نادان عورت جو تعریف کے دو بول سن کو بظاہرخوش تو ہوجاتی ہے لیکن مطمئن کبھی نہیں ہوتی ۔ تنقید سننے کو تیار رہتی ہے پر تنقید کردی جائے تو اپنی منطق سے رد بھی کر دیتی ہے۔ یہ تو مرد کی ازلی معاملہ فہمی اور بُرد باری ہے جو سب جان کر بھی آج میں جیتا ہےاور درگزرکرتاجاتا ہے۔ لیکن نشہ نشہ ہوتا ہے اوریہ اُتر ہی جاتا ہے چاہے وقت کی کڑوی دوا اثر کرے یا اپنے اندر کا عزم کام دکھائے۔ بظاہر سب ٹھیک دِکھ رہا تھالیکن کہیں کچھ غلط ضرور تھا ۔ دن بھر نشے سے توبہ اور روزہ کھولنے کے بعد ذرا دیر آرام کر کے تراویح کے انتظار سے پہلے اپنے آپ کوبہلا کرصرف میسج دیکھنے کے بہانے نیٹ ان کرنا کہ فیس بک سے توبہ کی تھی بلاگ سے تو نہیں۔ پھر اپنے فیس بک کے بیج کو دیکھنا۔کیا کیا جائے نشہ نشہ ہوتا ہے۔ پھر تراویح پڑھنے کے بعد ٹی وی پر "امام کعبہ شیخ عبد الرحمٰٰن السُدیس" کی تراویح سننا بھی تو گویا روح کی تسکین کا باعث ہے اب بھلا کون اس کو چھوڑ کر نیند جیسا روٹین کا کام کرے اورسارا دن نیند کے خمار میں ہی تو گزرتا ہے کہ جولائی کے روزے ہیں جن میں حَبس کے باعث سانس بھی ُرک کر آتا ہے۔ بچے ویک اینڈ میں نائٹ میچ اور پھر رات کو ٹی وی پر میچ دیکھ کر رات دو بجے ممی کو اُٹھا کر سو جاتے اور یہی وہ وقت ہوتا جب نیند کا نشہ سر چڑھ کر بولتا کہ نشہ نشہ ہوتا ہے وہ وقت دیکھتا ہے اورنہ ماحول ۔ پھر پونے تین بجے ہڑبڑا کر آنکھ کھلتی اور بھاگ دوڑ میں سحری کی تیاری ۔ بچے اور ان کے بابا نیند سے بےحال ان معصوموں کی طرح لگتے جن کا پہلا روزہ ہو اور ان کو زبردستی اٹھا کر کھانا ان کے سامنے رکھنا ۔ دل ہی دل میں اپنے آپ کو یہ سبق یاد کرانا کہ نشہ نشہ ہوتا ہے چاہے خوش فہمی کا ہو یاغلط فہمی کا اس لیے جتنا جلد اس کے دام سے نکل آؤ اس سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ ہاں یاد آیا اپنا چائے کا چھوٹا سانشہ بھی تو سحری کی بھاگ دوڑ میں منہ دیکھتا رہ جاتا کہ ایک وہی تو اکلوتا سہارا ہوتا ہے دن بھر روزہ گزارنے کا ۔ زندگی کا پہلا رمضان ہے جو نشے کی حالت میں گزر رہا ہے لیکن وہ نشہ جو روزہ کھولنے کے بعد چڑھتا ہے اور صبح سحری کے بعد یوں اُترتا ہے کہ ساڑھے چار بجے سونے کے بعد چھ بجے دودھ والے کے موٹر سائیکل کا شور سب خمار اُتار دیتا ہے۔ نشہ کبھی اہم نہیں ہوتا کہ یہ ہماری قوت ِبرداشت کا امتحان ہے اہم یہ ہے کہ کتنی جلدی اُترتا ہے سب سے بڑا نشہ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنا ہے۔
حاصل کلام یہ ٹھہرا کہ کوئی ساتھ بھی اپنا نہیں جب تک کہ ہم خود اپنے ساتھ نہ ہوں ۔اللہ ہم سب کو اپنے اپنے نشے اپنی اپنی طلب کی پہچان کا علم عطا فرمائے ورنہ بےخبری کا نشہ انسان کو دیمک کی طرح چاٹ کر یکدم عرش سے فرش پر بھی گرا دیتا ہے اور کہیں کا نہیں رہنے دیتا نہ دین کا نہ دُنیا کا ۔
16 جون 2015۔۔۔
جواب دیںحذف کریںکامران شاہد نے کہا
بظاہر ہر وہ چیز نشہ ہے . . . جس پر سے آپ کا اختیار کمزور تر یا پھر ختم ہو جائے . . . اور آپ کا اختیار اس چیز کے قبضئہ قدرت میں چلا جائے . . . نشہ شاید تب نشہ بنتا ہے جب آپ اسے نشہ بننے دیں . . . کیونکہ بہرحال قدرت نے آپ کا اختیار آپ ہی ہاتھ میں رکھا ہوا ہے . . . اگر آپ اپنے نفس کی لگام اپنے قبضۂ قدرت میں رکھیں . . . تو بعید ہے کہ نشہ حاوی ہو سکے . . . نشے کا بنیادی،ہدفی اور سب سے بڑا نقصان انسان کی عقل کا زائل ہو جانا ہے . . . اور اگر تم سمجھو تو یہ بڑا نقصان ہے . . . چاہے وہ نشہ نیند کا ہو یا غفلت کا . . .