(پسِ تحریر)
یہ میرے لیےہمیشہ یاد رہنے والی تحریروں میں سے ایک ہے ، نا صرف موضوع کے حساس ہونے کے لحاظ سے
بلکہ اس لیے بھی کہ تقریباً 1500 الفاظ کی یہ تحریر ایک آبشار کی سی روانی میں میری سوچ سے نکل کر لفظ میں ڈھلتی چلی گئی، میری انگلیاں کی بورڈ کے ذریعے ایک جذب کی کیفیت میں بنا رکے لکھتی رہیں اور بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے میں نے اسی لمحے پوسٹ بھی کر دیا۔ یہ 15 نومبر 2013 کے دس محرم کی شام کی بات ہے۔ اسی لیے اس تحریر میں "شام غریباں " کا لفظ بھی آگیا۔
"لاپتہ"
یہ سچی کہانی دو ایسی بچیوں کی داستانِ الم ہے جن میں کچھ بھی مشترک نہیں سوائے شناخت کی تلاش کے۔ایک جسے کسی بدبخت کی نظر کھا گئی اور دوسری وہ جسے پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ماں باپ نے اپنی رضا سے ہمیشہ کے لیے ایک ایسے انجان کے سپرد کر دیا جس سے انسانیت کے علاوہ اور کوئی رشتہ نہ تھا۔
وہ ڈھائی سال کی ایک پیاری سی گول مٹول بچی تھی جسے جھیل کنارے اُمنڈتی گرد وغبارکی گھٹائیں نہ جانے کہاں سے کہاں لےگئیں۔وہ پہلی اولاد تھی ،نئے نئے بنے ماں باپ کی پہلی خوشی ۔۔۔ پہلا بچہ پہلی محبت کی طرح ہوتا ہے جس کے اوّلین لمس کا احساس ساری زندگی ساتھ چلتا ہے۔جس کے ننھے جسم کی نرمی بڑے بڑوں کی کرختگی جذب کر لیتی ہے تو اُس کی پہلی آواز، پہلا جملہ روح سرشار کر دیتا ہے۔
یہ جون2013 کے پہلے ہفتے کا ذکر ہے وہ اپنی لاڈلی کے ساتھ گھر سے دور لانگ ڈرائیو پرتھے۔ راستے میں خیال آیا کہ کیوں نہ آج راول جھیل کنارے کچھ وقت گزارا جائے۔ شادی کے آٹھ برس بعد اُن کے سُونے آنگن میں ایک ننھی پری کی چہکار سنائی دی تھی اوروہ پچھلے کئی سالوں کے ان کہے خدشات بھلا کراُس کی نازبرداریاں کرتے تھے۔
ابھی تو اس نے اٹک اٹک کر بولنا سیکھا تھا ۔۔۔ابھی تو وہ چھوٹے چھوٹے لفظوں کو جملوں میں تراشتی تھی ۔۔۔ابھی تو وہ اُڑتے پرندوں کو دیکھ کر انگلی سے اشارہ کرتی تھی ۔۔۔ ابھی تواس کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں اور ننھے ننھے نخرے شروع ہوئے تھے ۔۔۔ ابھی تو ماں باپ نے اُس کی شرارتوں پر ہلکا سا جھنجھلانا شروع کیا تھا ۔۔۔ ابھی تو وہ اُس کی معصومیت کے خمار سے نظر بچاتے اُسے اچھی باتیں یاد کراتے تھےاور رات سونے سے پہلے اُس کے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں دعائیں سن کر بےساختہ اپنے ساتھ لپٹانے کو لڑپڑتے۔اکثر ماں خود ہار مان لیتی باپ کی محبت دیکھ کر ۔۔۔۔
باپ کی چاہت ہی ایسی ہوتی ہے بھرپور،مکمل ۔۔۔۔ یا شاید یہ مرد عورت کا رشتہ ہے اس کی کشش ہے جو روزِاول سے لکھ دی گئی ہے اسی لیے تو ماں کے وجود کا حصہ ہو کربھی بیٹی کو کبھی مکمل تسکین نہیں مل پاتی۔
ماں کے ساتھ عجیب محبت نفرت کا رشتہ ہوتا ہے۔ بیٹی کو ماں کی ممتا کاثبوت خود اپنے وجود سے ہٹ کرکبھی نہیں ملتا۔ ماں کے ساتھ جُڑی روک ٹوک ،ڈانٹ ڈپٹ اورمار پیٹ تک کی یادیں ایک بھیانک خواب کی صورت ماں کی حقیقت پر پردہ ڈالے رہتی ہیں۔ایک لڑکی خواہ جتنا بھی اپنی ماں سے محبت کے دعوے کرے، خود ماں بن کرماں کے جذبات کی گہرائیوں کو سمجھنے کا اعلان بھی کر دے لیکن ماں کے سامنے دل میں اُس سے خفا خفا سی رہتی ہے کہ ماں اسے دُنیا کے سامنے سر اُٹھا کر چلنے کا اعتماد نہیں دیتی۔۔۔اُس کی ذات پر شک کرتی ہے۔
ایک ماں اپنی بیٹی کے اس احساس کوکبھی نہیں جھٹلاتی۔وہ جانتی ہے کہ لڑکیاں کانچ کے برتن سے بھی نازک ہوتی ہیں۔رویوں کے کھردرے لمس کا بال بھی اس شیشے میں خراش ڈال سکتا ہے۔ماں روکتی تو ہے پرچاہتی بھی ہےکہ بیٹی اپنا راستہ خود چُنے،آپ طے کرے کہ بند گلی کس سمت ہے۔ایک بچی ماں کے خواب کا عکس ہوتی ہے۔ ماں اپنے خواب کی حقیقت جانتی ہے لیکن پھر بھی اُس کا دل اپنے خواب کی سچی تعبیر کے لیے ہمکتا ہے۔ ماں کے ساتھ تخلیق کے درد کا رشتہ آخری سانس تک لاشعور میں لہروں کی صورت موجود رہتا ہے۔ اور باپ کے جسم کا ادھورا احساس ساری عمراپنے ملنے والے ہر رشتے میں محسوس ہوتا ہے چاہے وہ بھائی ہو،شوہر ہو،بیٹا ہو اوریا پھرکوئی اجنبی مہربان۔
بات کہیں بہت دور چلی گئی ۔ خیر اُس روز جب وہ جھیل کے آس پاس خوش گپیاں کرتے لوگوں کو دیکھتے اسےاپنی زندگی کا حسین دن تصور کرتے تھے۔ نہیں جانتے تھے کہ یہ اُن کی زندگی کا بدترین دن ہو گا۔اس سمے اُٹھتی کالی آندھی ہمیشہ کے لیے اُن کی محبتوں کا باغ ویران کر دےگی ۔ اذان کی آواز رب کا بلاوا ہے کہ فلاح کی طرف آؤ اور عصر کا وقت تو ویسے بہت سے نافرمانوں کو سر جھکانے پر مجبور کر دیتا ہے۔اُس روز تقدیر اپنی چال چل رہی تھی ۔ماں بیٹی کو باپ کے حوالے کر کے وضو کرنے گئی اورعین اسی لمحے صورِاسرافیل کی صورت فون کی گھنٹی بجی۔یہ موبائل فون ایک عذاب ہے۔انسان خود کو کسی سُپر پاور کے صدر سے کم نہیں سمجھتا کہ گھنٹی بجتے ہی فوراً نہ اُٹھایا تو شاید حریف پہلے ایٹمی دھماکا نہ کر دے۔ ہم میں سے اکثر اسی خبط میں مبتلا ہیں کہ جانے دوسری طرف کس کا ضروری فون آیا ہے اور ستم یہ کہ کان سے لگاتے ہی دنیا مافیہا سے بےخبر ہو جاتے ہیں۔اُس روز بھی یہی ہوا نہ جانے کس کا فون تھا کتنی لمبی بات ہوئی ۔آنکھ اس وقت کھلی جب ماں نے واپس آ کر بیٹی کو نہ پایا ۔ باپ سے پوچھا تو اس نے پہلے تو بےنیازی سے کہا کہ میں سمجھا کہ تمہارے ساتھ چلی گئی ہے۔ اوراگلے ہی لمحے دونوں کے ہاتھوں سے طوطے اُڑ گئے۔
عین اسی وقت سچ مچ کی آندھی چل پڑی اوردیکھتے ہی دیکھتے سب اپنی سواریوں میں بیٹھےاور بھاگنے لگے۔عجیب افراتفری کا عالم تھا ۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔لوگ زندگی بچا کر خوشیوں کے دسترخوان لپیٹ کر بخیریت گھروں کو لوٹ رہے تھے اور یہ بدنصیب پاگلوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتے راہ چلتوں کو روک کر اپنی جنت تلاش کر رہے تھے۔
کیسی شام ِغریباں تھی جو اُن بہتے پانیوں کے کربلا پراُتری تھی۔۔۔وہ کیسی وضو تھی کہ جس کی نماز نہیں تھی۔۔۔ وہ کیسی آواز تھی کہ جس نےآنگن سونا کر دیا تھا۔۔۔ وہ کیسی لاپرواہی تھی کہ جس نے اُسی شاخ پر ضرب لگائی جس پر تنکا تنکا آشیانہ بنا تھا۔۔۔ وہ کیسا گناہ تھا کہ جس کی ندامت میں دونوں ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملا رہے تھے۔۔۔ وہ کیسی خلش تھی کہ جو آنے والی راتوں میں انہیں ایک دوسرے سے یوں ڈرا دیتی تھی کہ دل کی دھڑکن بھی کہیں ایک دوسرے کی سرگوشی نہ سن لے۔۔۔ وہ کیسی بددعا تھی جو اُن کے دل سے نکلتی تھی تو لبوں تک آتے آتے دعا کی صورت اُن کا جگر چیر دیتی تھی۔۔۔
وہ جس کی آمد کی نوید کے لیے آٹھ برس انتظار کیا اب جیسےجیسے دن گزرتے جا رہے تھے کبھی معجزے کی صورت واپسی کی اُمید رکھتے تو کبھی حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ سے بچ کر اُس کی عزت کی موت کی دعا مانگتے۔اُس آنگن کی کلی کیا کھوئی کہ جب اُس کی خوشبو کو باہر تلاش کیا تو پتہ چلا کہ دُنیا کے گندے بازاروں میں کچی کلیوں کو کس طرح مسلا جاتا ہے۔ آٹھ برس کی جامد خاموشی کے بعد ابھی صرف ڈھائی سال ہی تو نازک جذبوں کی پھوار برسی تھی اوراب دونوں طرف سنی سنائی باتوں کے خوف اوربولتی تصویروں نے مل کر ایسا حبس طاری کر دیا تھا کہ ساتھ رہتے ہوئے بھی وہ کوسوں دور چلے گئے۔ وہ مرد تھا اس نےباہرپناہ ڈھونڈ لی۔ فکرِمعاش کا لبادہ اُوڑھ لیا۔آنکھوں میں تیرتی نمی چھپائےدُنیا کا سامنا کرتا تھا ۔ خالی کمروں اوراُجڑی گود کے ساتھ ماں نے اللہ سے لو لگا لی ۔ صبروشکراور تسلیم ورضا کی چنری پہن کراعتکاف میں بیٹھی ۔ نہ جانے مالک نے کیسے اُس کے دل کو تسکین بخشی ہو گی،ہم نہیں جان سکتے۔۔۔ لفظوں کی چاہے جتنی مرضی کاری گری دکھا دیں،مالک اور بندے کےدرمیان رازونیازکی خوشبو بھی نہیں پا سکتے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں ہم توعام انسان ہیں۔
ایک کہانی اگر سب کے سامنے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں غم کی سیاہی سے لکھی جارہی تھی تو دوسری طرف ایک کہانی ایک ماں کی کوکھ میں بھی پروان چڑھ رہی تھی ۔ وہ ماں جس کی دو معصوم سی بیٹیاں تھیں اوراب پھر اُمید کے غنچے اس کی شاخوں پر کھلتے تھے۔
یہ اسی سال بڑی عید (اکتوبر2013) سے ایک دو روز پہلے کی بات ہےجب تین سو کلو میٹر کی دوری سے فون آیا کہ ابھی آؤ اور اپنی امانت لے جاؤ۔ یہ کیسا حساب تھا کیسی دوستی تھی کہ ایک ماں جس کی چھاتیوں میں ابھی تو بچے کی محبت کا رس بننا شروع ہی ہوا تھا ۔ ابھی تو وہ درد وتکلیف کے مرحلے سےبخیروعافیت سُرخرو ہو کر نیند کے انعام کی حقدار ٹھہری تھی ۔ابھی تو اس نے اپنے آپ کو تیار کرنا تھا کہ تیسری بیٹی پیدا ہونا کوئی جرم نہیں۔اللہ نے صحت کے ساتھ اپنی رحمت اُن کے گھر آنگن میں اتاری ہے۔ لیکن شاید اپنی دوست کے کرب کا احساس ہر احساس پرغالب آگیا اور اُس باپ پر بھی آفرین جس نے اپنی شریک ِحیات کی خواہش کو عبادت جان کر اپنا جگرگوشہ اُس لٹے پٹے جوڑے کے حوالے کر دیا جو اُسے اپنا کھویا ہوا خزانہ جان کر دامن میں سمیٹ کر لوٹ آئے۔
اس سے آگے کچھ نہیں کہوں گی کہ تقدیر کے قلم کے آگے لفظوں کی بڑی سے بڑی فسوں کاری دم توڑ دیتی ہے۔ اللہ اس گھر کو آباد رکھے اور یکے بعد دیگرے آزمائشوں کے اس کھیل میں ثابت قدمی عطا فرمائے۔آمین۔
نومبر15 ،2013
وہ ڈھائی سال کی ایک پیاری سی گول مٹول بچی تھی جسے جھیل کنارے اُمنڈتی گرد وغبارکی گھٹائیں نہ جانے کہاں سے کہاں لےگئیں۔وہ پہلی اولاد تھی ،نئے نئے بنے ماں باپ کی پہلی خوشی ۔۔۔ پہلا بچہ پہلی محبت کی طرح ہوتا ہے جس کے اوّلین لمس کا احساس ساری زندگی ساتھ چلتا ہے۔جس کے ننھے جسم کی نرمی بڑے بڑوں کی کرختگی جذب کر لیتی ہے تو اُس کی پہلی آواز، پہلا جملہ روح سرشار کر دیتا ہے۔
یہ جون2013 کے پہلے ہفتے کا ذکر ہے وہ اپنی لاڈلی کے ساتھ گھر سے دور لانگ ڈرائیو پرتھے۔ راستے میں خیال آیا کہ کیوں نہ آج راول جھیل کنارے کچھ وقت گزارا جائے۔ شادی کے آٹھ برس بعد اُن کے سُونے آنگن میں ایک ننھی پری کی چہکار سنائی دی تھی اوروہ پچھلے کئی سالوں کے ان کہے خدشات بھلا کراُس کی نازبرداریاں کرتے تھے۔
ابھی تو اس نے اٹک اٹک کر بولنا سیکھا تھا ۔۔۔ابھی تو وہ چھوٹے چھوٹے لفظوں کو جملوں میں تراشتی تھی ۔۔۔ابھی تو وہ اُڑتے پرندوں کو دیکھ کر انگلی سے اشارہ کرتی تھی ۔۔۔ ابھی تواس کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں اور ننھے ننھے نخرے شروع ہوئے تھے ۔۔۔ ابھی تو ماں باپ نے اُس کی شرارتوں پر ہلکا سا جھنجھلانا شروع کیا تھا ۔۔۔ ابھی تو وہ اُس کی معصومیت کے خمار سے نظر بچاتے اُسے اچھی باتیں یاد کراتے تھےاور رات سونے سے پہلے اُس کے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں دعائیں سن کر بےساختہ اپنے ساتھ لپٹانے کو لڑپڑتے۔اکثر ماں خود ہار مان لیتی باپ کی محبت دیکھ کر ۔۔۔۔
باپ کی چاہت ہی ایسی ہوتی ہے بھرپور،مکمل ۔۔۔۔ یا شاید یہ مرد عورت کا رشتہ ہے اس کی کشش ہے جو روزِاول سے لکھ دی گئی ہے اسی لیے تو ماں کے وجود کا حصہ ہو کربھی بیٹی کو کبھی مکمل تسکین نہیں مل پاتی۔
ماں کے ساتھ عجیب محبت نفرت کا رشتہ ہوتا ہے۔ بیٹی کو ماں کی ممتا کاثبوت خود اپنے وجود سے ہٹ کرکبھی نہیں ملتا۔ ماں کے ساتھ جُڑی روک ٹوک ،ڈانٹ ڈپٹ اورمار پیٹ تک کی یادیں ایک بھیانک خواب کی صورت ماں کی حقیقت پر پردہ ڈالے رہتی ہیں۔ایک لڑکی خواہ جتنا بھی اپنی ماں سے محبت کے دعوے کرے، خود ماں بن کرماں کے جذبات کی گہرائیوں کو سمجھنے کا اعلان بھی کر دے لیکن ماں کے سامنے دل میں اُس سے خفا خفا سی رہتی ہے کہ ماں اسے دُنیا کے سامنے سر اُٹھا کر چلنے کا اعتماد نہیں دیتی۔۔۔اُس کی ذات پر شک کرتی ہے۔
ایک ماں اپنی بیٹی کے اس احساس کوکبھی نہیں جھٹلاتی۔وہ جانتی ہے کہ لڑکیاں کانچ کے برتن سے بھی نازک ہوتی ہیں۔رویوں کے کھردرے لمس کا بال بھی اس شیشے میں خراش ڈال سکتا ہے۔ماں روکتی تو ہے پرچاہتی بھی ہےکہ بیٹی اپنا راستہ خود چُنے،آپ طے کرے کہ بند گلی کس سمت ہے۔ایک بچی ماں کے خواب کا عکس ہوتی ہے۔ ماں اپنے خواب کی حقیقت جانتی ہے لیکن پھر بھی اُس کا دل اپنے خواب کی سچی تعبیر کے لیے ہمکتا ہے۔ ماں کے ساتھ تخلیق کے درد کا رشتہ آخری سانس تک لاشعور میں لہروں کی صورت موجود رہتا ہے۔ اور باپ کے جسم کا ادھورا احساس ساری عمراپنے ملنے والے ہر رشتے میں محسوس ہوتا ہے چاہے وہ بھائی ہو،شوہر ہو،بیٹا ہو اوریا پھرکوئی اجنبی مہربان۔
بات کہیں بہت دور چلی گئی ۔ خیر اُس روز جب وہ جھیل کے آس پاس خوش گپیاں کرتے لوگوں کو دیکھتے اسےاپنی زندگی کا حسین دن تصور کرتے تھے۔ نہیں جانتے تھے کہ یہ اُن کی زندگی کا بدترین دن ہو گا۔اس سمے اُٹھتی کالی آندھی ہمیشہ کے لیے اُن کی محبتوں کا باغ ویران کر دےگی ۔ اذان کی آواز رب کا بلاوا ہے کہ فلاح کی طرف آؤ اور عصر کا وقت تو ویسے بہت سے نافرمانوں کو سر جھکانے پر مجبور کر دیتا ہے۔اُس روز تقدیر اپنی چال چل رہی تھی ۔ماں بیٹی کو باپ کے حوالے کر کے وضو کرنے گئی اورعین اسی لمحے صورِاسرافیل کی صورت فون کی گھنٹی بجی۔یہ موبائل فون ایک عذاب ہے۔انسان خود کو کسی سُپر پاور کے صدر سے کم نہیں سمجھتا کہ گھنٹی بجتے ہی فوراً نہ اُٹھایا تو شاید حریف پہلے ایٹمی دھماکا نہ کر دے۔ ہم میں سے اکثر اسی خبط میں مبتلا ہیں کہ جانے دوسری طرف کس کا ضروری فون آیا ہے اور ستم یہ کہ کان سے لگاتے ہی دنیا مافیہا سے بےخبر ہو جاتے ہیں۔اُس روز بھی یہی ہوا نہ جانے کس کا فون تھا کتنی لمبی بات ہوئی ۔آنکھ اس وقت کھلی جب ماں نے واپس آ کر بیٹی کو نہ پایا ۔ باپ سے پوچھا تو اس نے پہلے تو بےنیازی سے کہا کہ میں سمجھا کہ تمہارے ساتھ چلی گئی ہے۔ اوراگلے ہی لمحے دونوں کے ہاتھوں سے طوطے اُڑ گئے۔
عین اسی وقت سچ مچ کی آندھی چل پڑی اوردیکھتے ہی دیکھتے سب اپنی سواریوں میں بیٹھےاور بھاگنے لگے۔عجیب افراتفری کا عالم تھا ۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔لوگ زندگی بچا کر خوشیوں کے دسترخوان لپیٹ کر بخیریت گھروں کو لوٹ رہے تھے اور یہ بدنصیب پاگلوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتے راہ چلتوں کو روک کر اپنی جنت تلاش کر رہے تھے۔
کیسی شام ِغریباں تھی جو اُن بہتے پانیوں کے کربلا پراُتری تھی۔۔۔وہ کیسی وضو تھی کہ جس کی نماز نہیں تھی۔۔۔ وہ کیسی آواز تھی کہ جس نےآنگن سونا کر دیا تھا۔۔۔ وہ کیسی لاپرواہی تھی کہ جس نے اُسی شاخ پر ضرب لگائی جس پر تنکا تنکا آشیانہ بنا تھا۔۔۔ وہ کیسا گناہ تھا کہ جس کی ندامت میں دونوں ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملا رہے تھے۔۔۔ وہ کیسی خلش تھی کہ جو آنے والی راتوں میں انہیں ایک دوسرے سے یوں ڈرا دیتی تھی کہ دل کی دھڑکن بھی کہیں ایک دوسرے کی سرگوشی نہ سن لے۔۔۔ وہ کیسی بددعا تھی جو اُن کے دل سے نکلتی تھی تو لبوں تک آتے آتے دعا کی صورت اُن کا جگر چیر دیتی تھی۔۔۔
وہ جس کی آمد کی نوید کے لیے آٹھ برس انتظار کیا اب جیسےجیسے دن گزرتے جا رہے تھے کبھی معجزے کی صورت واپسی کی اُمید رکھتے تو کبھی حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ سے بچ کر اُس کی عزت کی موت کی دعا مانگتے۔اُس آنگن کی کلی کیا کھوئی کہ جب اُس کی خوشبو کو باہر تلاش کیا تو پتہ چلا کہ دُنیا کے گندے بازاروں میں کچی کلیوں کو کس طرح مسلا جاتا ہے۔ آٹھ برس کی جامد خاموشی کے بعد ابھی صرف ڈھائی سال ہی تو نازک جذبوں کی پھوار برسی تھی اوراب دونوں طرف سنی سنائی باتوں کے خوف اوربولتی تصویروں نے مل کر ایسا حبس طاری کر دیا تھا کہ ساتھ رہتے ہوئے بھی وہ کوسوں دور چلے گئے۔ وہ مرد تھا اس نےباہرپناہ ڈھونڈ لی۔ فکرِمعاش کا لبادہ اُوڑھ لیا۔آنکھوں میں تیرتی نمی چھپائےدُنیا کا سامنا کرتا تھا ۔ خالی کمروں اوراُجڑی گود کے ساتھ ماں نے اللہ سے لو لگا لی ۔ صبروشکراور تسلیم ورضا کی چنری پہن کراعتکاف میں بیٹھی ۔ نہ جانے مالک نے کیسے اُس کے دل کو تسکین بخشی ہو گی،ہم نہیں جان سکتے۔۔۔ لفظوں کی چاہے جتنی مرضی کاری گری دکھا دیں،مالک اور بندے کےدرمیان رازونیازکی خوشبو بھی نہیں پا سکتے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں ہم توعام انسان ہیں۔
ایک کہانی اگر سب کے سامنے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں غم کی سیاہی سے لکھی جارہی تھی تو دوسری طرف ایک کہانی ایک ماں کی کوکھ میں بھی پروان چڑھ رہی تھی ۔ وہ ماں جس کی دو معصوم سی بیٹیاں تھیں اوراب پھر اُمید کے غنچے اس کی شاخوں پر کھلتے تھے۔
یہ اسی سال بڑی عید (اکتوبر2013) سے ایک دو روز پہلے کی بات ہےجب تین سو کلو میٹر کی دوری سے فون آیا کہ ابھی آؤ اور اپنی امانت لے جاؤ۔ یہ کیسا حساب تھا کیسی دوستی تھی کہ ایک ماں جس کی چھاتیوں میں ابھی تو بچے کی محبت کا رس بننا شروع ہی ہوا تھا ۔ ابھی تو وہ درد وتکلیف کے مرحلے سےبخیروعافیت سُرخرو ہو کر نیند کے انعام کی حقدار ٹھہری تھی ۔ابھی تو اس نے اپنے آپ کو تیار کرنا تھا کہ تیسری بیٹی پیدا ہونا کوئی جرم نہیں۔اللہ نے صحت کے ساتھ اپنی رحمت اُن کے گھر آنگن میں اتاری ہے۔ لیکن شاید اپنی دوست کے کرب کا احساس ہر احساس پرغالب آگیا اور اُس باپ پر بھی آفرین جس نے اپنی شریک ِحیات کی خواہش کو عبادت جان کر اپنا جگرگوشہ اُس لٹے پٹے جوڑے کے حوالے کر دیا جو اُسے اپنا کھویا ہوا خزانہ جان کر دامن میں سمیٹ کر لوٹ آئے۔
اس سے آگے کچھ نہیں کہوں گی کہ تقدیر کے قلم کے آگے لفظوں کی بڑی سے بڑی فسوں کاری دم توڑ دیتی ہے۔ اللہ اس گھر کو آباد رکھے اور یکے بعد دیگرے آزمائشوں کے اس کھیل میں ثابت قدمی عطا فرمائے۔آمین۔
نومبر15 ،2013
اگر میں دفتر میں نا ہوتا تو میں یہ بھول جاتا کہ میں ایک مرد ہوں۔ میرا دل کر رہا ہے کہ میں دھاڑیں مار مار کے رووں۔ اور اگر رو رو کر زندہ بچ جاوں تو ان لوگوں کو جو کسی کے جگر گوشوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔ میں ان کو اس طرح قتل کروں کہ انسانیت ان کے ٹکڑے دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوجائے۔
جواب دیںحذف کریںچاہے اس کے بعد مجھے موت ملے
یا چاہے اس کے بعد
مجھے جہنم ملے۔
آپ کی تحریر پڑھ کر میرے الفاظ بہت چھوٹے اور بے معانی ہو گئے ہیں۔ دماغ دل سب ایک ہی سمت میں آگ بگولہ ہو رہے ہیں۔
کیسے ضمیر ہیں لوگوں کے ، پتا نہیں ہیں بھی کہ نہیں۔ لیکن لعنت ہو ایسے معاشرے پر جس میں لوگ اتنے بے حس ہیں۔ ایک تحریک کی ضرورت ہے ایک خونی تحریر رقم ہونی چاہئے ایک ایسا انقلاب جو الٹ دے ایسی حکمرانیاں ایسی حکومتیں۔
اور یا پھر میں دعا کروں گا، کہ اللہ پاک ایسا عذاب ناذل کرئے کہ عاد و ثمود کی طرح ہم لوگ بھی فنا ہو کر عبرت بن جائیں۔
شاید مزید لکھوں تو صبر کے سارے پیمانے ٹوٹ جائیں۔
اللہ پاک ان والدین کو صبر عطاء کرئے اور ہم لوگوں کو غیرت ایمانی کہ ان کا ساتھ دے سکیں۔
آمین ثم آمین۔
very impressive ...very logical
جواب دیںحذف کریںby Julian Redwood
A video posted by Full Frontal Fatherhood 1, featuring Julian Redwood emphasizing the role of a dad in the mother-baby equation is so important and informative.
Redwood, a Marriage and Family Therapist, illustrates the possibilities of modern families and single parents and goes on to explain why a third person needs to be introduced so the child can understand that he/she is not a part of the mother but an individual in itself.
Although Julian Redwood is speaking to the typical mother and father roles, a truly healthy relationship allows both parents to move between the masculine and feminine, each inhabiting positions of power and vulnerability, authority and tenderness.
According to Redwood, “This primary care (not necessarily a woman) is just someone who will take the time to nurture the development of the baby and attend to his/her needs. A baby’s brain needs this bonding to arrange itself properly and without it, people literally go varying levels of insane.”
http://www.curejoy.com/content/psychological-importance-dad/
https://daleel.pk/2017/10/16/61608
جواب دیںحذف کریںیہ میرے لیےہمیشہ یاد رہنے والی تحریروں میں سے ایک ہے ، نا صرف موضوع کے حساس ہونے کے لحاظ سے بلکہ اس لیے بھی کہ تقریباً 1500 الفاظ کی یہ تحریر ایک آبشار کی سی روانی میں میری سوچ سے نکل کر لفظ میں ڈھلتی چلی گئی، میری انگلیاں کی بورڈ کے ذریعے ایک جذب کی کیفیت میں بنا رکے لکھتی رہیں اور بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے میں نے اسی لمحے پوسٹ بھی کر دیا۔ یہ 15 نومبر 2013 کے دس محرم کی شام کی بات ہے۔ اسی لیے اس تحریر میں "شام غریباں " کا لفظ بھی آگیا.
جواب دیںحذف کریں