ہفتہ, اکتوبر 26, 2013

"ممتازمفتی اور وہ"

















ممتاز مفتی
پیدائش۔۔۔11ستمبر 1905
وفات ۔۔۔۔27اکتوبر
۔1995۔اسلام آباد
 ممتاز مفتی کےلفظ   سےاسکاتعلق برسوں پرانا ہے.۔اس وقت سےجب وہ رشتوں اورتعلقات   کی غلام گردشوں میں بولائی بولائی پھرتی تھی۔ کالج لائبریری کی  نیم تاریکی میں،  اُس  کی الماریوں کی سرد ہوا سے بھی ڈری سہمی ،چپکےچپکے ،منٹو    اور
محی الدین نواب کو پڑھتی اور پھرگھبرا کرلاحول پڑھتی،ڈھلتی شاموں میں کالج کی آخری بس میں گھر جاتی اورسب بھول کر سو جاتی۔ راتوں کو اُٹھ کر خاص طور پر اپنے سٹورمیں بکسوں پر بیٹھ کر کیمسٹری اورفزکس کے رٹے لگاتی کہ سردیوں کے موسم میں جس کی کھڑکی کے ٹوٹے شیشے سے مارگلہ کی پہاڑیوں کو چھوکرآنے والی یخ ہوا نہ صرف نیندیں اُڑاتی تھی بلکہ اس کے وجود میں دہکتے آتش فشاں کو بھی تھپکیاں دے کرسلاتی تھی۔ زندگی اورمحبت اُس کے لیے الجبرا کا سوال یا ریاضی کے کُلیے کی طرح تھی۔عشق ومحبت اور ہوس کی کہانیاں بھی اسی قبیل کی لگتیں اُن کو حل کرنا چاہتی لیکن بغیراستاد کے یہ سبق سمجھ نہ آتا تھا۔ اسی دوران "علی پور کا ایلی" ایک دوست سے ملی ۔ یہ پہلا باقاعدہ عشق تھا جو کمرے میں داخل ہوا۔ بڑے اہتمام سے تکیے پر رکھ کر اسے پڑھتی ۔ عجیب کشمکش کے دن تھے کہ سمجھ آتی تھی یہ کتاب اورنہ ہی جان چھوڑتی تھی۔ ہر صفحے کے بعد لگتا شاید اب کوئی بہت انوکھی بات سامنے آئے گی لیکن جیسے جیسے صفحے پلٹتی دل بوجھل ہوا جاتا۔ زندگی کی یہ جھلک کبھی خواب میں بھی نہ سوچی تھی۔ یہ کتاب اچھی بھی نہ لگتی تھی اور چھوڑنے کو بھی جی نہ چاہتا۔ خیر کتاب  پوری پڑھنے کے بعد اس کے چیدہ چیدہ صفحات  میں سے نوٹ کیے اقتباسات  ڈائری پر اتارے اور لتاب  واپس کر دی۔ مفتی صاحب سے پہلی ملاقات نے ایک اٹھارہ سالہ بچی پرکچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ بہت بعد میں پتہ چلا جو ہوا منطقی طورپردرست تھا کہ مفتی صاحب نے ہمیشہ عورت کی بات کی ۔ وہ عورت کے دل کے تاروں کو چھو کراپنے حرفوں میں گنگناتے تھے۔ وقت کا پہیہ آگے سرکا،رشتوں نے گھیراؤ کیا اور جب ایک سنہرے بندھن میں اپنے آپ کو سمیٹا تو بہت کچھ واضح ہوا۔ پھر اپنی ڈائری سے ممتاز مفتی کو پڑھتی تو یوں لگتا جیسے سب اس کے لیے ہی لکھا گیا ہے۔ وہ اُسی کے شہر کے باسی تھے ۔ دل ان سے ملاقات کے لیے ضدیں کرنے لگا تواپنے پڑوسی انکل جناب محترم ضمیرجعفری صاحب کے گھر گئی،انہوں نے فون ملایا جناب ممتازمفتی سے بات کرائی اور مفتی صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ "کڑئیے ملنا چاہندی اے تے فیر مل لے، ڈردی کیوں اے ، کوئی کج نئیں آکھے گا اک اٹھاسی سال دے بابے نال ملنے توں"۔لیکن اس کا ڈرنہیں گیا اوروہ پھر کبھی نہ ملی اس شخص سے جو نہ صرف دلوں کوچھوتا تھا بلکہ اس کے گھر کے قریب بھی رہتا تھا۔ اس کے بعد دو برس بیت گئے اورممتاز مفتی صاحب اپنے آخری ٹھکانے کو روانہ ہو گئے۔ کون جانتا تھا کہ وہ اٹھارہ سال کی لڑکی جو"علی پورکا ایلی"پڑھ کر مفتی صاحب سے خفا ہو گئی تھی اور پھربعد میں ان سے بات کر کے ڈر گئی تھی ۔ اُن کے جانے کے دوعشروں بعد برملا اعتراف کرے گی کہ "ایلی"  تو اُسی وقت اس کے اندر کنڈلی مارکر بیٹھ گیا اوروہ ممتازمفتی کی کتاب کا ایک ورق بن گئی تھی۔
عورت کے متعلق مفتی صاحب کا جوتجزیہ تھا اس کے رنگ ہرعورت کی ذات میں کسی نہ کسی حد تک جھلکتے ہیں۔ جنس عورت کی ذات کا ایک اہم پرتوضرور ہے لیکن عورت کی اہلیت کو اس کی اوٹ میں فراموش کر دینا اُس کے ساتھ صریح ناانصافی ہے۔ ممتاز مفتی نے بےشک عورت کے اس روپ اور اس رویے کی حقیقت سے قریب تر تصویرکشی کی،اس کی نفسیاتی گرہوں کو دھیرے دھیرے کھولنے کی سعی کی لیکن بحیثیت مجموعی ممتاز مفتی کی تحاریر میں عورت کی نسوانی کشش اُس کی قابلیت پر حاوی دکھائی دیتی ہےاور یہیں اُن سے اختلاف پیداہوتا ہے۔ ممتاز مفتی کا کمال یہ ہے کہ جب انہوں نے عورت کے جذبات واحساسات کی اتھاہ گہرائیوں تک رسائی حاصل کر لی تو پھر رُکے نہیں اوردوسری دُنیاؤں کے سفر میں "الکھ نگری ،لبیک اور تلاش " جیسی معرکہ آرا تصانیف منطرِعام پر آئیں۔ قلم کو اس طرح یکدم تین سوساٹھ درجے کے زاویے پر موڑ دینا اُردو ادب میں صرف اور صرف جناب ممتاز مفتی کا ہی خاصہ ہے اور ہمیشہ رہےگا ۔اللہ ان کی آخرت کی منزلیں آسان کرے آمین۔
۔۔۔۔۔۔
جناب ممتاز مفتی کی رُخصتی کے دوعشرے گزرنے پر میں نے اپنےاحساسات قلم بند کیے۔یہ میرے ذمے اُن کا قرض تھا کہ ان کی تحاریر سے جو کچھ حاصل کیا اُسے اپنے پڑھنے والوں کے سپرد کر دوں۔اُن کے لفظ کی تازگی جو آج بھی میرے ہمراہ ہے اُسے آگے پھیلاؤں۔ممتاز مفتی جگ کے مفتی تھے اُن کےلفظ کسی تعارف کے محتاج نہیں اُردو ادب سے ذرا سی بھی رغبت رکھنے والا اُن کے لفظ کی تاثیر سےمتاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میرا مقصد صرف اور صرف نئے پڑھنے والوں کو ہماری زبان وادب کے بڑے لکھاری کی ایک جھلک دکھانا تھا۔اُن کے لفظ لازوال ہیں اوراُن کا حق بھی تھا کہ انہیں سراہا جائے،ان کو یاد کیا جائے۔ یہ نوشتہ دیوارتو ہے کہ ہم مردہ پرست قوم ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم جانے کے بعد بھی کسی کی قدر کرنا بھولتے جا رہے ہیں۔ ہم "آج "کی خواہشات کے حصول میں ماضی کے خزینے فراموش کرتے جا رہے ہیں اور مستقبل کی عمارت کھوکھلی بنیادوں پر تعمیر کر رہے ہیں۔ اپنے حصے کا دیا جلاتے جائیں جہاں تک ہو سکے۔ یہ جگنو سی چمک منزل کی نشاندہی تو نہیں لیکن سمت واضح ضرور کر دے گی۔
مفتی صاحب نے "الکھ نگری" میں لکھا تھا "چھوٹا منہ بڑی بات" اور میں مفتی صاحب کے بارے میں بس اتنا کہوں گی کہ "جتنے منہ اتنی بات "۔ان کے افعال وکردار کی بحث سے قطع نظر میرے نزدیک وہ ایک ایسے گلاس کی طرح تھے جو آدھا بھرا ہوا ہوتا ہے اب یہ دیکھنے والی آنکھ پر ہے کہ کسی کو وہ آدھا خالی دکھتا ہے تو کسی کو آدھا بھرا ہوا۔ ہر کوئی اپنے ظرف سے فیصلہ کرتا ہے۔کوئی اسے نامکمل دیکھ کر لوٹ جاتا ہے اور کسی کو جتنا بھی ملتا ہے وہ اس میں سے اصل کشید کرنے کی سعی کرتا ہے۔
ایک اعتراف کہ میں نے ممتاز مفتی کی ساری کتابیں نہیں پڑھیں۔ لیکن کسی کوجاننےکے لیے خواہ وہ کتاب ہو یا انسان اُس کا 
حرف بہ حرف حفظ کرلینا قطعاً ضروری نہیں۔کبھی ایک نکتہ سب راز کھول دیتا ہے یا ایک جھلک ہماری نگاہ کو اُس کےقدموں 
میں سجدہ ریز کر دیتی ہے۔
بسااوقات زیادہ نہ جاننا ہی ہمارے لیے نعمت ہوتا ہے کہ اگر ہم کسی کو مکمل جان جائیں،اُس  کی رگ رگ سے واقف ہو جائیں تو پھر عشق کی اُن منزلوں تک رسائی دُور نہیں ہوتی جوعقل وخرد سے پرے اورجنوں کی  وادیوں کے قریب ہوتی ہیں۔
  ڈائری  سے  بلاگ تک ۔۔۔
ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کی ڈائری سے جناب ممتاز مفتی کی "علی پور کا ایلی" سے چند اقتباسات جواس وقت نوٹ کیے جب وہ خود بھی ان کے اصل مفہوم سے ناآشنا تھی۔
" علی پور کا ایلی" 
ممتاز مفتی 
سال اشاعت۔۔۔۔ 1962کتاب پڑھی ۔۔۔۔۔ 1985 
۔۔۔۔۔
پیش لفظ۔۔۔
یہ روئیداد ہے
ایک ایسے شخص کی جس کا تعلیم کچھ نہ بگاڑ سکی۔ 
جس نے تجربے سے کچھ نہ سیکھا۔ 
جس کا ذہن اور دل ایک دوسرے سے اجنبی رہے۔ 
جو پروان چڑھا اور باپ بننے کے باوجود بچہ ہی رہا۔ 
جس نے کئی ایک محبتیں کیں لیکن محبت نہ کر سکا جس نے محبت کی پھلجڑیاں اپنی انا کی تسکین کے لیے چلائیں لیکن سپردگی کے عظیم جذبے سے بیگانہ رہا اور شعلہ جوالہ پیدا نہ کر سکا جو زندگی بھر اپنی انا کی دھندلی بھول بھلیوں میں کھویا رہا حتٰی کہ بالاآخر نہ جانے کہاں سے ایک کرن چمکی اور اسے نہ جانے کدھر کو لے جانے والا ایک راستہ مل گیا۔
صفحہ 343 ۔۔۔۔۔ 
ان دنوں ایلی یہ نہ جانتا تھا کہ عورت کے لیے محبت محض ایک ماحول ہے چرن تپسیہ بھری نگاہوں اور رومان بھرے خوابوں سے بنا ہوا ماحول ۔ اُسے یہ معلوم نہ تھا کہ عورت کو مردانہ جسم کی خواہش ضمنی ہوتی ہے اس کے نزدیک محبت ایک ذہنی تاثر ہے جسم کو وہ صرف اس لیے برداشت کرتی ہے کہ وہ طلسم نہ ٹوٹے ،وہ تپسیہ بھری نگاہیں گم نہ ہو جائیں۔ 
صفحہ488 ۔۔۔۔۔۔
اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ محبت میں ذہنی بے تعلقی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے اورانسان جس قدر متاثر ہوتا ہے اسی قدر ناکام رہتا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عورت فطری طور پر اس مرد کی تسخیر پر شدت سے آمادہ ہوتی ہے جو ناقابل ِ تسخیر نظر آئے اور جو دل وجان سے اس کا ہو چکا ہو اس میں کوئی دلچسبی محسوس نہیں کرتی ۔
صفحہ 584۔۔۔۔ 
ایلی کو ابھی تک یہ علم نہ تھا کہ عشق میں ازلی طور پر خود کشی کا عنصر ہوتا ہے۔عشق بذات ِخود عاشق کو محبوب
کے وصال سے محروم کر دیتا ہے،اس علم نہ تھا کہ محبت محبوب کا حصہ ہے عاشق کا نہیں اوراگر کسی کی محبت حاصل کرنا مقصود ہو تو اسے محبوب بننے کی کوشش کرنا چاہیے نہ کہ عاشق اور بے نیازی محبوب کی بنیادی خصوصیت ہے۔ 
صفحہ 891۔۔۔۔۔ 
شرارت وہ لوگ کرتے ہیں جن پر شبہ نہ کیا جاسکے یا جن کا اعمال نامہ صاف ہو اوران پر حرف نہ آسکے۔ بدنام آدمی تو اپنا جائز تحفظ بھی نہیں کر سکتا وہ تو کانچ کے گلاس کی طرح ہوتا ہے ذرا ضرب لگی اورٹوٹ گیا۔
جھوٹ - سچ ۔۔۔۔۔ ایلی نے زندگی میں نئی بات سیکھی تھی وہ سچ کے ذریعے جھوٹ بولتا تھا ،اس نے تجربے کے زور پر اس حقیقت کو پا لیا تھا کہ سچی بات کہہ دی جائے تو سننے والا حیران رہ جاتا ہے اسکے دل میں نفرت کی بجائے دلچسپی اور ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی احترام بھی - اس کے علاوہ کہنے والے کے دل پر بوجھ نہیں رہتا اور بات کہہ دی جائے تو وہ پھوڑا نہیں بنتی ،اس میں پیپ نہیں پڑتی ،اکثر اوقات لوگ سمجھتے ہیں کہ مذاق کر رہا ہے انہیں یقین ہی نہیں آتا ۔ 
صفحہ 894۔۔۔۔
ایلی جذباتی طور پر ڈرا ہوا بچہ تھا اور ذہنی طور پر ایک نڈر مفکر۔
صفحہ 1010۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کے متعلق ایلی اب سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کا قائل نہ رہا تھا ۔ زندگی میں بہت سی باتیں جو اس نے سوچ سمجھ کر کی تھیں ان کا انجام اچھا نہ ہوا تھا ۔ عورت کے متعلق تو اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ چاند کی طرح ایک مخصوص پہلو آپ کے سامنے پیش کرتی ہے اورعورت کے کئی ایک پہلو ہیں ، متبسم پہلو ، متذبذب پہلو ،'مجھے کیا ' پہلو ۔ 
ایلی سمجھنے لگا تھا کہ شادی ایک جوا ہے چاہے آنکھیں پھاڑ کر کھیلو یا آنکھیں بند کر کے۔
صفحہ 1018۔۔۔۔۔۔
اس روز ایلی نے محسوس کیا کہ وہ مسلمان تھا ۔ سیاسی خیالات کا سوال نہ تھا ،مسلم لیگی اور کانگرسی کا سوال نہ تھا، یہ سوال نہ تھا کہ آیا وہ اسلام سے واقف ہے آیا وہ شریعت کا پابند ہے یہ سوال نہ تھا کہ آیا رام دین سا مسلمان ہے یا محمدعلی سا۔۔۔۔
سوال صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان ہے یا ہندو ۔ ایلی نے محسوس کیا کہ وہ مسلمان ہی نہیں بذات ِخود پاکستان ہے چاہے وہ پاکستان کے حق میں تھا یا خلاف ۔۔ چاہے وہ اسلام سے بیگانہ تھا ۔۔ چاہے وہ مذہبی تعصب سے بےنیاز تھا وہ بذات ِخود پاکستان تھا۔ اس کے دل میں کوئی چلا رہا تھا ۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد ۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد
صفحہ 1019۔۔۔۔۔۔۔
ایلی کے تمام خیالات درہم برہم ہورہے تھے اس کا ذہن گویا ازسرِنو ترتیب پا رہا تھا ،پرانے خیالات کی اینٹیں اُکھڑی جا رہی تھیں ،نئی اینٹیں نہ جانے کہاں سے آ گئی تھیں اور اس کے ذہن میں آپ ہی آپ لگی جا رہی تھیں ۔
صفحہ 1029۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو پاکستان ۔۔۔ ایلی ریڈیو کھول کر بیٹھا تھا ۔ گھڑی نے بارہ بجا دئیے،ایلی کا دل دھک سے رہ گیا ۔ بارہ بجے اعلان ہونے والا تھا ۔آج وہ محسوس کر رہا تھا جیسے وہ اعلان اس کی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہو جیسےآج اس کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہو۔ وہ یہ بھول چکا تھا کہ وہ مذہبی تعصب سے بلندوبالا ہے وہ یہ بھول چکا تھا کہ قیام ِپاکستان سے بیگانہ ہے وہ ہندوستان اورعوام کی بہتری کے فلسفے کو فراموش کرچکا تھا وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ بذات ِخود پاکستان ہے اور اس روز اس کی حدود طے ہونے والی تھیں وہ محسوس کر رہا تھا جیسے وہ ایک بادشاہ ہو اور پاکستان کے قیام کا اعلان دراصل اس کی رسمِ تاجپوشی کا اعلان تھا ۔اسے معلوم ہونا تھا کہ اس کی قلمرو کہاں سے کہاں تک ہو گی لیکن وہ خوش نہ تھا ایک انجانی اُداسی اور پریشانی اس پر مسلط تھی جیسے اسے یقین نہ ہو کہ اس کی قلمرو اسے مل جائے گی وہ مضطرب تھا بے حد مضطرب ۔۔۔۔

8 تبصرے:

  1. قلم کو اس طرح یکدم تین سوساٹھ درجے کے زاویے پر موڑ دینا صرف دو وجہ سے ممکن ہے۔

    ایک یہ کہ قلم نرم ربر کا بنا ہوا ہو۔

    یا پھر بندے کی عمر70 سے اوپر ہوگئی ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ایک اور وجہ بھی ہے کہ انسان پتھر بن جائے تو اس کے ہاتھ میں لوہا بھی موم ہو جاتا ہے اور عمر70 سے اوپر ہو یا 7 سے اوپر بچپنا چھوٹ ہی جاتا ہےلیکن اندر کا بچہ کبھی بڑا نہیں ہوتا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. آپ مفتی صاحب کی باقی کتب بھی پڑھیں کیونکہ انسان کے فکری ارتقا کی منازل واضح ہوں گی۔ اور آپ خود بھی اچھا لکھتی ہیں لکھتی ہی رہئے اور جیتی رہئے

    جواب دیںحذف کریں
  4. جنس عورت کی ذات کا ایک اہم پرتوضرور ہے لیکن عورت کی اہلیت کو اس کی اوٹ میں فراموش کر دینا اُس کے ساتھ صریح ناانصافی ہے۔
    ایک کڑوا سچ۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. بھت عمده طریقے سے احساسات کی ترجمانی کی هے اور مفتی صاحب کا مختصر تعارف بھی پیش کیا, بڑی بات یه که اپنے خیالات کو بنا کسی لگی لپٹی کے بیان کیا هے, بھت سے لوگ اس سے گھبراتے هیں که کهیھ ایکسپوز نه هوجائیھ.
    آپ کے لئے بھت سی داد

    جواب دیںحذف کریں
  6. بہت عمدہ تبصرہ ھے،ممتاز مفتی کا سفر جس طرح علی پور کے ایلی سے لبیک اور تلاش کے قوسین میں داخل ھوا تو یوں لگتا ھے کہ ان کی ذات کا وہ دائرہ مکمل ھو گیا جو انسانی نفسیات کی بھول بھلیوں سے شروع ھوا تھا اور اگر مفتی صاحب فرائڈ کے ھی اسیر رھتے تو دائرہ کبھی مکمل نہ ھوتا مگر جب ان کے ھاں بات نفس سے نکل کر دل اور وجدان کی ھونے لگی تو پھر ان کے سامنے ایک اور دنیا ایک الکھ نگری عیاں ھو گئی اور ان کی دنیا بدل گئی۔ لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ھے کہ انسانی سفر جسم اور روح دونوں سے عبارت ھے اور نفس کو جانے بغیر انسان کو مکمل ادراک حاصل نہیں ھو سکتا۔

    آپ کی پوسٹ نہایت شاندار ھوتی ھیں اور موضوعات سوچنے پر دعوت دینے والے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. Amin Bhayani
    واہ! ممتاز مفتی مرحوم پر آپ کی یہ ایک بڑی ہی پُر اثر تاثراتی تحریر ہے۔
    "سردیوں کے موسم میں جس کی کھڑکی کے ٹوٹے شیشے سے مارگلہ کی پہاڑیوں کو چھوکرآنے والی یخ ہوا نہ صرف نیندیں اُڑاتی تھی بلکہ اس کے وجود میں دہکتے آتش فشاں کو بھی تھپکیاں دے کرسلاتی تھی"
    یہ فقرے پڑھ کر تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں خُود بھی مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں خیمہ زن ہوں اور اُن پہاڑیوں کا چُھو کر آنے والی یخ بستہ ہوا میرے گالوں کی چُھو رہی ہیں۔
    ماشاءاللہ بہت خُوب۔
    October 29, 2013 at 5:05am

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...