نورجہاں
تاریخ پیدائش۔۔۔10 جنوری 1945
تاریخ انتقال۔۔۔4 مارچ 2012
ویسے تو میں دُنیا کی زندگی کےہر حساب کتاب،سوال جواب،جمع تفریق اور سب سے بڑھ کر سانس اور آس کے سودوزیاں سے تین برس پہلے ہی آزاد ہو چکی ہوں۔ لیکن! اگر میں دُنیا میں سانس لے رہی ہوتی تو آج کے روز میرا ستر برس کا سفر مکمل ہوجاتا اورمیری بیٹی جسے گزشتہ کچھ برسوں سے ہر احساس کو لفظ کے غلاف میں محفوظ کرنے کا ایک نشہ سا ہے۔۔۔ضرور کاغذ قلم میرے ہاتھ میں تھماتی۔۔۔جانے وہ کیا لکھوانا چاہتی؟ کیا سننا چاہتی؟ میری زندگی تو ایک کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے رہی تھی۔۔۔جس کے اولین ورق سے لے کر آخری ورق کے آخری حرف۔۔۔آخری فل سٹاپ تک وقت نہ صرف جلی حروف بلکہ حالات کے ہائی لائیٹر سے نمایاں کرتا گیا بلکہ قسمت کا بےرحم قلم انڈرلائن بھی کرتا چلا گیا۔
وہ سب کچھ تو جانتی ہے جو اُس کی آنکھوں کے سامنے تصویر ہوا۔۔۔اُس کے کانوں کے پردے پر کبھی سرگوشیوں۔۔۔کبھی بےربط ادائیگیوں،کبھی خاموشیوں تو کبھی نظروں کی زبان میں بےآواز چیخوں کی صورت میری آخری ہچکی تک چلتا رہا۔
کیا کچھ تو اس نے لکھ دیا اتنے برسوں میں میری مرضی کے بغیر۔ میں اگر اس کے ساتھ ہوتی تو شاید کبھی بھی اس بات کی اجازت نہ دیتی۔ وہ پگلی تو جلتے سورج کے نیچے تنہا کھڑی برف کے محل بناتی ہے۔۔۔اپنے آپ کو قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھتی ہے۔ وہ جان کر بھی نہیں جاننا چاہتی کہ یہ فنا ہونے کی لذت اس کے خوابیدہ آتش فشاں کو مزید بیدارکر دیتی ہے۔ میں اسے بتاتی سمجھاتی کہ سب مان لو۔ جیسا دکھتا ہے اسے قبول کر لو کہ یہی رسم دنیا ہے وقت کا چلن ہے۔ اس سے کہتی کہ اندر کی تھکن ظاہر ہونے لگے تو انسان باہر کے کام کا نہیں رہتا۔ ہمارے رشتے ہمارے تعلق ہمارے لباس کی طرح ہیں۔۔۔ لباس چاہے کتنا ہی بوسیدہ اور پرانا ہو جائے سب داغ سب زخم چھپا لیتا ہے۔ اس کی بنت اور بناوٹ پر غور کرنا چھوڑ دو۔۔۔ کیوں وہ سوال حل کرنا چاہتی ہو جس کا جواب صرف وقت جانتا ہے۔
اگر میں اس سے سب کہہ سکتی اس کی سن سکتی تو شاید اسے کچھ بھی کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ میری کوکھ میں دوسرے وجود کا اولین لمس وہی تو ہے۔۔۔وہ تو دنیا میں سانس لینے سے پہلےسے مجھے جانتی ہے۔۔۔ میری کہی سے زیادہ ان کہی کا ادراک رکھتی ہے۔ یہ اور بات کہ اس کا اظہار اس نے میرے جانے کے بعد کیا۔ میں تو اس کی پیدائش کے اولین لمحے سے اس کے جسم کے ہر راز اورسوچ کے ہرپہلو سے بخوبی آشنا تھی۔ بےخبری اورلاتعلقی کی چادرمیری مجبوری تھی کہ اپنی ذات کے سوامیرے پاس اسے کچھ بھی دینے کا اختیار نہ تھا۔ اورمیری ذات رشتوں کے اتنے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی کہ وہ ساری عمر اس میں سے اپنا حصہ ہی ڈھونڈتی رہی۔وہ بہت صابرتھی جو مل جاتا چپ کر کے لے لیتی۔۔۔اسی کو متاع جاں جان کر مجھ سے کبھی شکوہ نہ کرتی۔ لیکن پھر وہ تھکنے لگی۔۔۔ لڑنے لگی ۔۔۔مجھ سے دور بھاگنے لگی۔ میری سردمہری اور روایتی خوف اُسے اپنے خول میں مقید رکھتا۔ مجھے سب دِکھتا تھا سمجھ میں آتا تھا۔ دور رہنا میری بھی تومجبوری تھا کہ قربت کے لمحوں میں اگر اسے میری آنکھ کی نمی دِکھ جاتی تو بہت بکھر جاتی۔۔۔ شاید زندگی کے ضابطوں کو پل میں توڑ دیتی یا پھرخود ٹوٹ جاتی۔ وہ مجھے نہیں جانتی تھی۔لیکن میں اس کے پل پل کے احساس سے آشنا تھی کہ وہ میرا ہی تو عکس تھی۔۔۔ میری کسی خواہش کا مجسم اظہار تھی۔ میرے لیے یہی بہت تھا کہ وہ مکمل ہے مطمئن ہے اور زندگی نے اس کے لیے اپنی نعمتوں کے دروازے وسیع کر دئیے ہیں۔ اس کا وجود میرے ادھورے خوابوں کو تسکین دیتا تھا۔ میں کیوں اس سے اپنے دکھ باٹتی کہ اس کے آنسو میرے آنسو تھے اور مجھ میں اس کے آنسو دیکھنے کا حوصلہ بھی تونہ تھا۔ میرے جانے کے بعد اس نے اپنے آنسوؤں کو لفظ کی زبان دے دی۔ اپنی خاموشی کو تخیل کی مسند پر بٹھا کر باعث تکریم جانا۔ اپنی حدود جان لیں اور اُن سے سمجھوتہ بھی کر لیا۔
انسانوں سے رشتے اور تعلق اگر ہمارا لباس ہیں تولباس جسم کا پردہ ہوتا ہے زخم لگنے پر لباس سرکتا ہے تو جسم کی برہنگی بھی دکھتی ہے۔اس لیے جتنا ہو سکے برداشت کرنا چاہیے۔ میں نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا۔ اب سوچتی ہوں شاید وہ ٹھیک ہی کرتی ہے کہ اس نے یہی دیکھا میری برداشت کی حد جب ختم ہو گئی تو جسم نے ہار مان لی۔ خٰیر یہ زندگی کہانی بھی عجیب ہے۔۔۔ اسے گزارنے کا کوئی ایک اصول ہم سب کے لیےمقرر نہیں کر سکتے۔ ہر ایک اپنے اپنے طور پراپنی صلاحیت اور اہلیت کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
!آخری بات
میں اپنی زندگی کہانی کبھی نہ لکھتی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ یہاں کہانی وہی گھسی پٹی چل رہی ہے۔ کردار بس وقت اور حالات کے تحت اپنا حلیہ بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھتی ۔ شاید شاعری کی زبان میں مختصر حال دل کہتی ۔۔۔لمبی کہانیاں کبھی نہ لکھتی کہ جو بیت گیا سو بیت گیا۔ بکھرے ماضی میں بےشک میرے لیے بہت سی قیمتی یادیں اورگہرے سناٹے تھے۔۔۔میں ان کو یاد ضرور رکھتی تھی، یاد کرتی تھی ۔لیکن حال کو سیمٹنا اور اس کے اندھیروں کو دور کرنے کی سعی کرنا میرا مقصد حیات تھا۔ جس سے میں آخری سانس تک غافل نہ رہی۔
اللہ ہم سب کے لیے دنیا وآخرت میں آسانیاں عطا فرمائے۔آمین
تاریخ پیدائش۔۔۔10 جنوری 1945
تاریخ انتقال۔۔۔4 مارچ 2012
ویسے تو میں دُنیا کی زندگی کےہر حساب کتاب،سوال جواب،جمع تفریق اور سب سے بڑھ کر سانس اور آس کے سودوزیاں سے تین برس پہلے ہی آزاد ہو چکی ہوں۔ لیکن! اگر میں دُنیا میں سانس لے رہی ہوتی تو آج کے روز میرا ستر برس کا سفر مکمل ہوجاتا اورمیری بیٹی جسے گزشتہ کچھ برسوں سے ہر احساس کو لفظ کے غلاف میں محفوظ کرنے کا ایک نشہ سا ہے۔۔۔ضرور کاغذ قلم میرے ہاتھ میں تھماتی۔۔۔جانے وہ کیا لکھوانا چاہتی؟ کیا سننا چاہتی؟ میری زندگی تو ایک کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے رہی تھی۔۔۔جس کے اولین ورق سے لے کر آخری ورق کے آخری حرف۔۔۔آخری فل سٹاپ تک وقت نہ صرف جلی حروف بلکہ حالات کے ہائی لائیٹر سے نمایاں کرتا گیا بلکہ قسمت کا بےرحم قلم انڈرلائن بھی کرتا چلا گیا۔
وہ سب کچھ تو جانتی ہے جو اُس کی آنکھوں کے سامنے تصویر ہوا۔۔۔اُس کے کانوں کے پردے پر کبھی سرگوشیوں۔۔۔کبھی بےربط ادائیگیوں،کبھی خاموشیوں تو کبھی نظروں کی زبان میں بےآواز چیخوں کی صورت میری آخری ہچکی تک چلتا رہا۔
کیا کچھ تو اس نے لکھ دیا اتنے برسوں میں میری مرضی کے بغیر۔ میں اگر اس کے ساتھ ہوتی تو شاید کبھی بھی اس بات کی اجازت نہ دیتی۔ وہ پگلی تو جلتے سورج کے نیچے تنہا کھڑی برف کے محل بناتی ہے۔۔۔اپنے آپ کو قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھتی ہے۔ وہ جان کر بھی نہیں جاننا چاہتی کہ یہ فنا ہونے کی لذت اس کے خوابیدہ آتش فشاں کو مزید بیدارکر دیتی ہے۔ میں اسے بتاتی سمجھاتی کہ سب مان لو۔ جیسا دکھتا ہے اسے قبول کر لو کہ یہی رسم دنیا ہے وقت کا چلن ہے۔ اس سے کہتی کہ اندر کی تھکن ظاہر ہونے لگے تو انسان باہر کے کام کا نہیں رہتا۔ ہمارے رشتے ہمارے تعلق ہمارے لباس کی طرح ہیں۔۔۔ لباس چاہے کتنا ہی بوسیدہ اور پرانا ہو جائے سب داغ سب زخم چھپا لیتا ہے۔ اس کی بنت اور بناوٹ پر غور کرنا چھوڑ دو۔۔۔ کیوں وہ سوال حل کرنا چاہتی ہو جس کا جواب صرف وقت جانتا ہے۔
اگر میں اس سے سب کہہ سکتی اس کی سن سکتی تو شاید اسے کچھ بھی کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ میری کوکھ میں دوسرے وجود کا اولین لمس وہی تو ہے۔۔۔وہ تو دنیا میں سانس لینے سے پہلےسے مجھے جانتی ہے۔۔۔ میری کہی سے زیادہ ان کہی کا ادراک رکھتی ہے۔ یہ اور بات کہ اس کا اظہار اس نے میرے جانے کے بعد کیا۔ میں تو اس کی پیدائش کے اولین لمحے سے اس کے جسم کے ہر راز اورسوچ کے ہرپہلو سے بخوبی آشنا تھی۔ بےخبری اورلاتعلقی کی چادرمیری مجبوری تھی کہ اپنی ذات کے سوامیرے پاس اسے کچھ بھی دینے کا اختیار نہ تھا۔ اورمیری ذات رشتوں کے اتنے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی کہ وہ ساری عمر اس میں سے اپنا حصہ ہی ڈھونڈتی رہی۔وہ بہت صابرتھی جو مل جاتا چپ کر کے لے لیتی۔۔۔اسی کو متاع جاں جان کر مجھ سے کبھی شکوہ نہ کرتی۔ لیکن پھر وہ تھکنے لگی۔۔۔ لڑنے لگی ۔۔۔مجھ سے دور بھاگنے لگی۔ میری سردمہری اور روایتی خوف اُسے اپنے خول میں مقید رکھتا۔ مجھے سب دِکھتا تھا سمجھ میں آتا تھا۔ دور رہنا میری بھی تومجبوری تھا کہ قربت کے لمحوں میں اگر اسے میری آنکھ کی نمی دِکھ جاتی تو بہت بکھر جاتی۔۔۔ شاید زندگی کے ضابطوں کو پل میں توڑ دیتی یا پھرخود ٹوٹ جاتی۔ وہ مجھے نہیں جانتی تھی۔لیکن میں اس کے پل پل کے احساس سے آشنا تھی کہ وہ میرا ہی تو عکس تھی۔۔۔ میری کسی خواہش کا مجسم اظہار تھی۔ میرے لیے یہی بہت تھا کہ وہ مکمل ہے مطمئن ہے اور زندگی نے اس کے لیے اپنی نعمتوں کے دروازے وسیع کر دئیے ہیں۔ اس کا وجود میرے ادھورے خوابوں کو تسکین دیتا تھا۔ میں کیوں اس سے اپنے دکھ باٹتی کہ اس کے آنسو میرے آنسو تھے اور مجھ میں اس کے آنسو دیکھنے کا حوصلہ بھی تونہ تھا۔ میرے جانے کے بعد اس نے اپنے آنسوؤں کو لفظ کی زبان دے دی۔ اپنی خاموشی کو تخیل کی مسند پر بٹھا کر باعث تکریم جانا۔ اپنی حدود جان لیں اور اُن سے سمجھوتہ بھی کر لیا۔
انسانوں سے رشتے اور تعلق اگر ہمارا لباس ہیں تولباس جسم کا پردہ ہوتا ہے زخم لگنے پر لباس سرکتا ہے تو جسم کی برہنگی بھی دکھتی ہے۔اس لیے جتنا ہو سکے برداشت کرنا چاہیے۔ میں نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا۔ اب سوچتی ہوں شاید وہ ٹھیک ہی کرتی ہے کہ اس نے یہی دیکھا میری برداشت کی حد جب ختم ہو گئی تو جسم نے ہار مان لی۔ خٰیر یہ زندگی کہانی بھی عجیب ہے۔۔۔ اسے گزارنے کا کوئی ایک اصول ہم سب کے لیےمقرر نہیں کر سکتے۔ ہر ایک اپنے اپنے طور پراپنی صلاحیت اور اہلیت کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
!آخری بات
میں اپنی زندگی کہانی کبھی نہ لکھتی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ یہاں کہانی وہی گھسی پٹی چل رہی ہے۔ کردار بس وقت اور حالات کے تحت اپنا حلیہ بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھتی ۔ شاید شاعری کی زبان میں مختصر حال دل کہتی ۔۔۔لمبی کہانیاں کبھی نہ لکھتی کہ جو بیت گیا سو بیت گیا۔ بکھرے ماضی میں بےشک میرے لیے بہت سی قیمتی یادیں اورگہرے سناٹے تھے۔۔۔میں ان کو یاد ضرور رکھتی تھی، یاد کرتی تھی ۔لیکن حال کو سیمٹنا اور اس کے اندھیروں کو دور کرنے کی سعی کرنا میرا مقصد حیات تھا۔ جس سے میں آخری سانس تک غافل نہ رہی۔
اللہ ہم سب کے لیے دنیا وآخرت میں آسانیاں عطا فرمائے۔آمین
گنگ ہو کر رہ گیا۔ بہت عمدہ لکھا، بہت ہی زیادہ!
جواب دیںحذف کریں"اندر کی تھکن ظاہر ہونے لگے تو انسان باہر کے کام کا نہیں رہتا۔ ہمارے رشتے ہمارے تعلق ہمارے لباس کی طرح ہیں۔۔۔ لباس چاہے کتنا ہی بوسیدہ اور پرانا ہو جائے سب داغ سب زخم چھپا لیتا ہے۔ اس کی بنت اور بناوٹ پر غور کرنا چھوڑ دو۔۔۔ کیوں وہ سوال حل کرنا چاہتی ہو جس کا جواب صرف وقت جانتا ہے۔"
اف، کتنی گہرائی ہے ان باتوں میں۔
کتنا کچھ چھپا کر کتنا کچھ کہہ دیا اس پوسٹ میں۔ ایک عورت کا دکھ، ایک ماں کا دکھ، ایک بیٹی کا دکھ۔ مجبوریاں، خوشیاں اور تسکین۔ سب کچھ ہی تو ہے اس تحریر میں۔ ایک اور چیز جو بہت نمایاں ہے وہ ہے تھکن، اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ایک نامعلوم سی تھکن ذات میں اتر گئی، نہ جانے کیوں؟
منیرہ قریشی کہتی ہیں
جواب دیںحذف کریںتم نے تو دل نکال کر طشتری میں رکھ دیا ،،،،لیکن لاتعداد،،،،،لا تعداد ،،،،جنھیں قلم ،یا تو نصیب نہیں ہوا،،،یا ،،،جنھیں خاموشی میں ہی پناہی لینا آگیا ۔۔۔اور اسی خاموشی میں مٹی کی چادر اوڑھ کر سدھار گئیں ۔۔۔ورنی کہانیاں ہی کہانیاں تھیں ،،ہیں ،،،اور ہوں گی !!!
(بہت ہی دلفگار و دل اداس تحریر )