٭ یہ نہ دیکھو کہاں سے مل رہا ہے یہ دیکھو کس نسبت سے کیا مل رہا ہے۔
٭ہر جگہ سے کچھ نہ کچھ ملتا ضرور ہے کوئی لینے تو ہو۔
٭جو درد دیتا ہے دوا دینابھی اُسی کا کام ہے،یہ نہ کہو کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔
٭جو جس راہ کا مسافر ہے اس کا رزق اُسی راہ پر ہے۔
٭سچ کا بھی وقت ہوتا ہے وقت گزر جائے تو سچ جھوٹ میں فرق بہت مشکل ہے۔ جو سچ وقت پر نہ بولا جائے بعد میں وہ جھوٹ بن جایا کرتا ہے۔ ٭اصل ہنر دُنیا فتح کرنا نہیں بلکہ اپنے آپ کو دریافت کرنا ہے۔
٭کسی کی پروا کبھی نہیں صرف اپنے اندر کی آوازسنو جو کبھی دھوکا نہیں دیتی۔
٭دنیا فقط آنکھ کھلنے اور آنکھ بند ہونے کی کہانی ہے۔آنکھ اس وقت ہی کھلتی ہے جب وہ ہمیشہ کے لیے بند ہونے والی ہو۔
٭ زندگی میں ہمیشہ وہ نہیں ملتا جس کی تمنا کی ہو۔۔۔زندگی میں ہمیشہ وہی ملتا ہے جسے سہارنے کا حوصلہ ہو۔
٭زندگی اندازوں پر گزارنے والے ہمیشہ خوفزدہ ہی رہتے ہیں۔ زندگی یقین کا نام ہے نہ صرف اپنی ذات پر بلکہ اپنے احساس پر بھی۔ اہم یہ ہے کہ ہماری موجودگی کا احساس باقی رہےنہ صرف ہمارے سامنے بلکہ ہمارے جانے کے بعد بھی ۔ اور یہ احساس جب تک خود ہم میں اپنے لیے بیدار نہیں ہو گا ۔دوسرے کبھی اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکیں گے۔
٭محبت خواب جیسی تو ہوتی ہےلیکن محبت خواب نہیں ہوتی۔
٭سب کہہ دینا اپنائیت کی نشانی ہے اور سب سننے کا حوصلہ رکھنا کسی پر اعتماد کا اظہار ہے۔
٭۔اچھے اخلاق سیکھنے سے نہیں برتاؤ سے سمجھ آتے ہیں۔
٭جو جانتا نہیں وہ مان کیسے سکتا ہے۔اندھا دھند تقلید تو رب کو بھی منظور نہیں۔
٭عزت کا لباس ہر مردوزن کا بنیادی حق ہے۔کسی کا حق چھیننے والےسب سے پہلے خود برہنہ ہوجاتے ہیں۔
٭ زبان خاموش ہو جائے تو لمس بول پڑتے ہیں۔
٭جاگنا بھی کسی کسی کا نصیب ہے ورنہ ہم میں سے اکثر بند آنکھوں کے ساتھ آتے ہیں اور ایک عالم ِخودفراموشی میں گزر جاتے ہیں۔
٭ دل پر وہی یقین رکھتے ہیں جنہیں اپنے دماغ پر یقین نہیں ہوتا کہ وہ دل کو منا لے گا۔
٭وقت کبھی کسی کو نہیں ملا اورنہ ہی مل سکتا ہے یہ لمحوں کے فیصلے ہوتے ہیں جن کی خاطر ہم صدیاں گزار دیتےہیں۔
٭زخم بھر جاتے ہیں ۔۔۔ خراشیں سدا رہتی ہیں۔
٭خراشیں اگر تحفہ ہیں غلطی یاد دلانے کے لیےتو زخم چاہے دل پر لگیں یا بدن پر ایک سبق ہوتے ہیں جو ہمیں ہماری جہالت کا پتہ دیتے ہیں ۔
٭جو کسی کے بھروسے پہ پہلی بارایک حد پھلانگ جائے ۔پھر اسے اس کے اشارے پہ بار بار ہر حد پھلانگنا پڑتی ہے۔
٭کسی کو یک لخت مسترد کر دینا بہت آسان ہے لیکن اُسے قبول کرنے کی اپنی غلطی ماننا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔
٭ہم اپنے آپ کو نہیں دیکھتے دوسروں کے رویے دیکھتے ہیں۔۔ اپنے آپ سے دوستی نہیں کرتے۔ کسی انجان مہربان کی تلاش میں دردر بھٹکتے ہیں ۔ جو ہمارے اندر کا اندر جان سکے اور ایسا مکمل طور پر کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ناآسودہ رہتے ہیں ۔
٭کسی اپنے" کی تلاش ہمیں در در بھٹکاتی ہے اور جو اپنا ہو وہ خود ہی مل جاتا ہے جب ہم تھک ہار کر بیٹھ جائیں۔
٭دوسروں سے ہار مان لو اس لیے کہ تم انہیں کبھی بھی نہیں جان سکتے۔ اپنے آپ سےکبھی ہار نہ مانو کیونکہ آخری سانس تک جاننے کے دروازے کھلے ہیں بزعم خود عقل مندوں کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو ۔اُن کا قول وفعل سب سمجھا دے گا۔
٭اپنے آپ کی تلاش جاری رکھو۔ جو خود کو پہچان جائے اُس کے لیے دُنیا کی پہچان مشکل نہیں۔
٭جس کو اپنی پہچان نہ ہو وہ کسی دوسرے کی پہچان کیسے کر سکتا ہے۔ جو اپنا بھلا نہ کر سکے وہ کسی اورکا بھلا بھی نہیں کر سکتا۔
٭کچے گھڑے کبھی پار نہیں لگتے اسی طرح انسان کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوتی ۔لیکن !!! اس کا یقین سانس کے آخری لمحے بھی قائم ہوجائے تو بیڑہ پار ہے۔زندگی کے اس کھیل میں ہارجیت کس کا مقدر ہے کون جانے۔کوئی جیت کے بھی ہار جاتا ہے اور کوئی سب ہار کے بھی جیت جاتا ہے۔
٭پہاڑ کی بلندی کو کسی سچائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن اپنی تنہائی ختم کرنے کے لیے کسی ساتھ کی ضرورت ضرور ہوتی ہے خواہ جو اس پر قدم رکھ کر تسخیر کرنے کا مصنوعی غرور کیوں نہ رکھتا ہو ۔
٭جو ٹوٹتے نہیں وہ جڑنے کا ہنر کبھی نہیں جان سکتے۔۔۔اور جو جڑتے نہیں وہ مٹی کے نہیں پتھر کے بنے ہوتے ہیں ۔اور جو مٹی کا نہ ہو وہ انسان ہی نہیں۔
٭ زندگی کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ لفظ "دائرہ" ہے۔اس میں ہر سوال کا جواب اور ہر جواب کی وضاحت ہے۔دائرے کا مرکز ہو تو اعلیٰ وارفع اور نہ ہو تو فقط سفر ہی سفر۔۔۔بےسمت،بےمقصد۔
٭خوش فہمی۔۔۔
کسی نے کہا کہ ہم سب بکاؤ ہیں... ہماری قیمت چند لفظ یا فقرے ہیں ،،،کوئی تعریف کر کے خرید لیتا ہے تو کوئی محبت بھرے چند لفظ کہہ کر۔۔۔۔بےشک یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ماننے پر کوئی تیار نہیں ہوتا اور ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ستم یہ ہے کہ کبھی کیا بلکہ اکثر ہم مفت میں ہی بک جاتے ہیں ان کے ہاتھوں جنہیں نہ ہماری ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی خریدنے کی طلب۔ اور اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کچھ بھی تو اپنا نہیں نہ جان نہ مال اور نہ ہی جذبات۔ بس قیمت لگانے کی خوش فہمی ہی زندگی ہے۔..
٭دنیا کا سب سے طاقتور انسان نیند،بھوک اور اپنی ذاتی ضروریات کے آگے ایک پل میں بے بس ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کا سب سے کمزور انسان "وینٹی لیٹر"کی بیساکھی کے سہارے ادھار کے کچھ پل حاصل کر ہی لیتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں