سورۂ الاعراف۔۔7۔۔۔آیت 56۔ترجمہ۔۔۔
۔"اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور اللہ سے خوف کرتے ہوئے اُمید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا ۔ کچھ شک نہیں اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے"۔
ہمارے ساتھ جو بھی ہوتا ہے۔ ہماری دُعاؤں کا ثمر ہے۔
ہمارے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے۔ ہماری دُعاؤں کا ثمر ہے۔
ہمارے ساتھ جو کُچھ بھی ہو گا وہ بھی ہماری دعاؤں کا ثمر ہو گا۔
اللہ سے مانگو اور خوب مانگو۔ لیکن! سوچ لو کہ اللہ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ جو اُسے دل سے، روح کی انتہائی گہرائی سے پُکارتا ہے وہ اُسے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔پرجب ہمارے دل کی مُراد بَرآتی ہے تووہ ہماری ضرورت قطعاً نہیں ہوتی۔ہم اس بات سے نظریں چُرا کراللہ سے شِکوہ ہی کیے جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کُچھ بھی اچھا کیوں نہیں ہورہاـ
۔"ہم خواہشات تو بُہت ذوق وشوق سے پالتے ہیں-اُن کی حفاظت کرتے ہیں۔اُن کو ایک مقدس کتاب کی طرح دل کے معبد میں اُونچے مقام پر رکھتے ہیں لیکن اُن کا پھل کھانے کا ظرف نہیں رکھتے"۔ اپنی خواہش کا پھل ہمیشہ ہماری توقع کے مطابق نہیں ہوتا۔
"اہم بات"
یاد رکھو کبھی کسی عذاب۔۔۔ کسی آزمائش کے ختم ہونےکی دُعا نہ مانگنا۔ ہر مُصیبت۔۔۔ہر پریشانی میں اللہ سےاُس کا رحم مانگنا۔۔۔اُس کا کرم مانگناُ۔۔۔اُس کی رضا چاہنا۔ اللہ مہربان ہے۔جان لو اگر اُس نے تمہاری دُعا قبول کرلی تو عذاب تو ٹل جائے گا۔ لیکن پھر کسی اور سمت۔۔۔ کسی اور راستے پر مل گیا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ برداشت سے باہر ہو گیا تو کیا کرو گے۔اللہ جو دے اُس پر راضی ہو جاؤ۔اور جو نہ دے اُس پر بھی راضی رہو۔ پھر کیا مُصیبت کیا عذاب سب برداشت کرنے کا حوصلہ مل جائے گا۔
ہم خود بھی نہیں جانتے کہ ہماری دعا ہمارے حق میں بہتر بھی ہے یا نہیں۔ دوسرے ہمیں رب کی عطا کو عقل کی کسوٹی سے پرکھنے کی شعوری تو کیا لاشعوری کوشش بھی نہیں کرنا چاہیے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر شیطانی وسوسہ اہل ایمان کے قدم ڈگمگا دیتا ہے۔ کوئی دنیا کے بالا خانوں کی سیڑھیاں چڑھ کر رب کو پا لیتا ہے تو کسی کو اللہ کے گھر جا کر بھی محض درودیوار کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
ہمارے ساتھ جو بھی ہوتا ہے۔ ہماری دُعاؤں کا ثمر ہے۔
ہمارے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے۔ ہماری دُعاؤں کا ثمر ہے۔
ہمارے ساتھ جو کُچھ بھی ہو گا وہ بھی ہماری دعاؤں کا ثمر ہو گا۔
اللہ سے مانگو اور خوب مانگو۔ لیکن! سوچ لو کہ اللہ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ جو اُسے دل سے، روح کی انتہائی گہرائی سے پُکارتا ہے وہ اُسے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔پرجب ہمارے دل کی مُراد بَرآتی ہے تووہ ہماری ضرورت قطعاً نہیں ہوتی۔ہم اس بات سے نظریں چُرا کراللہ سے شِکوہ ہی کیے جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کُچھ بھی اچھا کیوں نہیں ہورہاـ
۔"ہم خواہشات تو بُہت ذوق وشوق سے پالتے ہیں-اُن کی حفاظت کرتے ہیں۔اُن کو ایک مقدس کتاب کی طرح دل کے معبد میں اُونچے مقام پر رکھتے ہیں لیکن اُن کا پھل کھانے کا ظرف نہیں رکھتے"۔ اپنی خواہش کا پھل ہمیشہ ہماری توقع کے مطابق نہیں ہوتا۔
"اہم بات"
یاد رکھو کبھی کسی عذاب۔۔۔ کسی آزمائش کے ختم ہونےکی دُعا نہ مانگنا۔ ہر مُصیبت۔۔۔ہر پریشانی میں اللہ سےاُس کا رحم مانگنا۔۔۔اُس کا کرم مانگناُ۔۔۔اُس کی رضا چاہنا۔ اللہ مہربان ہے۔جان لو اگر اُس نے تمہاری دُعا قبول کرلی تو عذاب تو ٹل جائے گا۔ لیکن پھر کسی اور سمت۔۔۔ کسی اور راستے پر مل گیا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ برداشت سے باہر ہو گیا تو کیا کرو گے۔اللہ جو دے اُس پر راضی ہو جاؤ۔اور جو نہ دے اُس پر بھی راضی رہو۔ پھر کیا مُصیبت کیا عذاب سب برداشت کرنے کا حوصلہ مل جائے گا۔
ہم خود بھی نہیں جانتے کہ ہماری دعا ہمارے حق میں بہتر بھی ہے یا نہیں۔ دوسرے ہمیں رب کی عطا کو عقل کی کسوٹی سے پرکھنے کی شعوری تو کیا لاشعوری کوشش بھی نہیں کرنا چاہیے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر شیطانی وسوسہ اہل ایمان کے قدم ڈگمگا دیتا ہے۔ کوئی دنیا کے بالا خانوں کی سیڑھیاں چڑھ کر رب کو پا لیتا ہے تو کسی کو اللہ کے گھر جا کر بھی محض درودیوار کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
حرفِ آخر
دعااور بددعا وہ آخری ہتھیار ہیں میدانِ دُنیا میں جیتنے کے سارے حربے ناکام ہونے کے بعد ہمارے احساس کی مُٹھی میں اُترتے ہیں۔یہ تاش کے وہ پتے ہیں جو ساری چالیں چلنے کے بعد ہمارے ہاتھ میں بچتے ہیں۔کہا جاتا ہےکہ دعا یقین کے ساتھ مانگی جائے تو معجزے رونما ہوتے ہیں ۔دراصل معجزے تو تقدیرِالٰہی میں لکھے جا چکے ہوتے ہیں بس دعا کا وسیلہ درکار ہوتا ہے۔
بددعائیں لگتی نہیں ہیں بس پیچھا کرتی ہیں۔۔۔دینے والے کا اور سُننے والے کا۔
بددعائیں وقت کی کمان سے نکلا وہ تیر ہیں جو پلٹ جائیں تو دینے والے کی روح وجسم چھید ڈالتی ہیں۔
کسی کو دی گئی دعا ہو یا بددعا ایسی سرگوشی ہے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتی ہے تو بازگشت بن کر اپنی ہی روح کو اجالتی ہے اور یا پھر ہمیشہ کے لیے مایوسی کے پاتال میں دھکیل دیتی ہے۔
جواب دیںحذف کریں"یہ کیسی کاپی ہے..؟" قدرت نے پوچھا..
"اس میں دعائیں لکھی ہیں.. میرے کئی ایک دوستوں نےکہا تھا کہ خانہ کعبہ میں ہمارے لئے دعا مانگنا.. میں نے وه سب دعائیں اس کاپی میں لکھ لی تھیں.."
"دھیان کرنا.." وه بولے.. "یہاں جو دعا مانگی جائے وه قبول هو جاتی هے.."
میں نے حیرت سے قدرت کی طرف دیکھا..
بولے.. "اسلام آباد میں ایک ڈائریکٹر ہیں.. عرصہ دراز ہوا انہیں روز بخار ہو جاتا تھا.. ڈاکٹر ' حکیم ' وید ' ہومیو سب کا علاج کر دیکھا' کچھ افاقہ نہ ہوا.. سوکھ کر کانٹا ہو گئے.. آخر چارپائی پر ڈال کر کسی درگاہ پر لے گئے.. وہاں ایک مست سے کہا.. بابا دعا کر کہ انہیں بخار نہ چڑھے.. انہیں آج تک پھر بخار نہیں چڑھا..
اب چند سال سے گردن کے پٹھے اکڑے ہوئے ہیں.. وه اپنی گردن ادھر ادھر ہلا نہیں سکتے.. ڈاکٹر کہتے ہیں یہ مرض صرف اس صورت میں دور ہو سکتا هے کہ انھیں بخار چڑھے.. انھیں دھڑا دھڑ بخار چڑھنے کی دوائیاں کھلائی جا رہی ہیں مگر انھیں بخار نہیں چڑھتا.."
دعاؤں کی کاپی میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی.. میں نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا..
"میرے الله.. کیا کسی نے تیرا بھید پایا ہے ________؟؟؟"
ممتاز مفتی کی " لبیک " سے ایک اقتباس