زندگی ایک سمندر ہے۔۔۔اورہم اُس کےساحل پر ریت کے گھروندے بنا رہے ہیں۔۔۔ ہمارے حصے میں ہماری مُٹّھی کے برابر ریت آئی ہے۔۔۔یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ ریت وہ جو ہر آن ہماری مُٹّھی سے پھسلتی جارہی ہے۔۔۔نہ جانے کب فنا کی لہر آئے اورسب بہا لے جائے۔
اس پس منظرمیں ہماراسب سے سچّا دوست۔۔۔ سب سے سکون آور ٹانک۔۔۔ سب سے بڑھ کر اندراورباہر سے۔۔۔ایکسرے اور دوسری جدید مشینوں سے بڑھ کرہمیں سمجھنے والا۔۔۔ہمارے دماغ کے ایک ایک خُلیے۔۔۔ہمارے دل کے ہر ٹِشّو کو جانچنے والا اگرکوئیہے توہماری اپنی ذات ہے۔
جو ہر پل ہر وقت اپنی کارکردگی کے بارے میں خبردار کرتی رہتی ہے۔۔۔اپنی مہلت اورکم مائیگی کو تسلیم کرتی ہے۔۔۔اپنی طاقت اورصلاحیت کو ثابت کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔لیکن یہ ہماری اور صرف ہماری کم عقلی ہےکہ ہم اُس آواز کو نہیں سنتے۔۔۔گہری نیند میں مدہوش شخص کی طرح اس الارم کوبند کر دیتےہیں۔۔۔ اُٹھنے کے لیے باہرکی آوازوں پرکان لگائے رکھتےہیں۔۔۔آخرتک شکوہ کیے جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں تو کسی نے اُٹھایا ہی نہیں۔۔۔ ہمیں تو آواز نہیں آئی۔۔۔ ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا۔۔۔ہمارے ساتھ سب بُرا کیوں ہوتا ہے؟
اپنے اندر کی آواز کو سُننے کے لیے صرف اپنے آپ سے رُجوع کرنے کی ضرورت ہے۔یہ دُنیا کا سب سے آسان کام ہے تو
سب سے مُشکل بھی ہے،آسان یوں کہ بقول شاعر
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جُھکائی دیکھ لی
مُشکل ایسےکہ ساری دُنیاکی بھانت بھانت کی بولیاں سُننے کے بعداپنی ذات پر یقین کا لمحہ آتا ہے تو یہی وہ لمحہ ہے جب یہ خلش شِدّت سے نمودار ہوتی ہے کہ
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو اُدھار کی حاجت ہے
قصّہ مُختصر ہمیں اپنی مٹھی میں دبی ریت سے سب کچھ بنانا ہے فقط ایک لفظ کو بڑا کر کے دل کی کھڑکی پر لگانا ہے۔۔۔ ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔وہ لفظ۔۔۔وہ اسمِ اعظم "راضی با رضا " کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اللہ ہمیں علم کے ساتھ عمل کی توفیق بھی دے۔
آمین یا رب العالمین
22 جنوری 2010
اس پس منظرمیں ہماراسب سے سچّا دوست۔۔۔ سب سے سکون آور ٹانک۔۔۔ سب سے بڑھ کر اندراورباہر سے۔۔۔ایکسرے اور دوسری جدید مشینوں سے بڑھ کرہمیں سمجھنے والا۔۔۔ہمارے دماغ کے ایک ایک خُلیے۔۔۔ہمارے دل کے ہر ٹِشّو کو جانچنے والا اگرکوئیہے توہماری اپنی ذات ہے۔
جو ہر پل ہر وقت اپنی کارکردگی کے بارے میں خبردار کرتی رہتی ہے۔۔۔اپنی مہلت اورکم مائیگی کو تسلیم کرتی ہے۔۔۔اپنی طاقت اورصلاحیت کو ثابت کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔لیکن یہ ہماری اور صرف ہماری کم عقلی ہےکہ ہم اُس آواز کو نہیں سنتے۔۔۔گہری نیند میں مدہوش شخص کی طرح اس الارم کوبند کر دیتےہیں۔۔۔ اُٹھنے کے لیے باہرکی آوازوں پرکان لگائے رکھتےہیں۔۔۔آخرتک شکوہ کیے جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں تو کسی نے اُٹھایا ہی نہیں۔۔۔ ہمیں تو آواز نہیں آئی۔۔۔ ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا۔۔۔ہمارے ساتھ سب بُرا کیوں ہوتا ہے؟
اپنے اندر کی آواز کو سُننے کے لیے صرف اپنے آپ سے رُجوع کرنے کی ضرورت ہے۔یہ دُنیا کا سب سے آسان کام ہے تو
سب سے مُشکل بھی ہے،آسان یوں کہ بقول شاعر
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جُھکائی دیکھ لی
مُشکل ایسےکہ ساری دُنیاکی بھانت بھانت کی بولیاں سُننے کے بعداپنی ذات پر یقین کا لمحہ آتا ہے تو یہی وہ لمحہ ہے جب یہ خلش شِدّت سے نمودار ہوتی ہے کہ
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو اُدھار کی حاجت ہے
قصّہ مُختصر ہمیں اپنی مٹھی میں دبی ریت سے سب کچھ بنانا ہے فقط ایک لفظ کو بڑا کر کے دل کی کھڑکی پر لگانا ہے۔۔۔ ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔وہ لفظ۔۔۔وہ اسمِ اعظم "راضی با رضا " کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اللہ ہمیں علم کے ساتھ عمل کی توفیق بھی دے۔
آمین یا رب العالمین
22 جنوری 2010
جواب دیںحذف کریںننھے قطروں سے ہی دریا بنتے ہیں
لوگ بڑی خوشیوں کو ڈھونڈنے میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو پاوں تلے روندتے چلے جاتے ہیں، وہ یہ سچائی نہیں سمجھ پاتے کہ دریا تو چھوٹے چھوٹے پانی کے قطروں سے مل کر ہی بنتا ہے ۔۔۔۔ جب انہیں احساس ہوتا ہے تو باقی ماندہ زندگی ان روندی گئی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا ماتم کرتےاس دنیا سے ناکام و نامراد چلے جاتے ہیں ۔
آج سے چھوٹی سے چھوٹی خوشی کو سمیٹ لو ، ان ننھے قطروں کو جوڑ کر خوشیوں کا دریا بنا لو ۔