دُنیا کےمیدان میں، دُنیا کے اسٹیج پر ہم صرف دو طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں۔
"سانپ اور سیڑھی "
باقی جتنے ملنے والے ہیں وہ حاضرین ہیں یا تماشائی۔۔۔تالیاں بجاتے ہیں یا اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔آوازیں کستےہیں یا پھر شاباشی کے ڈونگرے برساتے ہیں۔۔۔ کبھی"ایک بار اور"کی صدا لگاتے ہیں توکبھی نقالی کہہ کریکسر رد بھی کر دیتےہیں ۔۔۔کبھی باربار آتے ہیں اورہربارنیا لُطف پاتے ہیں۔۔۔توکبھی ایک بارآ کر دوبارہ نہ آنے کی قسم کھا لیتے ہیں۔۔۔کبھی روبرو ہوتے ہیں تو کبھی ہواؤں میں سوچ کے لمس کوچھوتےہیں۔۔۔ کبھی داتا جان کرخیرات طلب کرتے ہیں،گڑگڑاتے ہیں تو کبھی گدا سمجھ کربھیک دیتےہوئےایک نگاہِ غلط بھی نہیں ڈالتے ۔۔۔ کبھی ساتھ نباہنےکی قسمیں کھاتے ہیں توکبھی ساتھ یوں چھوڑجاتے ہیں کہ کبھی ملے ہی نہ تھے۔۔۔کبھی قاتل ملتےہیں توکبھی مسیحا۔۔۔کبھی دردہیں توکہیں دلدار۔۔۔
کبھی بادشاہ بھی اپنے تخت سےاُترکرجو ہمارا تماشا دیکھنے آتے ہیں تواِن کے غلام وہیں کونے میں ہمیں اسی طور پسند کرتے ہیں۔ہمارے مسئلے وہاں شروع ہوتےہیں جب ہم 'سانپ سیڑھی' 'تماش بین اورحاضرین' کا فرق بھول جاتے ہیں۔ جس کا جو مقام ہے اس کے مطابق اپنے آپ کو تیارنہیں کرتے۔ ہرشے اپنی فطرت پر ہے۔ کوئی ردوبدل نہیں۔ یہ تقدیر ہے۔۔۔ ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہم اپنی نظراپنے فہم پربھروسہ کرتے ہیں۔ بصارت کواوّلیت دیتے ہیں۔۔۔بصیرت اُس وقت آتی ہےجب پانی سرسے گُزرجا تا ہے۔اپنی نادانی کم عقلی کا دوش دوسروں کودیتے ہیں اور پچھتاوں کی لپیٹ میں بھی آ جاتے ہیں۔
تجربات میں وقت خود ضائع کرتے ہیں اوربعد میں وقت کی کمی کا رونا روتے ہیں۔یہ بھی نہیں جانتے کہ وقت کبھی ہاتھ سے نہیں نکلتا۔ آخری سانس سے پہلے وقت ہی وقت ہے۔اُس وقت کو پکڑلو توصدیوں کا سفرلمحوں میں طے ہو جاتا ہے۔۔۔ فاصلے یوں سمٹتے ہیں کہ کوئی دوری نہیں۔۔۔ کوئی حجاب نہیں۔۔۔ کوئی پردہ نہیں۔دینے والا کبھی نہیں تھکتا۔۔۔معاف کرنے والا کبھی اپنے دروازے بند نہیں کرتا۔۔۔ پُکارسُننے والا ہمیشہ سےساتھ ہے۔۔۔ہم ہی اُس کو بھول جائیں تواوربات ہے۔
ہم زندگی کے ڈرامے میں محض کٹھ پُتلیاں ہیں۔ نادیدہ ہاتھوں کی ڈوریوں سے بندھے بس ناچتے چلے جاتے ہیں۔۔۔کبھی جان کر آنکھیں بند کرتے ہیں اور کبھی انجانے میں۔یہ تو بعد میں پتہ چلتا ہے جب ڈرامہ فلاپ ہونے لگتا ہے۔آنکھ آگہی کے اُس لمحے کُھلتی ہے جب پردہ گرنے والا ہوتا ہے پھرسوائے ندامت اورتاسُف کے کچھ نہیں بچتا۔
زندگی کے ڈرامے میں کردار بےشک بنے بنائے ملتے ہیں لیکن ہمیں اپنی اداکاری سے ان میں رنگ بھرنا ہوتے ہیں۔زندگی کے اسٹیج پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کردار اتنی خاموشی سے اپنی جگہ بدل لیتے ہیں کہ گُمان نہیں کیا جاسکتا۔ راہِ عمل یہ ہےکہ ہم جان لیں، پہچان لیں کہ کون کہاں پر ہے؟کس نے اپنی جگہ بدل لی ہے؟ ہمارے کردار کو سہارا دے رہا ہے یا ایکسٹرا بنا رہا ہے؟ کوئی واویلا نہیں بس خاموشی سے اپنا کردار نباہنا ہے اور اسٹیج سےاُترجانا ہے۔
زندگی براہِ راست کھیلے جانےوالا تماشا ہے۔اس میں کوئی ریہرسل نہیں۔۔۔ کوئی ری ٹیک نہیں۔۔۔ کوئی ریکارڈنگ نہیں۔۔۔ جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔۔۔جو کر لیا سو کر لیا۔ کام کرو اور گھر جاؤ۔مزدوری نہ مانگو۔وہ خود ہی مل جائے گی۔ مانگوتوکام کرنے کا حوصلہ مانگو۔ قبولیت کی سند مانگو۔یہی قرینہ ہے۔۔۔ یہی سلیقہ ہے اور یہی اندرکا سکون بھی ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے۔
دنیا میں کسی کے جیتنے یا ہارنے کا تعین دیکھنے والی آنکھ سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی محسوس کرنے والا ذہن ایسا کوئی فیصلہ صادر کرنے کا اہل ہے۔۔سب سے بڑھ کر ہم خود اپنی زندگی کی ہار یا جیت کے بارے میں آخری سانس تک نہیں جان سکتے۔
سانپ اورسیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ایک قدم آگے نہیں بڑھتااور رُکاوٹوں کےسانپ راستہ روک لیتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہےکہ اگلے ہی موڑ پرفاصلہ زمان ومکان کی قیود سےآزاد طےہونے کی نوید ملتی ہے۔لیکن انسان توانسان ہے۔ چوٹ لگےگی تکلیف تو ہو گی۔۔۔ سانپ ڈسے گا درد کی شِدّت تو ہو گی۔اللہ کا فضل یہ ہے کچھ سیکنڈ,کچھ منٹوں یا کچھ گھنٹوں کے 'کوما' کے بعد ذہن اس صورتِحال کوقبول کرکے معمولات کی انجام دہی میں مصروف ہو جاتا ہے۔
"اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"
"سانپ اور سیڑھی "
باقی جتنے ملنے والے ہیں وہ حاضرین ہیں یا تماشائی۔۔۔تالیاں بجاتے ہیں یا اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔آوازیں کستےہیں یا پھر شاباشی کے ڈونگرے برساتے ہیں۔۔۔ کبھی"ایک بار اور"کی صدا لگاتے ہیں توکبھی نقالی کہہ کریکسر رد بھی کر دیتےہیں ۔۔۔کبھی باربار آتے ہیں اورہربارنیا لُطف پاتے ہیں۔۔۔توکبھی ایک بارآ کر دوبارہ نہ آنے کی قسم کھا لیتے ہیں۔۔۔کبھی روبرو ہوتے ہیں تو کبھی ہواؤں میں سوچ کے لمس کوچھوتےہیں۔۔۔ کبھی داتا جان کرخیرات طلب کرتے ہیں،گڑگڑاتے ہیں تو کبھی گدا سمجھ کربھیک دیتےہوئےایک نگاہِ غلط بھی نہیں ڈالتے ۔۔۔ کبھی ساتھ نباہنےکی قسمیں کھاتے ہیں توکبھی ساتھ یوں چھوڑجاتے ہیں کہ کبھی ملے ہی نہ تھے۔۔۔کبھی قاتل ملتےہیں توکبھی مسیحا۔۔۔کبھی دردہیں توکہیں دلدار۔۔۔
کبھی بادشاہ بھی اپنے تخت سےاُترکرجو ہمارا تماشا دیکھنے آتے ہیں تواِن کے غلام وہیں کونے میں ہمیں اسی طور پسند کرتے ہیں۔ہمارے مسئلے وہاں شروع ہوتےہیں جب ہم 'سانپ سیڑھی' 'تماش بین اورحاضرین' کا فرق بھول جاتے ہیں۔ جس کا جو مقام ہے اس کے مطابق اپنے آپ کو تیارنہیں کرتے۔ ہرشے اپنی فطرت پر ہے۔ کوئی ردوبدل نہیں۔ یہ تقدیر ہے۔۔۔ ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہم اپنی نظراپنے فہم پربھروسہ کرتے ہیں۔ بصارت کواوّلیت دیتے ہیں۔۔۔بصیرت اُس وقت آتی ہےجب پانی سرسے گُزرجا تا ہے۔اپنی نادانی کم عقلی کا دوش دوسروں کودیتے ہیں اور پچھتاوں کی لپیٹ میں بھی آ جاتے ہیں۔
تجربات میں وقت خود ضائع کرتے ہیں اوربعد میں وقت کی کمی کا رونا روتے ہیں۔یہ بھی نہیں جانتے کہ وقت کبھی ہاتھ سے نہیں نکلتا۔ آخری سانس سے پہلے وقت ہی وقت ہے۔اُس وقت کو پکڑلو توصدیوں کا سفرلمحوں میں طے ہو جاتا ہے۔۔۔ فاصلے یوں سمٹتے ہیں کہ کوئی دوری نہیں۔۔۔ کوئی حجاب نہیں۔۔۔ کوئی پردہ نہیں۔دینے والا کبھی نہیں تھکتا۔۔۔معاف کرنے والا کبھی اپنے دروازے بند نہیں کرتا۔۔۔ پُکارسُننے والا ہمیشہ سےساتھ ہے۔۔۔ہم ہی اُس کو بھول جائیں تواوربات ہے۔
ہم زندگی کے ڈرامے میں محض کٹھ پُتلیاں ہیں۔ نادیدہ ہاتھوں کی ڈوریوں سے بندھے بس ناچتے چلے جاتے ہیں۔۔۔کبھی جان کر آنکھیں بند کرتے ہیں اور کبھی انجانے میں۔یہ تو بعد میں پتہ چلتا ہے جب ڈرامہ فلاپ ہونے لگتا ہے۔آنکھ آگہی کے اُس لمحے کُھلتی ہے جب پردہ گرنے والا ہوتا ہے پھرسوائے ندامت اورتاسُف کے کچھ نہیں بچتا۔
زندگی کے ڈرامے میں کردار بےشک بنے بنائے ملتے ہیں لیکن ہمیں اپنی اداکاری سے ان میں رنگ بھرنا ہوتے ہیں۔زندگی کے اسٹیج پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کردار اتنی خاموشی سے اپنی جگہ بدل لیتے ہیں کہ گُمان نہیں کیا جاسکتا۔ راہِ عمل یہ ہےکہ ہم جان لیں، پہچان لیں کہ کون کہاں پر ہے؟کس نے اپنی جگہ بدل لی ہے؟ ہمارے کردار کو سہارا دے رہا ہے یا ایکسٹرا بنا رہا ہے؟ کوئی واویلا نہیں بس خاموشی سے اپنا کردار نباہنا ہے اور اسٹیج سےاُترجانا ہے۔
زندگی براہِ راست کھیلے جانےوالا تماشا ہے۔اس میں کوئی ریہرسل نہیں۔۔۔ کوئی ری ٹیک نہیں۔۔۔ کوئی ریکارڈنگ نہیں۔۔۔ جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔۔۔جو کر لیا سو کر لیا۔ کام کرو اور گھر جاؤ۔مزدوری نہ مانگو۔وہ خود ہی مل جائے گی۔ مانگوتوکام کرنے کا حوصلہ مانگو۔ قبولیت کی سند مانگو۔یہی قرینہ ہے۔۔۔ یہی سلیقہ ہے اور یہی اندرکا سکون بھی ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے۔
دنیا میں کسی کے جیتنے یا ہارنے کا تعین دیکھنے والی آنکھ سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی محسوس کرنے والا ذہن ایسا کوئی فیصلہ صادر کرنے کا اہل ہے۔۔سب سے بڑھ کر ہم خود اپنی زندگی کی ہار یا جیت کے بارے میں آخری سانس تک نہیں جان سکتے۔
سانپ اورسیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ایک قدم آگے نہیں بڑھتااور رُکاوٹوں کےسانپ راستہ روک لیتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہےکہ اگلے ہی موڑ پرفاصلہ زمان ومکان کی قیود سےآزاد طےہونے کی نوید ملتی ہے۔لیکن انسان توانسان ہے۔ چوٹ لگےگی تکلیف تو ہو گی۔۔۔ سانپ ڈسے گا درد کی شِدّت تو ہو گی۔اللہ کا فضل یہ ہے کچھ سیکنڈ,کچھ منٹوں یا کچھ گھنٹوں کے 'کوما' کے بعد ذہن اس صورتِحال کوقبول کرکے معمولات کی انجام دہی میں مصروف ہو جاتا ہے۔
"اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"
(((ہرشے اپنی فطرت پر ہے۔ کوئی ردوبدل نہیں۔ یہ تقدیر ہے۔ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہم اپنی نظراپنے فہم پربھروسہ کرتے ہیں۔ بصارت کواوّلیت دیتے ہیں)))
جواب دیںحذف کریں((( آنکھ آگہی کے اُس لمحے کُھلتی ہے جب پردہ گرنے والا ہوتا ہے پھرسوائے ندامت اورتاسُف کے کچھ نہیں بچتا۔)))
((( زندگی براہِ راست کھیلے جانےوالا تماشا ہے۔اس میں کوئی ریہرسل نہیں۔۔۔ کوئی ری ٹیک نہیں۔۔۔ کوئی ریکارڈنگ نہیں )))
ہر سطر لاجواب !!!!!!
مزدوری نہ مانگو۔ وہ خود ہی مل جائے گی۔ مانگوتوکام کرنے کا حوصلہ مانگو۔ قبولیت کی سند مانگو۔
حذف کریںیہی قرینہ ہے۔۔۔ یہی سلیقہ ہے اور یہی اندرکا سکون بھی ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے۔
"اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"
https://daleel.pk/2017/03/09/34092
جواب دیںحذف کریں