بدھ, نومبر 21, 2012

" انتساب سے کتبے تک"۔۔۔۔ سفر درسفر

اپنے احساسات اور خیالات کو لفظ میں پرونے کے بعد کسی بھی لکھاری کی دلی خواہش کتاب کی صورت اُنہیں عزت دینے اور محفوظ کرنے کی ہوتی ہے۔ کتاب کی اشاعت ہو تو اس کا انتساب بھی تحریر کیا جاتا ہے جو کہ سراسر لکھاری کی صوابدید پرہے کہ اپنی سوچ کو لفظ کا جامہ پہنانے اور پھر اسے سمیٹ کر مرتب کرتے ہوئے اپنی کتاب کےپہلےصفحے پر کیا درج کرتا ہے۔انتساب دراصل لکھاری کی طرف سے خراجِ عقیدت ہوا کرتا ہے کہ سوچ سفرکے اس لمحے میں وہ کس کو اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے۔
ہم سب کی زندگی میں سب سے اہم ہماری اپنی زندگی کتاب کی بھی عجیب کہانی ہے جس کے آغاز کا انتساب ایک آفاقی سچائی ہے کہ یہ ہمارے ماں باپ کے نام ہے اس کے بعد تاعمر ہم اپنے مقدر کا لکھا پڑھتے چلے جاتے ہیں۔دنیا کی مختصر زندگی کے خاتمے پر جب کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی شروع ہوتی ہے تو اس کا انتساب سب کے سامنے تحریر ہوتا ہے۔ اس کو "آخری جھلک" بھی کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔
"آخری جھلک"
تعلیمی ادوار میں ہمیں جتنے بھی امتحانات سے گُزرنا پڑتا ہے اُن سب کا طریقِ کارایک سا ہے۔پہلا سوال لازمی ہوتا ہے۔۔۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سبجیکٹیو اور اوبجیکٹیومیں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔۔۔ ایک پرچہ پہلے بیس منٹ میں حل کر کے دینا پڑتا ہے۔۔۔ کمرۂ امتحان میں موجود ممتحن حضرات اگر چاہیں تو اس کو پڑھ کردینے والے کی قابلیت جانچ سکتے ہیں۔ اگرچہ اس کا دینے والے کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا۔۔۔ نہ اس بات سے اس کے پرچے پر کوئی اثر پڑتا ہے۔۔۔کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ پرچے کے پہلے  حصے میں  پورے نمبر لینے والا دوسرے حصے میں بھی اوّل آئے گا۔ بےشک جس کی تیاری بھرپورہو یقیناً وہ دونوں میں ٹاپ کر سکتا ہےلیکن یہ انسانی ذہن ہی ہےکہ وہ اُس مختصر وقت میں اُن سوالوں کو کس طرح جانچتا ہے جس میں ایک بار لکھنے کے بعد مٹانے کی بھی اجازت نہیں۔الغرض صرف اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن اصل نتیجہ پورا پرچہ حل کر کے ہی سامنے آتا ہے جو کہ صرف لینے والا اور دینے والا ہی جانتا ہے۔ بعض اوقات پہلے پرچے میں کم نمبر لینے والا دوسرے حصے میں اتنے نمبر لے لیتا ہے کہ اچھے طریقے سے پاس ہو جاتا ہے۔
زندگی کے پرچے کو حل کرتے ہوئے بھی ہمیں بالکل اِسی صورتِحال سے گُزرنا پڑتا ہے۔ اس پرچے کے مخصوص سوالات ہوتے ہیں۔۔۔ اُن کے جوابات بھی نوٹس کے ساتھ بتا دیئے جاتے ہیں اورتیاری کا وقت ہماری نظرمیں لامحدود ہوتا ہے۔۔۔ اس لیے ہم ریلیکس کرجاتے ہیں۔۔۔ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ امتحان ہو گا۔۔۔ یہ سوچتے ہیں کہ یہ تو بُہت آسان ہے۔۔۔ اس لیے اس کی تیاری کی کوئی ضرورت نہیں، بس آخر میں جلدی جلدی سب کُچھ دیکھ لیں گے۔۔۔ ابھی ہم نے اس سے مُشکل امتحان دینے ہیں۔۔۔ اُن کی توتیاری کر لیں۔۔۔ اُس امتحان کا لینے والا غفورالرّحٰیم ہے۔۔۔ لیکن یہاں کے امتحان میں ذرّہ برابر بھی کمی رہ گئی توجینا محال ہو گا۔
ایک جیتے جاگتے انسان کا ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لینا ہمارے اُس آخری امتحان کا ایسا پہلا سوال ہے جو سب کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے۔ہمیں ایسا عُنوان مل جاتا ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے نفسِ مضمون بھانپ لیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں جس کا پہلا مرحلہ اچھا طے ہو گیا اس کے آگے کے بھی مراحل آسان ہوجائیں گے۔ دوسرے یہ دُنیا کے سامنے ہماری آخری رونمائی ہوتی ہے۔ہم تمام عمراس جدوجہد میں لگے رہتے ہیں کہ دُنیا ہمیں اچھاسمجھے۔۔۔ اگرہم اس کوشش میں ناکام بھی رہیں پھربھی چاہتے ہیں کہ کم از کم مرتے وقت ہی دُنیا ہمیں اچھا جان لے۔یہ عین حقیقت بھی ہےکہ ہم اللہ سے دُعا میں بھی یہی  مانگتے ہیں کہ ہمیں عزت کی زندگی اورعزت کی موت عطا فرما۔
موت تو وہ عمل ہےجس سے ہر ذی روح نے گُزرنا ہے۔ یہ حیات ِفانی سے حیاتِ ابدی کے سفر کی پہلی منزل ہے۔۔۔ پہلا دروازہ ہے۔ اگر اس میں سے سر اُٹھا کر گُزر گئے تو یقیناً آگے آسانی ہی ہو گی۔ یہ ہمارا گُمان ہے۔ اور اللہ کی طرف اچھا گُمان ہی رکھنا چاہیے۔ اس گُمان کو انسانوں پر اپلائی کرنے سے بچنا ہے۔۔۔ ورنہ ہم شدید قسم کے مغالطے کا شکار ہو جائیں گے۔۔۔ ہمیں کسی کے قدموں کے نشان پر نہیں چلنا۔ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ہم نے کہاں جانا ہے؟ اور ہمارے لیے کون سی منزل کافی ہے؟۔
اصل امتحان وہی ہے جو آخری سانس کی کہانی ہے۔ اللہ سب کو ہر امتحان میں ثابت قدم رکھے۔

منسلک بلاگ۔۔۔۔" منہ دکھائی سے منہ دیکھنے تک" سے اقتباس۔۔۔

"منہ دکھائی سے منہ دیکھنے تک"

 عام بول چال  اور اردو زبان دانی میں "منہ دکھائی" ایک بہت ہی عام فہم  لفظ ہے۔روزمرہ زندگی میں  اس کا استعمال   دنیا میں زندگی کی آنکھ کھلنے کے بعد نومولود کی منہ دکھائی سے  ہوتا ہے جب دیکھنے والے اپنی  اپنی سوچ کے مطابق بچے  کے نین نقش پر تبصرے کرتے ہیں  تو کہیں تحائف اور روپے پیسے سے   رسمِ دنیا  نباہتے  ہیں ۔   سفرِزندگی طے کرتے  کرتے ایک "منہ دکھائی" کا مرحلہ نئی نویلی دلہن کی زندگی میں   آتا ہے۔جو انہی مراحل سے گزرتی ہے۔لیکن   اس سمے وہ   اس "منہ دکھائی" سے نہ صرف باخبر ہوتی ہے بلکہ پوری طرح کاسہ لیس ہو کر اس امتحان  کا سامنا کرتی ہے۔  
عام تاثر ہے کہ مرنے کے بعد عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن  دُنیاوی زندگی   میں اتنے بڑے بڑے عذاب ہیں  کہ جو دفن ہونے تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔ زندگی تو ہر ایک کی اپنی اپنی قسمت،اپنی اپنی اہلیت ،اپنے اپنے ظرف،اپنی اپنی ہمت،طاقت کے مطابق "اپنے دامن میں منہ چھپائے" دوسروں کی نظر سے  اوجھل کٹ ہی جاتی ہے  ۔لیکن جیسے ہی آنکھ بند ہوتی ہے دنیا کی نظریں ہمارے چہرے پرمرکوز ہو جاتی ہیں۔کیا اپنا کیاپرایا،ہر ایک آگے بڑھ کر "میت" کے دیدار کی جستجو میں  ہوتا ہے۔زندہ چہروں کی کھوجتی نگاہیں ،ہمارے پتھر ہوتے سرد وجود کے بےحس چہرے میں نہ جانے کون سے اسرار دیکھنے کی  متمنی ہوتی ہیں۔ہم ابھی تو ہر اذیت،ہر مشقت اور ہر روگ کے خاردار تاروں سے اپنی لہولہان روح گذار کر دنیا کی روشنی میں چند ساعتوں کے مہمان ہوتے ہیں۔دنیا اور آخرت کے بیچ بند آنکھوں کی یہ نیند  شاید سکون کا پہلا اور آخری لمحہ ہی توہے کہ مٹی  میں ملنے کے بعد جو آنکھ کھلتی ہےپھر شاید کبھی بند نہیں ہوتی۔
 بتاریخ۔۔مارچ 18۔۔2020
۔۔۔۔
"کتبہ"
جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر پر لگی تختی اگر مالکِ مکان کی شناخت ہے تو کتبہ یا لوح صاحبِ ِ قبر کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ سادہ سی بات اتنی سادہ ہرگز نہیں۔ گھرپر لگی تحتی مالکِ مکان کی حیثیت ( اسٹیٹس) کی ترجمان ہوتی ہے اور بعض اوقات تو کیا اکثراوقات اسے غیرمحسوس طور پر انسان کی زندگی کمائی کا حاصل اور فخر بھی کہا جا سکتا ہے ۔
لیکن دنیا کے منظر سے ہمیشہ کے لیے غائب ہونے کے بعد ملکیت کی علم بردار اس تختی اور قبر کے سرہانے لگے کتبے میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔غور کیا جائے تو روشنیوں سے آباد پکے گھر کی بیرونی دیوار پر لگی اس تختی کے بین روح جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ ۔"ہاں یہ وہی"معدوم" ہے جو کسی قبرستان کے دوردراز ویرانے میں مٹی کے مدفن میں "موجود" ہے۔ہم سانس لیتے انسان اپنی موت تو یاد رکھتے ہیں،قبر کے بارے میں بھی سوچتے ہیں لیکن کبھی اپنے اس کتبے کے بارے میں خواب تو خیال میں بھی نہیں سوچتے ۔ وہ کتبہ جس پر فقط ہمارا نام یا ہمارے لواحقین کی محبت وعقیدت اور اُن کا فہم ہی کنندہ ہو گا۔
کتبہ خواہ کسی ویران کھنڈر ہوتی قبر پر لگا ہو یا سجی سجائی قبر کا تاج، نامور شخصیات کی "آخری آرام گاہ" کا ثبوت دے یا گمنام انسان کو "نام" کی تکریم دے۔ہمیشہ باعثِ عبرت ،حسرت اور روح میں اُترنے والے سناٹے کو جنم دیتا ہے۔قصہ مختصر کتبہ انسان کی دنیا کہانی کی کتاب کا وہ آخری
صفحہ ہے جس کے متن سے وہ خود لاعلم رہتا ہے۔
حرف آخر
صفحہ 275۔۔۔مرنے والوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اُن کی قبر پر ایک تاج محل تعمیر ہوتا ہے۔۔۔یا وہ بارشوں میں دھنس کر ایک گڑھا بن جاتی ہےاور اُس میں کیڑے مکوڑے رینگتے ہیں اور یا اُس سے ٹیک لگا کر سائیں لوگ چرس کے سُوٹے لگاتے ہیں۔

بس یہ ہے کہ ییچھے رہ جانے والوں کو فرق پڑتا ہے۔"ماسکو کی سفید راتیں"از مستنصرحسین تارڑ 





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...