"ٹھیک تو وہی ہوگا جو بیمار ہو گا "
ہم اپنی نظرکی عینک سے کسی کی بیماری یا صحت یابی کے اندازوں کی مُہرلگاتے ہیں۔درحقیقت ہم اس بات سے قطعی ناواقف ہیں کہ کون اپنی زندگی اور اُسکی تکالیف کے کس مرحلے میں ہے؟کس نےاِن ساری پریشانیوں ساری اذیتوں کو کس بےخبری کی چادر سے ڈھانپا ہوا ہے؟ وہ چادر جو بظاہر تو درسِ عبرت اور بےچارگی کے تانے بانے سے بُنی نظر آرہی ہے لیکن اوڑھنے والا اس سے کیا حاصل کر رہا ہے؟ہم کبھی نہیں جان سکتے۔ کون تکلیف میں ہے اور کون راحت میں ؟کون سکون میں ہے اور کون بےسکونی کی کیفیت میں مُبتلا ؟ہم کیا جانیں۔ کون اذیت میں ہے اور کون اذیت سے نجات پا گیا ؟کس کو کیا ملا؟ کون سفر کے کس مرحلے میں ہے؟کون منزل سے کتنا دُور ہے اورکون منزل سے کتنا قریب؟ کون سود و زیاں سے آزاد ہو گیا اور کون پائی پائی جوڑ کر پورا روپیہ بھی نہیں جمع کر پایا؟کون پیاسا ہے اور کون سیراب ؟ہمیں کیا معلوم۔پھر ہم کون ہوتے ہیں مُنصف بن کر فیصلہ سُنانے والے۔اللہ ہم سب کو کم عقلی کے فیصلے صادر کرنے سے باز رکھے۔ہمارا کام صرف چلتے جانا ہے اور ساتھی اگر لڑکھڑا جائے تو اُسے سہارا دینے کی کوشش کرنا ہے۔ سہارا دیتے دیتے اپنی منزل کھوٹی نہیں کرنی اور سہارے کی آڑ میں اُس کے لیے خود سے کسی منزل کا تعّین نہیں کرنا۔قصّہ مختصر جس کو جتنی مدد کی ضرورت ہو اُتنی مدد ضرور کرنا چاہیے۔ یہ ہمارا فرض بھی ہے اور ہم پر قرض بھی۔
دوا بھی مقرّرہ وقت پراور ایک خاص مقدار میں دی جائے تو تب ہی اپنا اثر دِکھاتی ہے .ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہم جلدازجلد ٹھیک ہونے کی خواہش میں یا کسی کو فوراً صحت یاب کرنے کی خاطر مقدار بُہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں اس محنت ومُشقّت سے مایوسی کے سِوا کُچھ حاصل نہیں ہوتا۔بھاگ بھاگ کر سانس بےقابُو کر کے اندھا دُھند بھاگنے سے منزل قریب نہیں آتی۔منزل تو ہمارے سامنے ہوتی ہے لیکن اس افراتفری میں ہماری آنکھیں بند ہو چُکی ہوتی ہیں اور ہم ایک دائرے میں مسلسل چکر کاٹے جاتے ہیں،سعئ لاحاصل شاید اِسی کو کہتے ہیں کہ اپنی پوری طاقت لگا کربھی ہاتھ کُچھ نہ آئے۔
اللہ ہمیں اپنے اندر کی آنکھ کھولنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالے جسے اُٹھانے کی ہم میں سکت نہ ہو۔
ہم اپنی نظرکی عینک سے کسی کی بیماری یا صحت یابی کے اندازوں کی مُہرلگاتے ہیں۔درحقیقت ہم اس بات سے قطعی ناواقف ہیں کہ کون اپنی زندگی اور اُسکی تکالیف کے کس مرحلے میں ہے؟کس نےاِن ساری پریشانیوں ساری اذیتوں کو کس بےخبری کی چادر سے ڈھانپا ہوا ہے؟ وہ چادر جو بظاہر تو درسِ عبرت اور بےچارگی کے تانے بانے سے بُنی نظر آرہی ہے لیکن اوڑھنے والا اس سے کیا حاصل کر رہا ہے؟ہم کبھی نہیں جان سکتے۔ کون تکلیف میں ہے اور کون راحت میں ؟کون سکون میں ہے اور کون بےسکونی کی کیفیت میں مُبتلا ؟ہم کیا جانیں۔ کون اذیت میں ہے اور کون اذیت سے نجات پا گیا ؟کس کو کیا ملا؟ کون سفر کے کس مرحلے میں ہے؟کون منزل سے کتنا دُور ہے اورکون منزل سے کتنا قریب؟ کون سود و زیاں سے آزاد ہو گیا اور کون پائی پائی جوڑ کر پورا روپیہ بھی نہیں جمع کر پایا؟کون پیاسا ہے اور کون سیراب ؟ہمیں کیا معلوم۔پھر ہم کون ہوتے ہیں مُنصف بن کر فیصلہ سُنانے والے۔اللہ ہم سب کو کم عقلی کے فیصلے صادر کرنے سے باز رکھے۔ہمارا کام صرف چلتے جانا ہے اور ساتھی اگر لڑکھڑا جائے تو اُسے سہارا دینے کی کوشش کرنا ہے۔ سہارا دیتے دیتے اپنی منزل کھوٹی نہیں کرنی اور سہارے کی آڑ میں اُس کے لیے خود سے کسی منزل کا تعّین نہیں کرنا۔قصّہ مختصر جس کو جتنی مدد کی ضرورت ہو اُتنی مدد ضرور کرنا چاہیے۔ یہ ہمارا فرض بھی ہے اور ہم پر قرض بھی۔
دوا بھی مقرّرہ وقت پراور ایک خاص مقدار میں دی جائے تو تب ہی اپنا اثر دِکھاتی ہے .ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہم جلدازجلد ٹھیک ہونے کی خواہش میں یا کسی کو فوراً صحت یاب کرنے کی خاطر مقدار بُہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں اس محنت ومُشقّت سے مایوسی کے سِوا کُچھ حاصل نہیں ہوتا۔بھاگ بھاگ کر سانس بےقابُو کر کے اندھا دُھند بھاگنے سے منزل قریب نہیں آتی۔منزل تو ہمارے سامنے ہوتی ہے لیکن اس افراتفری میں ہماری آنکھیں بند ہو چُکی ہوتی ہیں اور ہم ایک دائرے میں مسلسل چکر کاٹے جاتے ہیں،سعئ لاحاصل شاید اِسی کو کہتے ہیں کہ اپنی پوری طاقت لگا کربھی ہاتھ کُچھ نہ آئے۔
اللہ ہمیں اپنے اندر کی آنکھ کھولنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالے جسے اُٹھانے کی ہم میں سکت نہ ہو۔
جب لکھ دیا گیا کہ ربِ کریم لے کر بھی آزماتا ہے اور دے کر بھی آزماتا ہے۔تو یوں ہمارے لیے ہر زحمت آزمائش ہے تو ہر نعمت اس سے بھی بڑا امتحان۔۔۔زحمت صبر کا تقاضا کرتی ہے،صبر وقت اور حالات کے بدلنےکی اُمید روشن رکھتا ہے۔ اِسی طرح نعمت کا شُکر جہاں مالک کی قربت اور اُس کی رحمت کی بےپناہ لذت سے سرشار کرتا ہے وہیں اس نعمت کے ہر گھڑی چِھن جانے کا خدشہ اور اس آزمائش میں ثابت قدم رہنے کی خواہش ہمیشہ اپنی حدود کے اندر رہنے اور محور کے گرد
گردش کرنے کا سبق دُہراتی رہتی ہے۔
فروری10۔۔2012
گردش کرنے کا سبق دُہراتی رہتی ہے۔
فروری10۔۔2012
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں