وہ ایک عام انسان تھی نا کہ فرشتہ پھر بھی قریب جانے سے اُس کے 'پر'جلتے تھے۔وہ ایک ریاضی دان تھی۔کئی پیچیدہ سوالوں کے جواب ڈھونڈتی،اُن کو حل کرنے کی کوشش کرتی۔ یہ اُس کا شوق بھی تھا اورمجبوری بھی۔۔۔ کہ آنکھ کُھل جائے تو نیند غائب ہو جاتی ہے۔ایک سوال ابھی تک حل طلب تھا کہ جو کسی اونچے مقام پرہوتا ہے۔۔۔ خواہ دنیاوی یا دینی،روحانی یا معاشی معاشرتی ہو۔عمر کے تجربے کے لحاظ سے افضل ہو یا پھر رشتے کے اعتبار سے۔۔۔ وہ اپنے زُعم میں کس وجہ سے برتر ہوتا ہے؟عام لوگوں کے بارے میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر کوئی اپنی سمجھ سے عمل کرتا ہے اور اس بات کو دل پر لینا محض کم علمی ہی ہو گا،عجیب وہاں لگتا ہے جو اللہ والے دِکھتے ہیں۔۔۔ وہ اتنے خاموش پُراسراراِتنے بارُعب کیوں ہو جاتے ہیں؟کہ اُن سے بات کرنا تو درکنار۔۔۔اُن کو دیکھنے کا موقع ملنا ناممکن۔۔۔اُن سے کچھ پوچھنے کی ہمت پیدا کرنے سے انسان خائف اورشرمسار سا ہوجاتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بہت اُجلے کلف زدہ کپڑے پہنے ہوئے اشخاص کی مجلس میں عام سے کپڑے پہنے کوئی انسان آجائے۔
"اور تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"
آخری سطروں سے پہلے جواب آگیا کہ انسان اندرکی آنکھ پر بھروسہ کرے،ہرانسان کا معاملہ اس کے ساتھ ہے۔یہ ڈائریکٹ ڈائلنگ ہے۔۔۔ون ٹو ون ریلیشن شِپ ہے۔ کوئی حجاب نہیں۔ پھر ہم کیوں اپنی ذات کو ریشمی لبادوں میں ڈھانپ کر خود اپنی ہی نگاہوں سے بھی اوجھل کر دیتے ہیں۔اس بات سے بےخبر کہ
"قُربت چُھپانے کا نہیں چُھپنے کا نام ہے"
قُربت اظہارہے۔۔۔ قُربت تخلیق ہے۔۔۔ قُربت بارآور ہے۔۔۔قربت پھیلاؤ ہے۔۔۔قربت آنکھ کا وہ آنسو ہے جو ہرطرف جل تھل کر دیتا ہے۔ قربت سمیٹنے کا نہیں بانٹنے کا نام ہے۔ قربت خوشی ہے جس کی کوئی حد نہیں۔قربت خُوشبُو ہے جس کی قید نہیں۔یہ کائنات کی طرح بےکراں،لامحدود ہے پھر ہم کیوں اپنے گنتی کے چند سالوں کو اپنی تپسّیا کا حاصل گردانتے ہیں۔
حرفِ آخر
" قربت اور خوف لازم و ملزوم ہیں کسی بھی تعلق کی مضبوطی اوربناوٹ میں خواہ وہ انسانوں سے ہو یا اللہ سے"
کبھی قربت دُکھ بھی دے دیتی ہے اَن جانے میں ہی سہی۔ یہ خوف ہماری زندگی کہانی ہے۔یہی خوف ہمارا محافظ بھی ہے اوررہنما بھی۔ ستم یہ کہ ہمارا دُشمن بھی یہی خوف ہے جو ہمیں اپنی مرضی سے زندگی کے رنگ چُرانے نہیں دینا۔اصل ہنراِسی خوف کے ساتھ جینا ہے جو آجائے تو سب خوف دُور بھاگ جاتے ہیں۔
جو گمان اللہ سے ہو وہ بندوں سے ہو ہی نہیں سکتا ، خوف اور اُمید ہر حال میں صرف اللہ کی سزا وجزا سے مشروط ہونا چاہیے۔جب کہ ہم دنیاوی معاملات میں بندوں سے خوف کھاتے ہیں اور اُن سے ہی اُمیدیں وابستہ کیے رہتے ہیں پھر کیونکر مطمئن ہو سکتے ہیں جب ہماری سمت ہی درست نہیں تو منزل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔
2012 ، 211 اکتوبر
"اور تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"
آخری سطروں سے پہلے جواب آگیا کہ انسان اندرکی آنکھ پر بھروسہ کرے،ہرانسان کا معاملہ اس کے ساتھ ہے۔یہ ڈائریکٹ ڈائلنگ ہے۔۔۔ون ٹو ون ریلیشن شِپ ہے۔ کوئی حجاب نہیں۔ پھر ہم کیوں اپنی ذات کو ریشمی لبادوں میں ڈھانپ کر خود اپنی ہی نگاہوں سے بھی اوجھل کر دیتے ہیں۔اس بات سے بےخبر کہ
"قُربت چُھپانے کا نہیں چُھپنے کا نام ہے"
قُربت اظہارہے۔۔۔ قُربت تخلیق ہے۔۔۔ قُربت بارآور ہے۔۔۔قربت پھیلاؤ ہے۔۔۔قربت آنکھ کا وہ آنسو ہے جو ہرطرف جل تھل کر دیتا ہے۔ قربت سمیٹنے کا نہیں بانٹنے کا نام ہے۔ قربت خوشی ہے جس کی کوئی حد نہیں۔قربت خُوشبُو ہے جس کی قید نہیں۔یہ کائنات کی طرح بےکراں،لامحدود ہے پھر ہم کیوں اپنے گنتی کے چند سالوں کو اپنی تپسّیا کا حاصل گردانتے ہیں۔
حرفِ آخر
" قربت اور خوف لازم و ملزوم ہیں کسی بھی تعلق کی مضبوطی اوربناوٹ میں خواہ وہ انسانوں سے ہو یا اللہ سے"
کبھی قربت دُکھ بھی دے دیتی ہے اَن جانے میں ہی سہی۔ یہ خوف ہماری زندگی کہانی ہے۔یہی خوف ہمارا محافظ بھی ہے اوررہنما بھی۔ ستم یہ کہ ہمارا دُشمن بھی یہی خوف ہے جو ہمیں اپنی مرضی سے زندگی کے رنگ چُرانے نہیں دینا۔اصل ہنراِسی خوف کے ساتھ جینا ہے جو آجائے تو سب خوف دُور بھاگ جاتے ہیں۔
جو گمان اللہ سے ہو وہ بندوں سے ہو ہی نہیں سکتا ، خوف اور اُمید ہر حال میں صرف اللہ کی سزا وجزا سے مشروط ہونا چاہیے۔جب کہ ہم دنیاوی معاملات میں بندوں سے خوف کھاتے ہیں اور اُن سے ہی اُمیدیں وابستہ کیے رہتے ہیں پھر کیونکر مطمئن ہو سکتے ہیں جب ہماری سمت ہی درست نہیں تو منزل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔
2012 ، 211 اکتوبر
well said....:)
جواب دیںحذف کریں