"ریس کا گھوڑا "
عورت کہانی اورگھوڑے کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ جب غور کیا تو مماثلت کے حیرت انگیز در کُھلتے چلے گئے۔
زندگی کی گاڑی میں جُتی عورت اورگھوڑا گاڑی میں گھوڑے کی قسمت ایک ہی ہے۔ دونوں اپنے مالک کے اشارے پراَن دیکھی شاہراہ پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ دم لینے کی مُہلت نہیں وقفے وقفے سے کوڑوں کے چابُک پڑتے ہے،ناک میں نکیل ہے۔ دائیں بائیں دیکھنے کی گُنجائش نہیں، چلانے والا ہے کہ بھگائے جا رہا ہے۔ اپنی مرضی کے پڑاؤپرگاڑی رُکتی ہے اوراپنی مرضی سے آرام اورخوراک مُہیا ہوتی ہے اور پھر سفر شُروع ہو جاتا ہے۔ چلانے والا مُطمئن ہےکہ سب کُچھ ٹھیک ہو رہا ہےاوراُسے ہی بُہت مُشقّت کرنا پڑرہی ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ پاؤں کس کےتھک رہے ہیں اوربوجھ کس کے کاندھوں پر ہے۔ اُس کے جسے تو بیٹھنے کی بھی فرصت نہیں۔ ایسے میں اگر گِر جائے تو خوب کھلایا پلایا جاتا ہے۔ یہ مالک کا احسان ہوتا ہے جس سے وہ اپنے تئیں بُہت برترہوجاتا ہے۔ ورنہ یہ محض اُس کی مجبوری ہے جسے وہ کبھی نہیں مانتا۔
وہ کبھی تسلیم نہیں کرتا کہ یہ گھوڑا اور وہ لازم وملزوم ہیں۔ یہی سوچتا ہے یہ فوراً کھڑا ہو جائے نہیں تو اورمل جائیں گے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھوڑا اُٹھنے سے انکار کر دیتا ہے،اس کی ہمت طاقت ختم ہو جاتی ہے ،آگے سفر کرہی نہیں سکتا تو وہ یکدم بےکار ہوجاتا ہےایک بوجھ بن جاتا ہے۔ کوئی راہ نہ پا کراسے گولی مار دی جاتی ہے۔
یہاں آکرعورت ایک بُلند مقام پرکھڑی ملتی ہے۔ ظاہر ہےانسان اشرف المخلوقات ہے اس کا اورایک حیوان کا کیا مقابلہ ۔عورت پرہرطرف سےچابک پڑتے ہیں۔وہ برداشت کرتی ہے۔اپنی پھٹی ایڑیاں پتھروں سے ٹھوکریں کھا کر پتھروں سے ہی رگڑتی جاتی ہےکہ یہی درد بھی ہے اور درماں بھی ۔ یہی حُسن بھی ہے اوریہی بد نُمائی بھی۔ یہی سفر کی گواہی بھی ہے اور وجود کی شناخت بھی ۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ چلانے والے بدلتے جاتے ہیں، تازہ دم شہ سوار آجاتے ہیں۔ کوڑے اُس کے جسم کے ساتھ روح کو بھی چھید ڈالتے ہیں ۔ وہ پھر بھی سر اُٹھا کر جیتی ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔
" مرتی تو وہ نہ جانے کتنی بار ہے یہ ایسا عذاب ہے کہ جو صرف دوزخیوں ہی کا مُقدر نہیں ۔"
2002 ،18 دسمبر
عورت کہانی اورگھوڑے کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ جب غور کیا تو مماثلت کے حیرت انگیز در کُھلتے چلے گئے۔
زندگی کی گاڑی میں جُتی عورت اورگھوڑا گاڑی میں گھوڑے کی قسمت ایک ہی ہے۔ دونوں اپنے مالک کے اشارے پراَن دیکھی شاہراہ پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ دم لینے کی مُہلت نہیں وقفے وقفے سے کوڑوں کے چابُک پڑتے ہے،ناک میں نکیل ہے۔ دائیں بائیں دیکھنے کی گُنجائش نہیں، چلانے والا ہے کہ بھگائے جا رہا ہے۔ اپنی مرضی کے پڑاؤپرگاڑی رُکتی ہے اوراپنی مرضی سے آرام اورخوراک مُہیا ہوتی ہے اور پھر سفر شُروع ہو جاتا ہے۔ چلانے والا مُطمئن ہےکہ سب کُچھ ٹھیک ہو رہا ہےاوراُسے ہی بُہت مُشقّت کرنا پڑرہی ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ پاؤں کس کےتھک رہے ہیں اوربوجھ کس کے کاندھوں پر ہے۔ اُس کے جسے تو بیٹھنے کی بھی فرصت نہیں۔ ایسے میں اگر گِر جائے تو خوب کھلایا پلایا جاتا ہے۔ یہ مالک کا احسان ہوتا ہے جس سے وہ اپنے تئیں بُہت برترہوجاتا ہے۔ ورنہ یہ محض اُس کی مجبوری ہے جسے وہ کبھی نہیں مانتا۔
وہ کبھی تسلیم نہیں کرتا کہ یہ گھوڑا اور وہ لازم وملزوم ہیں۔ یہی سوچتا ہے یہ فوراً کھڑا ہو جائے نہیں تو اورمل جائیں گے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھوڑا اُٹھنے سے انکار کر دیتا ہے،اس کی ہمت طاقت ختم ہو جاتی ہے ،آگے سفر کرہی نہیں سکتا تو وہ یکدم بےکار ہوجاتا ہےایک بوجھ بن جاتا ہے۔ کوئی راہ نہ پا کراسے گولی مار دی جاتی ہے۔
یہاں آکرعورت ایک بُلند مقام پرکھڑی ملتی ہے۔ ظاہر ہےانسان اشرف المخلوقات ہے اس کا اورایک حیوان کا کیا مقابلہ ۔عورت پرہرطرف سےچابک پڑتے ہیں۔وہ برداشت کرتی ہے۔اپنی پھٹی ایڑیاں پتھروں سے ٹھوکریں کھا کر پتھروں سے ہی رگڑتی جاتی ہےکہ یہی درد بھی ہے اور درماں بھی ۔ یہی حُسن بھی ہے اوریہی بد نُمائی بھی۔ یہی سفر کی گواہی بھی ہے اور وجود کی شناخت بھی ۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ چلانے والے بدلتے جاتے ہیں، تازہ دم شہ سوار آجاتے ہیں۔ کوڑے اُس کے جسم کے ساتھ روح کو بھی چھید ڈالتے ہیں ۔ وہ پھر بھی سر اُٹھا کر جیتی ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔
" مرتی تو وہ نہ جانے کتنی بار ہے یہ ایسا عذاب ہے کہ جو صرف دوزخیوں ہی کا مُقدر نہیں ۔"
2002 ،18 دسمبر
آہ ۔۔۔ بہت دلسوزی ہے آپ کے قلم میں ۔۔۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ تو نہیں؟؟ کہیں کوئی پہلو نگاہ سے اوجھل تو نہیں؟؟
جواب دیںحذف کریں