جمعرات, نومبر 22, 2012

"اللہ اور ماں"

"ماں اللہ سے قُربت جانچنےکا پیمانہ ہے۔"
انسان جتنا ماں کومحسوس کرتا ہے۔۔۔لاشعوری طور پراُتنا ہی اللہ سےقریب ہوتا جاتا ہے۔ یہ کوئی مُشکل فلسفہ یا عجیب بات نہیں۔اللہ اورماں میں مُشترک قدر"تخلیق"ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں فقط"وسیلہ"ہے۔۔۔ تخلیقِ انسان میں اُس کی حیثیت مشین کے ایک پُرزے سے زیادہ نہیں اور اس میں بھی اس کا کوئی کمال یا ہنر شامل نہیں۔ اللہ کی طرف سے عطاکردہ ایک ذمہ داری ہے۔۔۔جسے چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے سرانجام دینا ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کائنات میں اس جیسا   دوسرا پُرزہ ملنا محال ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
مُختصر یہ کہ ماں 
اللہ کے شاہکارکو سامنے لانے کاایک وسیلہ ہے،ایک ذریعہ ہے۔اس سے زیادہ اُس کی کوئی بڑائی نہیں۔ عام دُنیاوی شاہکار بھی خواہ  وہ  کسی مُصورکےفن پارے ہوں یا انسانیت کےفلاح کی خاطر کی گئی ایجادات واختراعات،تخلیق کےبعد سامنے نہ لائے جائیں تو اُن کی قدرومنزلت یا افادیت کا کبھی تعیّن نہیں کیا جاسکتا۔
خالقِ کائنات نے ماں کوعظیم رُتبہ ایک مقام عطا کیا ہے کہ وہ اس کے تخلیقی عمل کومُنتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔اللہ نے اپنی ذات کی عظیم صفت محبت کا پیمانہ بھی ماں کو بنایا کہ"اللہ اپنی مخلوق سے ماں سے ستر گُنا زیادہ مُحبت کرتا ہے"۔
ماں کے توسّط سے جب  ملتا  ہے تو دل بےاختیارجھوم جاتا ہے کہ ماں ہماری سوچ۔۔۔ہماری خواہش سےاتنا قریب ہے۔۔۔ تو معبودِحقیقی جو ماں سے سترگنا زیادہ اپنی مخلوق کو چاہتا ہے اُس کے لُطف وکرم کی کیا حد ہو گی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جو انسان اپنی ماں سے قریب ہےوہ اللہ سے قریب ہےیہ شعورکا کھیل نہیں لاشعور کی بات ہے۔جیسے جیسے انسان اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے وہ خالص سے خالص ترہوتا چلا جاتا ہے۔ ماں کومحسوس کرنےوالا بظاہر اللہ کے قریب نہیں تواس میں بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں کہ اُس نے فلاح کے راستے پرپہلا قدم تورکھ دیا ہے۔ وقت خودبخود اُسے اس مقام پرپُہنچا دے گا کہ وہ اپنے خالق ومالک کوپہچان لے گا۔اللہ سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہ وقت جلد آجائے۔
ماں ہماری زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔۔۔اپنی اس طاقت کو آخری لمحے تک سنبھال کر رکھیں۔حیاتِ ظاہری میں ماں کی قدر کرنا حقوق اللہ ادا کرنے کے بعد ہمارا سب سے بڑا فرض ہے۔دین ودُنیا کا کوئی بھی کام اس سے بڑھ کر نہیں۔حیاتِ ابدی میں ماں کی قدرومنزلت صرف خالقِ کائنات ہی جان سکتا ہے۔ہمیں اللہ سے معافی مانگتے رہنا ہے اورماں کے ابدی سکون کے لیے دُعا کرنی ہے۔ یہ وہ صدقۂ جاریہ ہے جو ہماری دینی ودُنیاوی زندگی کا اصل سرمایہ ہے۔
غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اللہ نے اپنی اَن گنت نعمتوں میں سے ایک نعمت کے وسیلے کی اتنی قدرکی ہے۔جبکہ ہم اللہ تعالیٰ 
کی لاتعداد نعمتوں کے ایک ذّرے کا بھی حق ادا نہیں کرسکتے۔وہ ہمیں نوازتا جارہا ہے۔ہم تو اُس کو بجاطور پر محسوس بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے مالک کا کرم ہے کہ راستہ بھی وہی دکھاتا ہے۔ہم صرف ایک کام کرسکتے ہیں اور وہی کرنا بھی چاہیے۔اپنے قول بلکہ اپنے عمل سے  ہرحال میں،ہرسانس میں،ہروقت اللہ کا'شکر'ادا کرناہے۔اسی طرح ہم اللہ بلکہ اپنی ماں،اپنے وجود کی تخلیق کا حق ادا کرنےکی کوشش میں 'کسی حد تک' سُرخرواورایک سیدھے اور سچّے راستے کی طرف رہنمائی میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی ہمارا حال ہونا چاہیے اور یہی ہمارا مُستقبل ہوگا۔ ان شاءاللہ
2012 ، 25 جولائی 

2 تبصرے:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...