"پتھر کہانی "
مٹی اور پتھرکی عجیب داستانِ فطرت ہے۔ پتھر اپنےوجود کے لیے مٹی کا مُحتاج ہے جبکہ مٹی پتھر سے کسی قسم کا فیض نہ اٹھاتے ہوئے پھر بھی پتھروں سےجی لگاتی ہے اور پتھروں کو ہی پالتی ہے۔ اپنی چاہ میں۔۔۔اپنی راہ میں۔۔۔اپنے بدن میں۔۔۔اپنی روح میں۔۔۔اپنی تنہائی میں۔۔۔اپنی محفل میں۔۔۔یہ جانے بناء کہ پتھرصرف روگ ہی لگاتے ہیں۔
یہ قدرت کا وہ بانجھ عطیہ ہیں جوکبھی بارآورنہیں ہو سکتے۔ اِن کو توڑکر دودھ کی نہرتونکالی جا سکتی ہے۔۔۔کسی کا راستہ تو روکا جا سکتا ہے۔۔۔ ان کو بارود سے اُڑا کرراستہ تو بنایا جاسکتا ہے۔۔۔ان کو سجا کر گھر آراستہ تو کیا جا سکتا ہے۔۔۔ان کے رنگوں کی ہمہ گیری میں مگن تو ہوا جا سکتا ہے۔۔۔ان کو سینے سے باندھ کر زندگی کےسمندر میں ڈوبا تو جا سکتا ہے۔۔۔۔ان کو پیٹ پر باندھ کر بھوک سے بچا تو جا سکتا ہے۔۔۔ ان کو اپنی ذات کےخالی گھڑےمیں ڈال کرپانی کا سراب تو محسوس کیا جاسکتا ہے۔۔۔لیکن!!!اپنی ذات کا آئینہ روشن نہیں کیا جا سکتا کہ پتھرروشنی نہیں دیتے روشنی روک لیتے ہیں۔ اگر گھر بناتے ہیں تو قبر میں بھی اتار دیتے ہیں۔
پتھروں کی بنیادوں پر بنے گھر زلزلے کے ایک جھٹکے سے زمیں بوس بھی ہو جایا کرتے ہیں اور سارا مال ومتاع ملبے تلےیوں دب جاتا ہے کہ پھر قبر کے لیے جگہ بھی تنگ ہو جاتی ہے۔(مظفرآباد کا زلزلہ اکتوبر 2005،8)
ہر شے پتھر نہیں ہوتی۔ پتھر قیمتی بھی ہوتے ہیں اور انمول بھی۔پتھرساتھی بھی ہیں اور رقیب بھی۔
شوربھی کرتے ہیں اورخاموش بھی رہتے ہیں۔۔۔ہمارے وجود کے مدفن میں چُپ چاپ۔نہ چھیڑو تو کبھی تنگ نہیں کرتے۔اور اگر غلطی سے رابطہ کر لو توپھر سنبھالے نہیں سنبھلتے۔
پتھروں کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔۔۔ کوئی نام نسب نہیں ہوتا۔۔۔ کوئی موسم نہیں ہوتا۔خواہش ہوتی ہے۔۔۔بس جگہ ہوتی ہے دل میں نہیں دماغ میں نہیں لیکن جسم کےکسی نہ کسی کونے میں اپنا گھر بنا ہی لیتے ہیں۔
نومبر 15 ،2012
مٹی اور پتھرکی عجیب داستانِ فطرت ہے۔ پتھر اپنےوجود کے لیے مٹی کا مُحتاج ہے جبکہ مٹی پتھر سے کسی قسم کا فیض نہ اٹھاتے ہوئے پھر بھی پتھروں سےجی لگاتی ہے اور پتھروں کو ہی پالتی ہے۔ اپنی چاہ میں۔۔۔اپنی راہ میں۔۔۔اپنے بدن میں۔۔۔اپنی روح میں۔۔۔اپنی تنہائی میں۔۔۔اپنی محفل میں۔۔۔یہ جانے بناء کہ پتھرصرف روگ ہی لگاتے ہیں۔
یہ قدرت کا وہ بانجھ عطیہ ہیں جوکبھی بارآورنہیں ہو سکتے۔ اِن کو توڑکر دودھ کی نہرتونکالی جا سکتی ہے۔۔۔کسی کا راستہ تو روکا جا سکتا ہے۔۔۔ ان کو بارود سے اُڑا کرراستہ تو بنایا جاسکتا ہے۔۔۔ان کو سجا کر گھر آراستہ تو کیا جا سکتا ہے۔۔۔ان کے رنگوں کی ہمہ گیری میں مگن تو ہوا جا سکتا ہے۔۔۔ان کو سینے سے باندھ کر زندگی کےسمندر میں ڈوبا تو جا سکتا ہے۔۔۔۔ان کو پیٹ پر باندھ کر بھوک سے بچا تو جا سکتا ہے۔۔۔ ان کو اپنی ذات کےخالی گھڑےمیں ڈال کرپانی کا سراب تو محسوس کیا جاسکتا ہے۔۔۔لیکن!!!اپنی ذات کا آئینہ روشن نہیں کیا جا سکتا کہ پتھرروشنی نہیں دیتے روشنی روک لیتے ہیں۔ اگر گھر بناتے ہیں تو قبر میں بھی اتار دیتے ہیں۔
پتھروں کی بنیادوں پر بنے گھر زلزلے کے ایک جھٹکے سے زمیں بوس بھی ہو جایا کرتے ہیں اور سارا مال ومتاع ملبے تلےیوں دب جاتا ہے کہ پھر قبر کے لیے جگہ بھی تنگ ہو جاتی ہے۔(مظفرآباد کا زلزلہ اکتوبر 2005،8)
ہر شے پتھر نہیں ہوتی۔ پتھر قیمتی بھی ہوتے ہیں اور انمول بھی۔پتھرساتھی بھی ہیں اور رقیب بھی۔
شوربھی کرتے ہیں اورخاموش بھی رہتے ہیں۔۔۔ہمارے وجود کے مدفن میں چُپ چاپ۔نہ چھیڑو تو کبھی تنگ نہیں کرتے۔اور اگر غلطی سے رابطہ کر لو توپھر سنبھالے نہیں سنبھلتے۔
پتھروں کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔۔۔ کوئی نام نسب نہیں ہوتا۔۔۔ کوئی موسم نہیں ہوتا۔خواہش ہوتی ہے۔۔۔بس جگہ ہوتی ہے دل میں نہیں دماغ میں نہیں لیکن جسم کےکسی نہ کسی کونے میں اپنا گھر بنا ہی لیتے ہیں۔
نومبر 15 ،2012
بہت ہی اعلی مضمون ہے ...شاندار ...پتھر اور مٹی کے رشتے پر کبھی غور کیا ہی نہیں -
جواب دیںحذف کریںواہ واہ نورین
جواب دیںحذف کریںکیا دور کی کوڑی لائی ہیں
سلامت رہیں
The last paragraph and specifically the last line is wonderful
جواب دیںحذف کریں