سورۂ الحجراتمدنی سورہ (49)۔ آیت 12۔ترجمہ ۔۔
" اے ایمان والو بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے مال کا تجسُس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے ۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے اور اللہ سے ڈرو ۔بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے"
کسی کی غیرموجودگی میں اُس کی برائی کرنا یا اس کا ذکر ان الفاظ میں کرنا جو اسے ناگوار گزرے غیبت کہلاتا ہے۔اس بُرائی کی مثال یوں بتائی گئی ہےجیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔
دیکھا جائےتو یہ بہت بڑا گُناہ ہے۔لیکن غور کیا جائے توبہت معمولی سا گُناہ ہے۔۔۔اُس گُناہ کے مقابلے میں۔۔۔ جو اُس شخص سے انجانے میں سرزد ہو رہا ہے جس کی غیبت کی جا رہی ہے۔
سوچ کے دائرے کو وُسعت دی جائے توغیبت کرنے والے۔۔۔ اپنا کام کر کے۔۔۔ دسترخوان سمیٹ کر۔۔۔پیٹ بھر کر۔۔۔مطمئن ہو کر۔۔۔اپنی راہ لیتے ہیں۔ اُس برائی کے اثرات وثمرات تو وقت آنے پر ہی سامنے آتے ہیں۔اگر وقت سے پہلے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تونہ صرف توبہ کا دروازہ کُھلا ہے بلکہ اگر اللہ حوصلہ دے دے تو بندوں سے بھی معافی کی گُنجائش موجود ہے۔ اس طرح اس گُناہ کا کفارہ ادا کیا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس وہ شخص جسے معلوم ہو گیا کہ اُس کی غیبت کی گئی ہے۔ اُس کے سامنے تین راستے ہیں۔۔۔ایک یہ وہ کسی ہمدرد سے مل کراپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔دوم صبر کے نام پر لڑائی جھگڑے سے بچنے۔۔۔ثبوت نہ ہونے کی بناء پرمعاملہ اللہ کے سپُرد کردےاورتیسرا اپنی آنکھوں سے دیکھ کر۔۔۔کانوں سے اپنے بارے میں دوسروں کی آراء سن کر۔۔۔ یقین کرلے کہ لوگ اُس کے دُشمن ہیں۔ جس کی برئی کی جائے اُس شخص کا یہ طرزِفکراُس کے لیے ہمیشہ کی ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔وضاحت اس طرح جب ہم کسی کوہمدم وہمرازسمجھتے ہیں توانجانے میں اس کواللہ سےبڑھ کر فوقیت دے رہے ہوتے ہیں۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی دکھائی نہیں دیتا جو اِس زیارتی پرہمیں تسلی دے۔۔۔ہماری رہنمائی کرے۔
دوسرے کسی کو کچھ بتائے بغیرمعاملہ اللہ کے حوالے کرتے ہوئےیہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ہمارے کہنے سے پہلے ہی سب جانتا ہےسب دیکھ رہا ہے۔ یہ ہماری ناقص عقل ہےجوجلدبازی پرمجبور کرتی ہے۔اللہ پاک بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ وہ مشکل گھڑی میں اپنے بندے کو تنہا کیسے چھوڑ سکتا ہے۔
اسی طرح جب اپنے حواس پربھروسہ کرکے غمزدہ اوردل گرفتہ ہو جائیں تو یہ بھی سنگین غلطی ہے۔حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ آنکھوں دیکھی اورکانوں سُنی ہربات عین حقیقت نہیں ہوتی۔ اور یہ دلوں کی بات ہے جوصرف اللہ جانتا ہےہم خود سے گمان کرکےاللہ کی عظیم صفت میں شرک کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہیےکہ جب انصاف کےدن ہرمعاملہ کُھل کرسامنے آئے گا پھرمعاملہ دوسروں کےعمل اور ہماری عقل کے درمیان ہو گا۔عقل ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔
" اے ایمان والو بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے مال کا تجسُس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے ۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے اور اللہ سے ڈرو ۔بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے"
کسی کی غیرموجودگی میں اُس کی برائی کرنا یا اس کا ذکر ان الفاظ میں کرنا جو اسے ناگوار گزرے غیبت کہلاتا ہے۔اس بُرائی کی مثال یوں بتائی گئی ہےجیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔
دیکھا جائےتو یہ بہت بڑا گُناہ ہے۔لیکن غور کیا جائے توبہت معمولی سا گُناہ ہے۔۔۔اُس گُناہ کے مقابلے میں۔۔۔ جو اُس شخص سے انجانے میں سرزد ہو رہا ہے جس کی غیبت کی جا رہی ہے۔
سوچ کے دائرے کو وُسعت دی جائے توغیبت کرنے والے۔۔۔ اپنا کام کر کے۔۔۔ دسترخوان سمیٹ کر۔۔۔پیٹ بھر کر۔۔۔مطمئن ہو کر۔۔۔اپنی راہ لیتے ہیں۔ اُس برائی کے اثرات وثمرات تو وقت آنے پر ہی سامنے آتے ہیں۔اگر وقت سے پہلے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تونہ صرف توبہ کا دروازہ کُھلا ہے بلکہ اگر اللہ حوصلہ دے دے تو بندوں سے بھی معافی کی گُنجائش موجود ہے۔ اس طرح اس گُناہ کا کفارہ ادا کیا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس وہ شخص جسے معلوم ہو گیا کہ اُس کی غیبت کی گئی ہے۔ اُس کے سامنے تین راستے ہیں۔۔۔ایک یہ وہ کسی ہمدرد سے مل کراپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔دوم صبر کے نام پر لڑائی جھگڑے سے بچنے۔۔۔ثبوت نہ ہونے کی بناء پرمعاملہ اللہ کے سپُرد کردےاورتیسرا اپنی آنکھوں سے دیکھ کر۔۔۔کانوں سے اپنے بارے میں دوسروں کی آراء سن کر۔۔۔ یقین کرلے کہ لوگ اُس کے دُشمن ہیں۔ جس کی برئی کی جائے اُس شخص کا یہ طرزِفکراُس کے لیے ہمیشہ کی ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔وضاحت اس طرح جب ہم کسی کوہمدم وہمرازسمجھتے ہیں توانجانے میں اس کواللہ سےبڑھ کر فوقیت دے رہے ہوتے ہیں۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی دکھائی نہیں دیتا جو اِس زیارتی پرہمیں تسلی دے۔۔۔ہماری رہنمائی کرے۔
دوسرے کسی کو کچھ بتائے بغیرمعاملہ اللہ کے حوالے کرتے ہوئےیہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ہمارے کہنے سے پہلے ہی سب جانتا ہےسب دیکھ رہا ہے۔ یہ ہماری ناقص عقل ہےجوجلدبازی پرمجبور کرتی ہے۔اللہ پاک بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ وہ مشکل گھڑی میں اپنے بندے کو تنہا کیسے چھوڑ سکتا ہے۔
اسی طرح جب اپنے حواس پربھروسہ کرکے غمزدہ اوردل گرفتہ ہو جائیں تو یہ بھی سنگین غلطی ہے۔حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ آنکھوں دیکھی اورکانوں سُنی ہربات عین حقیقت نہیں ہوتی۔ اور یہ دلوں کی بات ہے جوصرف اللہ جانتا ہےہم خود سے گمان کرکےاللہ کی عظیم صفت میں شرک کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہیےکہ جب انصاف کےدن ہرمعاملہ کُھل کرسامنے آئے گا پھرمعاملہ دوسروں کےعمل اور ہماری عقل کے درمیان ہو گا۔عقل ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔
جولائی 5۔۔۔ 2015
جواب دیںحذف کریںحسن یاسر نے کہا۔۔
اگر کوئی سچ میں برا ہے اور اس کے شر سے لوگوں کو بچانے کے لیے اس کی اصلیت سے آگاہ کیا جائے تو ایسی صورت میں کیا یہ غیبت کہلائے گی؟ کیوں کہ بعض لوگ فنکاری سے اپنی خامیاں چھپاتے ہوئے دوسروں کے سامنے سادھو بن بیٹھتے ہیں اگر ان کی موجودگی میں بات کرنے کا موقع نہ ملے تو بعد میں ان کے کرتوت بیان کرنا کس زمرے میں آئے گا ؟
اللہ پاک آپ جناب کو آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائیں آمین ..
افسوس کی بات ہے کہ ہم ایسا ہی کرتے ہیں اور اپنی طرف سے یہی جواز بھی دیتے ہیں۔ لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ہر انسان اپنے تجربے سے ہی سیکھتا ہے چاہے وہ دوسرے لوگ ہوں یا ہمارے اپنے اور یا ہم خود ۔
حذف کریںایک بات کہیں پڑھی تھی کہ نصیحت کسی کو نہ کرو کہ عقل مند کو ضرورت نہیں اور بےوقوف سنے گا نہیں ۔
اللہ سب سے بڑا بچانے والا ہے انسان صرف وسیلہ بنتا ہے۔ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنا ہی تو سب سے بڑا شرک ہے۔لیکن جس کو اللہ سمجھ دے اس سمجھ کے استعال میں احتیاط برتنا ہی اصل ہنر ہے ۔ بےحسی اور خیال رکھنے میں بال برابر فرق ہے۔
وقت پر کھائی میں گرنے سے بچانا اہم ہے اور بعد میں سب بیکار کہ وقت خود ہی سب پول کھول دیتا ہے۔
دکھ کی بات یہی ہے کہ ہم سب اسی " بعد" میں آگاہ کرنے کے بےلذت گناہ کیے جاتے ہیں ۔