"ہم اپنی تکمیل کےخواہش مند ہیں محبت کی تکمیل کے نہیں ،محبت کی تکمیل قول سے نہیں عمل سے ہے "
محبت اللہ سے ہو یا اس کے بندوں سے خالص رکھو اور زندگی میں صرف ایک راستہ پکڑ لوتوتمہیں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔انسان سے محبت کرنا ہماری جبلّت ہے۔۔۔ ہماری ضرورت ہے۔۔۔ ہماری وہ خواہش ہے جو ہمارے اختیار سے باہر ہے۔اس کو باہر آنے دو،اس سے نظریں نہ چُراؤ وہ اپنے راستے پر چلے تم اپنے راستے پراگر سچی ہوئی تو منزل ایک ہے۔ اور اگر نہ ہوئی تو راستے جدا ہی تھے جدا ہی رہے پھر افسوس کس بات کا۔محبت ہمیشہ یکطرفہ ہوتی ہے چاہے اللہ سے ہو یا بندوں سے۔ہم محبت کرتے ہیں اور محبت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیشہ اس انتظارمیں رہتے ہیں کہ دوسری طرف سے کیا جواب آتا ہے۔ اس جواب کے انتظار میں ساری عمر گُزار دیتے ہیں، ناآسودہ ناخوش،اپنے آپ سے دست وگریباں،اپنی ذات میں خود کو تلاش کرتے ہوئے،اپناآپ مکمل کرنے کی چاہ میں۔ ہم نہیں جانتے کہ جواب اُسی لمحے آگیا تھا جب جب ہم نے محبوب کو دل سے پکارا تھا لیکن ہم اپنے گیان میں اتنا مگن تھے کہ خبر ہی نہ ہوئی اورمالامال ہو گئے یہ محبت ہے جو اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہے کہ دوسرے کو بھی اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ اپنے جیسے انسان کو داتا جان کر بھکاری کی طرح مانگتے چلے جاتے ہیں۔اندر کی بات یہ ہے کہ اُس کےپاس دینے کو کچھ نہیں ہوتا سوائےاپنی انا کے۔اور ہمارے پاس بھی صرف انا ہوتی ہے جو کسی اوردرجانے سے روکتی ہے۔ہم چاہتےہیں کہ کسی طرح اُس پارس کوچھو لیں جو ہمیں سونا بنا دے یا اپنی قیمت لگانے کےخواہش مند ہوتے ہیں کہ شاید یہی وہ تاج ہو جس کا نگینہ ہماری ذات ہو سکتی ہے۔وقت گُزرتا ہے،طمانچے پڑتے ہیں، تکمیلِ ذات کےلیے دردر بھٹکتے ہیں تو ساری انا سارا علم غبارے میں بھری ہوا کی طرح اُڑ جاتا ہے اور وجود کی شناخت تک باقی نہیں رہتی۔اُس وقت وہی یاد آتا ہے جو ہمیشہ ساتھ تھا لیکن ہم بھولےرہے۔ پر یہ سمجھ بھی اُسی کا کرم ہے جو ہر کسی کو عطا نہیں کرتا سوائے اُس کے جو آخری سانس سے پہلے اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر دے۔
اللہ سے محبت کرو،اللہ کی محبت سے محبت کرو۔ اس کی تخلیق سے محبت کرو۔
اپنے اندر کے انسان سے محبت کرو اپنے اندر کے اس ضدّی بچے سے محبت کرو جو اپنی خواہش کے حصول کے لیے تڑپتا ہے اور اُداس بیٹھا ہے۔
اپنی روشنی سے محبت کرو جو نہ صرف تمہیں بلکہ کسی اور کو بھی منور کر رہی ہے۔
اپنے اندھیرے سے محبت کرو جو تمہیں بتاتا ہے کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے جو جانتا ہے وہ تمہارا رب جانتا ہے۔
اپنی وفا سے محبت کرو جو کسی دل کی دھڑکن ہے۔۔۔
اپنی بےوفائی سے پیار کرو جو تمہیں کہیں رُکنے نہیں دیتی ۔۔۔ بےقرار رکھتی ہے۔
اپنی ناکامی سے پیار کرو،جو سوچ کے نئے در کھولتی ہے۔۔۔ اپنی کامیابی سے پیار کرو،جو تمہیں چلنے پراُکساتی ہے۔
اپنی عقل سے پیار کرو،جوتمہیں چوٹ لگنے کا سبب بتاتی ہے۔اپنی ناسمجھی سے محبت کرو جو تمہیں مکروفریب کےجالے میں اُلجھا کر اتنا بلند کر دیتی ہے کہ تمہاری روح غارِثور کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے۔
اللہ سے محبت کرو وہ تمہیں بندوں سے محبت کا قرینہ سکھا دے گا۔
بندوں سے محبت کرو وہ تمہارے لیے سانپ ہیں تو سیڑھی بھی ہیں۔۔۔ پیاس ہیں تو دریا بھی ہیں۔
اپنے آپ سے محبت کرو،خود کو پہچانو گے تو اپنے رب کو جان جاؤ گے۔
اپنے رب کی "محبت" سے محبت کرو۔اُس محبت کی جھلک بھی کبھی اگرمحسوس کرلی تو بیڑہ پار۔
ورنہ دردربھٹکتے رہو اور بےسمت بےنوا چلتے جاؤ۔
محبت اللہ سے ہو یا اس کے بندوں سے خالص رکھو اور زندگی میں صرف ایک راستہ پکڑ لوتوتمہیں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔انسان سے محبت کرنا ہماری جبلّت ہے۔۔۔ ہماری ضرورت ہے۔۔۔ ہماری وہ خواہش ہے جو ہمارے اختیار سے باہر ہے۔اس کو باہر آنے دو،اس سے نظریں نہ چُراؤ وہ اپنے راستے پر چلے تم اپنے راستے پراگر سچی ہوئی تو منزل ایک ہے۔ اور اگر نہ ہوئی تو راستے جدا ہی تھے جدا ہی رہے پھر افسوس کس بات کا۔محبت ہمیشہ یکطرفہ ہوتی ہے چاہے اللہ سے ہو یا بندوں سے۔ہم محبت کرتے ہیں اور محبت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیشہ اس انتظارمیں رہتے ہیں کہ دوسری طرف سے کیا جواب آتا ہے۔ اس جواب کے انتظار میں ساری عمر گُزار دیتے ہیں، ناآسودہ ناخوش،اپنے آپ سے دست وگریباں،اپنی ذات میں خود کو تلاش کرتے ہوئے،اپناآپ مکمل کرنے کی چاہ میں۔ ہم نہیں جانتے کہ جواب اُسی لمحے آگیا تھا جب جب ہم نے محبوب کو دل سے پکارا تھا لیکن ہم اپنے گیان میں اتنا مگن تھے کہ خبر ہی نہ ہوئی اورمالامال ہو گئے یہ محبت ہے جو اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہے کہ دوسرے کو بھی اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ اپنے جیسے انسان کو داتا جان کر بھکاری کی طرح مانگتے چلے جاتے ہیں۔اندر کی بات یہ ہے کہ اُس کےپاس دینے کو کچھ نہیں ہوتا سوائےاپنی انا کے۔اور ہمارے پاس بھی صرف انا ہوتی ہے جو کسی اوردرجانے سے روکتی ہے۔ہم چاہتےہیں کہ کسی طرح اُس پارس کوچھو لیں جو ہمیں سونا بنا دے یا اپنی قیمت لگانے کےخواہش مند ہوتے ہیں کہ شاید یہی وہ تاج ہو جس کا نگینہ ہماری ذات ہو سکتی ہے۔وقت گُزرتا ہے،طمانچے پڑتے ہیں، تکمیلِ ذات کےلیے دردر بھٹکتے ہیں تو ساری انا سارا علم غبارے میں بھری ہوا کی طرح اُڑ جاتا ہے اور وجود کی شناخت تک باقی نہیں رہتی۔اُس وقت وہی یاد آتا ہے جو ہمیشہ ساتھ تھا لیکن ہم بھولےرہے۔ پر یہ سمجھ بھی اُسی کا کرم ہے جو ہر کسی کو عطا نہیں کرتا سوائے اُس کے جو آخری سانس سے پہلے اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر دے۔
اللہ سے محبت کرو،اللہ کی محبت سے محبت کرو۔ اس کی تخلیق سے محبت کرو۔
اپنے اندر کے انسان سے محبت کرو اپنے اندر کے اس ضدّی بچے سے محبت کرو جو اپنی خواہش کے حصول کے لیے تڑپتا ہے اور اُداس بیٹھا ہے۔
اپنی روشنی سے محبت کرو جو نہ صرف تمہیں بلکہ کسی اور کو بھی منور کر رہی ہے۔
اپنے اندھیرے سے محبت کرو جو تمہیں بتاتا ہے کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے جو جانتا ہے وہ تمہارا رب جانتا ہے۔
اپنی وفا سے محبت کرو جو کسی دل کی دھڑکن ہے۔۔۔
اپنی بےوفائی سے پیار کرو جو تمہیں کہیں رُکنے نہیں دیتی ۔۔۔ بےقرار رکھتی ہے۔
اپنی ناکامی سے پیار کرو،جو سوچ کے نئے در کھولتی ہے۔۔۔ اپنی کامیابی سے پیار کرو،جو تمہیں چلنے پراُکساتی ہے۔
اپنی عقل سے پیار کرو،جوتمہیں چوٹ لگنے کا سبب بتاتی ہے۔اپنی ناسمجھی سے محبت کرو جو تمہیں مکروفریب کےجالے میں اُلجھا کر اتنا بلند کر دیتی ہے کہ تمہاری روح غارِثور کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے۔
اللہ سے محبت کرو وہ تمہیں بندوں سے محبت کا قرینہ سکھا دے گا۔
بندوں سے محبت کرو وہ تمہارے لیے سانپ ہیں تو سیڑھی بھی ہیں۔۔۔ پیاس ہیں تو دریا بھی ہیں۔
اپنے آپ سے محبت کرو،خود کو پہچانو گے تو اپنے رب کو جان جاؤ گے۔
اپنے رب کی "محبت" سے محبت کرو۔اُس محبت کی جھلک بھی کبھی اگرمحسوس کرلی تو بیڑہ پار۔
ورنہ دردربھٹکتے رہو اور بےسمت بےنوا چلتے جاؤ۔
Assalam-o-alikum.... Buhat Arsay baad kuch parhne ka ittefaq hua... or Alfaz se phir se kafi tang gehraow mere girdh dala... aik aik lafz kisi unchay ghanay darakh ki tarhan saya deta hua mehsos hua. :)
جواب دیںحذف کریں