ابتدائے انسانی سے دُنیا میں ایک انسان کا دوسرے انسان سے پہلا رشتہ یہی تعلق ہے تو دوسرے لفظوں میں یہی وہ تعلق ہے جو ہر رشتے کی بنیاد رکھتا ہے۔ ایسا تعلق جو حدود کے دائرے میں سفر کرنا چاہے تو صرف اور صرف ایک انسان سے ممکن ہے اور بےوزنی کی کیفیت میں اپنی کششِ سے نکل جائےتو اگر کوئی رُکاوٹ نہیں تو کہیں قرار بھی تو نہیں۔
اپنے خالق ومالک سے قرب اگر ہر رشتے کی نفی کرتا ہے تو ایک اجنبی سے جڑتا یہ تعلق ہر رشتے پر حاوی ہوجاتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ گرچہ مرد اور عورت کا یہ ربطِباہمی بالکل ذاتی اور انتہائی نجی معاملہ ہے لیکن تہذیبی دُنیا کے ہر مذہب میں اسے ایک مقدس معاشرتی فریضے کے طور پر سرانجام دیا جاتا ہے۔
شادی اگر انسان کی دُنیاوی زندگی کا انتہائی عجیب وغریب پہلو ہے تو اس سے بھی عجیب تر اس کی کاغذی شکل "نکاح" ہے جو دو اجنبی مرد اور عورت کے ساری زندگی ایک چھت،ایک گھر اور ایک بستر پر ساتھ رہنے کا معاہدہ ہے ۔یہ زندگی کا وہ موڑ ہے جس میں کوئی "یو ٹرن" نہیں۔ بظاہر یہ بات لایعنی سی دکھتی ہے کہ زندگی میں تو کچھ بھی کبھی بھی حرفِ آخر نہیں۔عقل کی رو سےکہا جائے کہ یہ تعلق کتنا ہی خاص اور مضبوط کیوں نہ ہو صرف تین لفظ کہنے سے یوں نام ونشان کھو دیتا ہے جیسے ریت پر لکھی تحریر یا پانی پر بنا نقش۔
حیران کن بات یہ ہے کہ گرچہ مرد اور عورت کا یہ ربطِباہمی بالکل ذاتی اور انتہائی نجی معاملہ ہے لیکن تہذیبی دُنیا کے ہر مذہب میں اسے ایک مقدس معاشرتی فریضے کے طور پر سرانجام دیا جاتا ہے۔
شادی اگر انسان کی دُنیاوی زندگی کا انتہائی عجیب وغریب پہلو ہے تو اس سے بھی عجیب تر اس کی کاغذی شکل "نکاح" ہے جو دو اجنبی مرد اور عورت کے ساری زندگی ایک چھت،ایک گھر اور ایک بستر پر ساتھ رہنے کا معاہدہ ہے ۔یہ زندگی کا وہ موڑ ہے جس میں کوئی "یو ٹرن" نہیں۔ بظاہر یہ بات لایعنی سی دکھتی ہے کہ زندگی میں تو کچھ بھی کبھی بھی حرفِ آخر نہیں۔عقل کی رو سےکہا جائے کہ یہ تعلق کتنا ہی خاص اور مضبوط کیوں نہ ہو صرف تین لفظ کہنے سے یوں نام ونشان کھو دیتا ہے جیسے ریت پر لکھی تحریر یا پانی پر بنا نقش۔
"تین لفظ"
حق تین لفظ کا نام نہیں ۔۔۔اورحق محض تین لفظ دہرانے سےحاصل نہیں ہوجاتا اور تین لفظ بول کر ختم بھی نہیں ہو جاتا۔ کسی پر حق جتانے یا منوانے کے لیے لفظ نہیں احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ لفظ کی اہمیت مسلّم ہے پراحساس لفظ سے نہیں عمل سے ہے۔ لفظ کے دام میں حق جتانا بعض اوقات زبردستی یا زیارتی کی حدوں کو چھونےلگتا ہےجبکہ احساس کی گرفت میں انسان بنا کسی گھبراہٹ کےخوشی خوشی اپنی ہمت سے بھی زیادہ بوجھ اٹھا لیتا ہے۔
حق تین لفظ کا نام نہیں ۔۔۔اورحق محض تین لفظ دہرانے سےحاصل نہیں ہوجاتا اور تین لفظ بول کر ختم بھی نہیں ہو جاتا۔ کسی پر حق جتانے یا منوانے کے لیے لفظ نہیں احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ لفظ کی اہمیت مسلّم ہے پراحساس لفظ سے نہیں عمل سے ہے۔ لفظ کے دام میں حق جتانا بعض اوقات زبردستی یا زیارتی کی حدوں کو چھونےلگتا ہےجبکہ احساس کی گرفت میں انسان بنا کسی گھبراہٹ کےخوشی خوشی اپنی ہمت سے بھی زیادہ بوجھ اٹھا لیتا ہے۔
کاغذی رشتوں کی اہمیت ،اُن کے تقدس سے انکار نہیں،وہ فرد سے فرد کی بقا اورنسلوں کی پاکیزگی کے ضامن ہوتے ہیں اور اُن کے لیے باعثِ افتخار بھی۔ کاغذ پر بننے والا اورکاغذ پر ہی ختم ہونے والا حق اپنی گہرائی اورمعنویت میں اتنا مضبوط ہوتا ہےکہ یہاں تک کے آخر میں کاغذ سلامت رہ جاتا ہے اورانسان فنا ہو جاتا ہے۔اوراتنا معتبرکہ دنیا میں اس سے بڑھ کر اورکوئی رشتہ کسی اجنبی سےممکن ہی نہیں۔
یہ کاغذی رشتہ کاغذی پھولوں کی طرح ہے جس میں مشاق ہاتھوں کی کاری گری سے جتنے چاہو رنگ بھر لو۔۔۔جیسے چاہو موڑ لو۔۔۔ جیسی خوشبو دینے کی استطاعت ہو اس میں جذب کر دو۔۔۔ چاہو تو اصل کو بھی مات دے دو۔ایسے ایسے رنگ تخلیق کرو کہ دیکھنے والے سراہنے والے اصل نقل کا فرق بھول جائیں۔۔۔اس کی یہی تو شان ہے کہ جس زاویے سے دیکھو مکمل دکھتا ہے۔۔۔ ہرموسم سے بےنیاز۔۔۔ جہاں جی چاہے رکھ دیں ہمیشہ نگاہوں کو خیرہ کرتا ہے۔بنانے والوں ۔۔۔ برتنے والوں کا ساتھ چھوٹ بھی جائے پھر بھی نسلوں کی صورت ان کی یادگارعلامت کے طور پرقائم رہتا ہے۔
کاغذ پر بننے والا یہ رشتہ یہ حق جتنا نازک جتنا حساس ہوتا ہے یہ برتنے والے ہی جانتے ہیں۔ خواہشوں کی دیمک سے بچاتے ہوئے۔۔۔ سمجھوتوں کی پھوار کا چھڑکاؤ کرتے رہنے سے ہی تازگی ملتی ہے۔ کاغذ کی زندگی جیتے جاگتے انسان کی شخصی آزادی کا خراج مانگتی ہے۔۔۔قطرہ قطرہ نچوڑتی ہے پرکہیں نام ونشان نہیں چھوڑتی۔ نہ لینے والے پر اور نہ دینے والے پرکبھی حرف آنے دیتی ہے۔
کاغذ پر بننے والا یہ رشتہ یہ حق جتنا نازک جتنا حساس ہوتا ہے یہ برتنے والے ہی جانتے ہیں۔ خواہشوں کی دیمک سے بچاتے ہوئے۔۔۔ سمجھوتوں کی پھوار کا چھڑکاؤ کرتے رہنے سے ہی تازگی ملتی ہے۔ کاغذ کی زندگی جیتے جاگتے انسان کی شخصی آزادی کا خراج مانگتی ہے۔۔۔قطرہ قطرہ نچوڑتی ہے پرکہیں نام ونشان نہیں چھوڑتی۔ نہ لینے والے پر اور نہ دینے والے پرکبھی حرف آنے دیتی ہے۔
بظاہر سادہ اور سہل دِکھتے اس بندھن میں وقت کے ساتھ کئی پیچیدگیاں درآتی ہیں اور یہ زندگی کا ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آتا ہے۔معاشرے کے حصار اور خاندان کی محبتوں کےسائے میں بننے والے اس خالص ذاتی احساس کو سمجھنا اور برتنا کبھی بہت دشوار ہو جاتا ہے۔حقوق وفرائض کے درمیان گردش کرتے اس بندھن کی بہت سی جہت ہیں جن میں سب سے اہم اور بنیادی کڑی اولاد کی صورت سامنے آتی ہے جس کے بعد سوچ وعمل کے زاویےیکسر تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ازدواجی بندھن کی مضبوطی اورطوالت صرف سمجھوتوں سےعبارت ہےاور ہر دو میں سے کسی ایک کو یہ بارِگراں اُٹھانا ہی پڑتا ہے۔ یہ اوربات کہ دونوں اپنی جگہ سمجھتے ہیں کہ اصل سمجھوتہ وہی کر رہے ہیں۔
ازدواجی بندھن کی مضبوطی اورطوالت صرف سمجھوتوں سےعبارت ہےاور ہر دو میں سے کسی ایک کو یہ بارِگراں اُٹھانا ہی پڑتا ہے۔ یہ اوربات کہ دونوں اپنی جگہ سمجھتے ہیں کہ اصل سمجھوتہ وہی کر رہے ہیں۔
غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اس تعلق میں بندھنے کے بعد جب ایک انسان کی ذات دوسرے فرد کے ساتھ منسلک ہو جاتی ہے تو پھر اس کی اپنی شخصیت اپنی ذاتی زندگی سب کچھ بٹ کر رہ جاتی ہے۔ایک فرد کی زندگی اور ذات پر گہرے اثرات مرتب کرتے اس تعلق میں سکون وکامیابی کے لیے پہلی شرط اپنےسے زیادہ دوسرے کی خواہش،چاہت اور ارمانوں کو فوقیت دینا ہےاور سب جانتے بوجھتے ہوئے اپنی زندگی پر اپنا حق چھوڑ دینا ہی اصل امتحان ہے۔
دنیا میں اس تعلق کے علاوہ اور کہیں بھی کسی بھی رشتے میں اس طرح انسان کا انسان پر تصرّف رکھنا جائز نہیں۔ اس رشتے کی سب سے بڑی مضبوطی اور انفرادیت بھی یہی ہے۔
۔"خیال" رکھنے کا مطلب صرف جسمانی اور مادی ضرورتوں کو پورا کرنا اور معاشرتی ذمہ داریوں سے انصاف کرنا ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ذہنی معیار کونہ صرف سمجھنا اورقبول کرنا ہے جو ہم آہنگی اورسکون حاصل کرنے کا اصل راز ہے۔
۔"خیال" رکھنے کا مطلب صرف جسمانی اور مادی ضرورتوں کو پورا کرنا اور معاشرتی ذمہ داریوں سے انصاف کرنا ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ذہنی معیار کونہ صرف سمجھنا اورقبول کرنا ہے جو ہم آہنگی اورسکون حاصل کرنے کا اصل راز ہے۔
آخری بات۔
ایک کامیاب ازدواجی زندگی کا سفرصرف جگمگاتے پہلے صفحے اوراُس سے بڑھ کرانتہائی شاندارآخری صفحے کی کہانی ہے۔
بیچ کون جانے کہ جب ہندسے ہی ثبوت ٹھہرے توحرف کی کیا مجال جو دخل اندازی کرے۔ جس کے پاس جو تھا وہی دے سکتا تھا اور دے بھی دیا! اب کچھ باقی نہیں کہنے کو۔
پر۔۔۔ ہم نادان ہیں۔۔۔ نہیں جانتے کہ آخری ورق لکھنے پر ہمارا اختیار نہیں اور یہ بھی کہ اگر کہانی پر لکیر سیدھی ہو جائے تو پھرکچھ باقی نہیں بچتا نہ قرار نہ انتظار، نہ گلہ نہ شکوہ۔۔۔
زندگی الجبرا کا سوال لگے تواُس کا جواب اگرمل بھی جائے تو ہمیشہ ایک ہی آتا ہے۔
بیچ کون جانے کہ جب ہندسے ہی ثبوت ٹھہرے توحرف کی کیا مجال جو دخل اندازی کرے۔ جس کے پاس جو تھا وہی دے سکتا تھا اور دے بھی دیا! اب کچھ باقی نہیں کہنے کو۔
پر۔۔۔ ہم نادان ہیں۔۔۔ نہیں جانتے کہ آخری ورق لکھنے پر ہمارا اختیار نہیں اور یہ بھی کہ اگر کہانی پر لکیر سیدھی ہو جائے تو پھرکچھ باقی نہیں بچتا نہ قرار نہ انتظار، نہ گلہ نہ شکوہ۔۔۔
زندگی الجبرا کا سوال لگے تواُس کا جواب اگرمل بھی جائے تو ہمیشہ ایک ہی آتا ہے۔
very nyc post
جواب دیںحذف کریںI don't know
جواب دیںحذف کریںwhy ?
people think about this relation very negative
ویسے تو پوری زندگی سمجھوتوں سے عبارت ہے۔ جیسے جیسے ہم شعور کی منازل طے کرتے ہیں ویسے ویسے ہمارے سمجھوتے بڑھتے جاتے ہیں۔ بچپن کے کھلونوں سے شروع ہونے والے یہ سمجھوتے بسا اوقات زندگی کے سمجھوتوں پر منتج ہوتے ہیں جس کے عنوان سے آپ نے یہ مضمون لکھا، یعنی نکاح۔ کہیں مرد سمجھوتہ کرتا ہے اور کہیں عورت سمجھوتے کے بار گراں کو اٹھاتی نظر آتی ہے لیکن یہ گاڑی چلتی اسی وقت ہے جب سمجھوتے کا ایندھن ڈالا جائے۔ بظاہر آسان نظر آنے والا یہ فعل درحقیقت دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے کہ اس میں نفی ذات کرنی پڑتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںدو شخصیات جن کی سوچیں، فہم، پرورش، تعلیم، رویے، معاشرت سب ایک دوسرے سے جدا ہوں، بعض اوقات "ضدین" کے تناسب سے ان کو نکاح کی ڈوری میں پرو کر ایک دوسرے کے تصرف میں یہ کہہ کر دے دینا کہ تم ایک دوسرے کی ملکیت ہو، شاید کچھ ایسی مناسب بات نہ ہو، گو کہ ہمارے معاشرے کی روایت یہی ہے۔ اگر میاں، بیوی ایک دوسرے کو ملکیت سے زیادہ ساتھی سمجھیں تو زندگی شاید زیادہ پر سکون گزرے ورنہ سمجھوتے کی چادر تو یہ رشتہ اوڑھے ہوئے ہے۔ کبھی کوئی یہی چادر اوڑھ کر منوں مٹی تلے جا سوتا ہے اور کہیں یہ چادر تار، تار ہو جاتی ہے۔
http://daleel.pk/2016/11/18/17402
جواب دیںحذف کریں