٭کچھ لوگ۔۔۔ کچھ رشتے۔۔۔ کچھ تعلق۔۔۔ نشے کی طرح ہوتے ہیں۔ایک باراُن کا ذائقہ چکھ لیا جائے توجان چُھڑانا مشکل ہے۔مگر نشہ جب روگ بن جائےتو زہربن جاتا ہے بُرا پھر بھی نہیں لگتا کہ اس کی عادت جو پڑ جاتی ہے۔ نشے کا علاج نشہ ہی ہے کہ زہر کو زہر ہی ختم کر سکتا ہے۔
٭کچھ رشتے گھونٹ گھونٹ چکھتے جاؤ خمار چڑھتا جاتاہے۔۔۔جتنے پُرانے ہوتے جاتے ہیں۔۔۔ اُتنے ہی قریب آجاتے ہیں۔۔۔ پُرانی شراب کی طرح۔ شراب دُنیا کی نظرسے دیکھی جائے تو حرام ہے،ممنوع ہے۔ لیکن اس کا ذکریہ لفظ قُرآن میں بھی ہے کہ شراب تو جنّت میں بھی ملے گی۔۔۔ جس کے ذائقے جس کی لذّت کی تعریف لفظ کے اختیار میں نہیں۔اس لیے جو رزق لکھ دیا گیا۔۔۔ جہاں لکھ دیا گیا۔۔۔ چُپ کرکے اپنا حصہ لیتے جاؤ۔۔۔ سوال نہ کرو۔۔۔ جواز نہ دو۔ مل جائے تو لے لو ورنہ آگے بڑھ جاؤ کہ"دُنیا بہت بڑی ہے اور وقت بہت کم ہے"۔
٭کچھ رشتے گھونٹ گھونٹ چکھتے جاؤ خمار چڑھتا جاتاہے۔۔۔جتنے پُرانے ہوتے جاتے ہیں۔۔۔ اُتنے ہی قریب آجاتے ہیں۔۔۔ پُرانی شراب کی طرح۔ شراب دُنیا کی نظرسے دیکھی جائے تو حرام ہے،ممنوع ہے۔ لیکن اس کا ذکریہ لفظ قُرآن میں بھی ہے کہ شراب تو جنّت میں بھی ملے گی۔۔۔ جس کے ذائقے جس کی لذّت کی تعریف لفظ کے اختیار میں نہیں۔اس لیے جو رزق لکھ دیا گیا۔۔۔ جہاں لکھ دیا گیا۔۔۔ چُپ کرکے اپنا حصہ لیتے جاؤ۔۔۔ سوال نہ کرو۔۔۔ جواز نہ دو۔ مل جائے تو لے لو ورنہ آگے بڑھ جاؤ کہ"دُنیا بہت بڑی ہے اور وقت بہت کم ہے"۔
٭نشہ نشہ ہوتا ہے اور جب نیند کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے تو وہ وقت دیکھتا ہے اورنہ ماحول۔
٭نشہ نشہ ہوتا ہے چاہے خوش فہمی کا ہو یاغلط فہمی کا اس لیے جتنا جلد اس کے دام سے نکل آؤ، اس سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔
٭نشہ نشہ ہوتا ہے اوریہ اُتر ہی جاتا ہے چاہے وقت کی کڑوی دوا اثر کرے یا اپنے اندر کا عزم کام دکھائے۔
٭نشہ کبھی اہم نہیں ہوتا کہ یہ ہماری قوت ِبرداشت کا امتحان ہے اہم یہ ہے کہ کتنی جلدی اُترتا ہے سب سے بڑا نشہ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنا ہے۔
٭زندگی کی شراب کا ذائقہ کتنا ہی تلخ کتنا ہی بدمزہ کیوں نہ ہو بس آخری گھونٹ ۔۔۔اگلا جام اور کا خمار اس مےخانے کا اسیر رکھتا ہے۔
٭ کتاب کا نشہ جس کو ایک بار مل جائے وہ کبھی اس کے اثر سے باہر نہیں آ پاتا۔
حاصل کلام یہ ٹھہرا کہ کوئی ساتھ بھی اپنا نہیں جب تک کہ ہم خود اپنے ساتھ نہ ہوں ۔اللہ ہم سب کو اپنے اپنے نشے اپنی اپنی طلب کی پہچان کا علم عطا فرمائے ورنہ بےخبری کا نشہ انسان کو دیمک کی طرح چاٹ کر یکدم عرش سے فرش پر بھی گرا دیتا ہے اور کہیں کا نہیں رہنے دیتا نہ دین کا نہ دُنیا کا ۔٭نشہ نشہ ہوتا ہے چاہے خوش فہمی کا ہو یاغلط فہمی کا اس لیے جتنا جلد اس کے دام سے نکل آؤ، اس سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔
٭نشہ نشہ ہوتا ہے اوریہ اُتر ہی جاتا ہے چاہے وقت کی کڑوی دوا اثر کرے یا اپنے اندر کا عزم کام دکھائے۔
٭نشہ کبھی اہم نہیں ہوتا کہ یہ ہماری قوت ِبرداشت کا امتحان ہے اہم یہ ہے کہ کتنی جلدی اُترتا ہے سب سے بڑا نشہ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنا ہے۔
٭زندگی کی شراب کا ذائقہ کتنا ہی تلخ کتنا ہی بدمزہ کیوں نہ ہو بس آخری گھونٹ ۔۔۔اگلا جام اور کا خمار اس مےخانے کا اسیر رکھتا ہے۔
٭ کتاب کا نشہ جس کو ایک بار مل جائے وہ کبھی اس کے اثر سے باہر نہیں آ پاتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں