منگل, دسمبر 18, 2012

" یاد کرنے کا رشتہ ملنے کے رشتے سے گہرا ہوتا ہے "

"یاد کرنے کا رشتہ ملنے کے رشتے سے گہرا ہوتا ہے "
ہر روزہم کتنے ہی لوگوں سےملتے ہیں کتنے ہمارے آس پاس موجود ہوتے ہیں۔اُن کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔یہ وقت کے سمندرمیں لہروں کی مانند ہیں جوآتی ہیں اورجاتی ہیں۔جب آتی ہیں تو ہمیں سرسے پیرتک شرابورکردیتی ہیں۔ ان میں ہمارے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا۔ محبت،نفرت،تعلق،لاتعلقی،ضرورت، مجبوری، سمجھوتہ،غرض کہ ہررویہ ان میں پنہاں ہوتا ہے۔ ہماری پور پوربھیگ جاتی ہے لیکن لہروں کا تو کام ہی ہے پلٹنا۔ جب یہ واپس ہوتی ہیں تو اپنا نشان تک نہیں چھوڑتیں۔ یہی گردشِ دوراں ہے۔اسی آنے جانےمیں  ہماری عمر تمام ہو جاتی ہے پتھر کے بُت کی طرح کھڑے رہ کر ہم اپنا تماشا خود ہی دیکھتےہیں۔ یہ تو ہمارے جسم کی خوراک ہے جوہمیں ملتی رہتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں کوئی تگ و دو نہیں کرنا پڑتی اچھا بُرا جیسا بھی ہوہماری ضرورت ہے۔ روح کی خوراک کے لیے ہمیں خود آگے بڑھنا پڑتا ہےلیکن اس کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔
ہم تمام عمر جسم کی طلب پوری کرنے میں بسر کر دیتے ہیں یہ احساس ساتھ ضرور چلتا ہےکہ کچھ ہے جو باقی ہے کوئی پیاس ہے جو بجھنی چاہیے۔اسی احساس کو سامنے رکھ کرہم اس تشنگی کو اُسی خوراک میں تلاش کرتے ہیں جو ہمارے جسم کوملتی ہے اوراسے لازمی انہی لہروں میں ملنا چاہیے اگر توسَیر ہوناہے کیونکہ ہم حرکت کرنے سے قاصر ہیں۔ یہی جبر وقدرکا فلسفہ بھی ہے۔اس عظیم سچ کے خلاف ہم آواز بلند کرتے ہیں۔۔۔احتجاج کرتے ہیں۔ لیکن ہماری آوازصرف ہمارے اپنے کان ہی سن سکتے ہیں۔تازہ ہوا کے لیے اس گھٹن میں ہم جس کو پکارتے ہیں وہی ہماری روح کی خوراک ہوتی ہے،ہماری تسکین ہوتی ہے۔
یہ لذت کبھی ہمیں اللہ سےباتیں کر کے حاصل ہوتی ہے تو کبھی کسی کتاب میں سےکوئی بات پڑھ کر،کبھی کسی انسان کے خیالات جان کر،کر،کبھی کسی دور دیس میں رہنے والے اپنے پیارے کےبارے میں سوچ کر،اس کے لیے دعا کرکے، کبھی اپنے بچپن میں ملنے والی بے لوث محبتوں کو یاد کرکے تو کبھی اپنی اُن ان کہی ان سنی کہانیوں کوسوچ کر۔۔۔ جو رگِ جاں میں یوں سمائیں کہ دل ان کے طلسم سے باہرہی نہیں نکلتا کبھی اپنے چاہنے والوں کے کام آکر، کبھی کسی چھوٹے بچے سے اس کے اندازمیں باتیں کر کےغرض کہ ہماری خوراک ہمیں ملتی رہتی ہے۔ ہمیں اس کا اس طور ادراک تو نہیں ہوتا لیکن ایک خلا ہے جو پُرہوتا جاتا ہے۔سب سےخاص بات اس رشتے کی فاصلہ ہے۔۔ جتنا زیادہ فاصلہ ہو گا اتنی زیادہ شدّت سےاحساس کی لو
بھڑکے گی۔لیکن یاد رکھنے کی ایک اہم بات  یہ ہے کہ 
"خوشی کو انسان سے مشروط کبھی نہ کرو"۔کسی انسان کواپنےغموں کا مداوا جاننا اس کوآئیڈیل بنانا بسااوقات مایوسی کا باعث ہوتا ہے کوئی بھی مکمل نہیں ہوتا بلکہ ہم خود بھی اپنے آپ کو مطمئن نہیں کر سکتے۔
مئی 2003،25

1 تبصرہ:

  1. انسان کا خمیر ایسی مٹی سے اٹھایا گیا ھے جس میں خوشی اور غم کے احساس کو بطور خاص گوندھا گیا ھے خوشی اور غم کے احساس اپنے اپنے ھوتے ھیں لیکن میں آپ کی اس بات سے بالکل متفق ھوں کە کوئ ملال بھت دیر تک نھی رھتا تیرا خیال بھت دیر تک نھی رھتا......
    Aimy

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...